280

’سائرہ بانو جو صاحب کی محبوبہ، دوست اور جیون ساتھی سبھی کچھ ہی تو تھیں‘

یہ الفاظ تھے گذشتہ 21 سال سے دلیپ کمار کے خاندان کے ترجمان، 30 سال سے ذاتی اور کوئی 40 برس سے خاندانی رابطے رکھنے والے فیصل فاروقی کے۔

فیصل فاروقی کہتے ہیں کہ صاحب (دلیپ کمار) کی وفات سے 24 گھنٹے پہلے ان کی طبعیت انتہائی خراب ہو گئی تھی۔ ‘ڈاکٹروں نے مجھے کہنا شروع کر دیا کہ ان کی طبعیت سنبھل نہیں رہی۔ بلڈ پریشر کنٹرول میں نہیں آ رہا۔ ڈاکٹر چاہتے تھے کہ کسی طرح یہ بات سائرہ باجی کو بتائی جائے۔‘
‘اب مسئلہ یہ تھا کہ ڈاکٹر دیکھ رہے تھے کہ سائرہ باجی ہسپتال میں بھی 24 گھنٹے صاحب کا خیال رکھ رہی تھیں۔ یہاں تک کہ جب ڈاکٹروں نے کہا کہ ان کے پھیپھڑے کمزور ہو چکے ہیں اور ایک ممکنہ علاج اب ممکن نہیں رہا تو انھوں نے ڈاکٹروں سے بات کر کے مزید ماہر ڈاکٹروں کو چیک اپ کے لیے بلایا تھا۔‘

فیصل فاروقی کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر سائرہ باجی کی صاحب (دلیپ کمار) کے ساتھ جذباتی وابستگی دیکھ کر کوئی بات نہیں کر پا رہے تھے اور مجھ سے کہتے کہ میں بات کروں۔
‘میں نے دو، تین مرتبہ کوشش کی مگر جب بھی کوئی بات کرنے کی کوشش کرتا تو بات آگے بڑھا نہ پاتی۔‘
آمنے سامنے بات کرنا ممکن نہ ہوا تو سائرہ باجی کو فون کیا اور کہا کہ مجھے ضروری بات کرنی ہے تو انھوں نے کہا کہ ’دیکھو فیصل اس وقت کوئی بات نہیں ہو سکتی صاحب ہسپتال میں ہیں مجھے ان کو دیکھنا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ‘میں چپ ہو گیا، میری ہمت ہی نہ ہوئی کہ مزید بات کر سکوں۔ مجھے لگا کہ سائرہ باجی صاحب (دلیپ کمار) کے بارے میں کوئی بات سننے کو ذہنی طور پر تیار نہیں ہیں۔ وہ ابھی بھی توقع کر رہی ہیں کہ وہ پھر صاحب کو لے کر جلد گھر چلی جائیں گئیں۔‘

50% LikesVS
50% Dislikes

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں