بیس برسوں کی جنگ کے بعد امریکی فوج کا افغانستان سے انخلا ہو گیا ہے۔ کابل کے قریب بگرام کا فوجی اڈّہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے طالبان اور القاعدہ کے خلاف فوجی کارروائیوں کا مرکز تھا۔
امریکہ کی قیادت میں مغربی افواج افغانستان میں دسمبر سنہ 2001 میں داخل ہوئی تھیں، اور بگرام کے فوجی اڈے کو ایک بہت ہی بڑے اور جدید فوجی اڈے کے طور پر جس میں دس ہزار فوجیوں کو رکھنے کی گنجائش تھی، اس کی تعمیر بعد میں کی گئی۔
امریکی صدر جو بائیڈن کے گیارہ ستمبر تک افغانستان سے مکمل انخلا کے اعلان کے بعد اب امریکیوں نے یہ اڈہ خالی کر دیا ہے۔ اس دوران طالبان افغانستان بھر میں مختلف ضلعوں پر قبضہ کرتے ہوئے تیزی سے پیش رفت کر رہے ہیں۔اس جنگ کی سب کو بہت ہی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے، یہ قیمت نہ صرف مالی صورت میں چکائی گئی بلکہ قیمتی انسانی جانوں کا بھی ضیاع ہوا۔ لیکن اتنا سب کچھ کرنے کے مقاصد کیا تھے اور کیا امریکہ نے وہ تمام مقاصد حاصل کر لیے ہیں؟امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیوں کیا تھا؟
امریکہ پر گیارہ ستمبر، سنہ 2001 کے حملوں میں جب کئی مسافر طیاروں کو ہائی جیک کیا گیا اور انھیں نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی عمارتوں، ورجینیا کے شہر آرلنگٹن میں امریکی محکمہ دفاع کی عمارت پینٹاگان سے ٹکرا دیا گیا تھا اور اس کے نتیجے میں تقریباً تین ہزار شہری ہلاک ہوئے تھے۔ ایک چوتھا طیارہ پینسیلوینیا میں ہائی جیک ہوا تھا لیکن وہ ایک میدان میں گر کر تباہ ہو گیا تھا۔
امریکی حکومت نے ان حملوں کا ذمہ دار القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو قرار دیا۔ افغانستان کے شدت پسند طالبان جو اُن دنوں افغانستان کی انتظامیہ پر قابض تھے، انھوں نے اسامہ بن لادن کو اپنے ہاں پناہ دی ہوئی تھی اوراُسے امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ اس پس منظر میں گیارہ ستمبر کے حملے کے ایک ماہ بعد امریکہ نے طالبان اور القاعدہ دونوں کو شکست دینے کے لیے افغانستان پر فضائی بمباری کا آغاز کیا۔
اس کے بعد کیا ہوا؟
اس کے دو مہینوں کے اندر امریکہ، اس کے بین الاقوامی اور افغان اتحادیوں نے طالبان کی حکومت کے خلاف ایک بڑی جنگ شروع کر دی، طالبان کو شکست ہوئی اور ان میں سے چند عناصر پاکستان کے افغانستان سے متصل قبائل علاقوں میں روپوش ہو گئے۔ تو کیا افغانستان کی جنگ سنہ 2001 میں شروع ہوئی؟
اس کا مختصر جواب تو نفی میں ہے۔ افغانستان حالتِ جنگ میں گذشتہ کئی دہائیوں سے پھنسا ہوا ہے، یہاں تک کہ امریکہ کی مداخلت سے بھی کہیں پہلے سے۔ سنہ 70 کی دہائی میں افغانستان میں کمیونسٹ حکومت کی حمایت کے لیے سویت یونین کی افواج نے مداخلت کی تھی۔ سویت فوجوں کو افغانستان میں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا — یہ مزاحمت افغان مجاہدین کہلانے والے گروہوں کی طرف سے ہوئی تھی جنھیں امریکہ، پاکستان، چین اور سعودی عرب کی حمایت حاصل تھی۔
سویت فوجیوں کا افغانستان سے سنہ 1989 میں انخلا ہو گیا، تاہم ملک میں خانہ جنگی جاری رہی۔ اس کے بعد جس قسم کی افغانستان میں افراتفری مچی اُس میں طالبان ایک نئی طاقت بن کر اُبھرے (لفظ ‘طالب’ کی جمع ‘طالبان’ ہے جس کے معنی ‘طالبِ علم’ ہے)۔
- About the Author
- Latest Posts
Nasir Shah Wani is a CEO And Chief Editor of The Daily Talib News , on English and Urdu Platform