56

عمران خان کے تحریک طالبان پاکستان کو ’پشتون تحریک‘ کہنے پر تنقید، معافی کا مطالبہ

عمران خان کے تحریک طالبان پاکستان کو ’پشتون تحریک‘ کہنے پر تنقید، معافی کا مطالبہ

(ڈیلی طالِب)

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کو شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کو ’پشتون تحریک‘ کہنے پر شدید تنقید کا سامنا ہے اور پاکستان کے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے وزیراعظم پاکستان سے ’پشتونوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے‘ پر ان سے معافی کا مطالبہ کیا ہے۔

مڈل ایسٹ آئی کے ساتھ انٹرویو کے دوران جب عمران خان سے پوچھا گیا کہ انھوں نے اپنی کتاب میں کہا تھا کہ امریکی انخلا سے افغانستان میں قدرتی طور پر استحکام آ سکے گا مگر ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) اب پاکستان میں ایک مسئلہ بنا ہوا ہے، امریکی انخلا سے یہ مسئلہ کیوں نہ حل ہو سکا؟

عمران خان نے اس کے جواب میں کہا کہ ’ٹی ٹی پی سرحد کی پاکستانی جانب کے پشتون ہیں۔۔۔ طالبان ایک پشتون تحریک ہے۔ افغانستان میں تقریباً 45 سے 50 فیصد پشتون آبادی ہے۔ برطانیہ کی قائم کردہ ڈیورنڈ لائن میں پاکستانی جانب پشتونوں کی قریب دگنی آبادی ہے۔‘

وزیر اعظم پاکستان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہوا تب انھوں نے طالبان کو نکال باہر کیا۔ تو اس طرف پشتونوں کو دوسری جانب پشتونوں سے ہمدردی ہوئی۔ اس کی وجہ مذہبی نظریات نہیں بلکہ پشتون عصبیت اور قومیت تھی جو بہت مضبوط ہے۔‘

اس انٹرویو کے شائع ہونے کے بعد پاکستان کے رکن قومی اسمبلی اور پشتون تحفط موومنٹ کے حامی محسن داوڑ نے ایک ٹویٹ میں عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک مرتبہ پھر پاکستان کے وزیراعظم‘ پشتونوں کو ’دہشتگرد قرار دے رہے ہیں‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان ان ’لاکھوں پشتونوں کے زخموں پر نمک چھڑک رہے‘ ہیں جن کے پیاروں نے طالبان کی شدت پسندی کی وجہ سے جانیں گنوائیں ہیں۔

اس ٹویٹ کے کچھ دیر بعد محسن داوڑ نے ایک ٹویٹ کے ذریعے یہ بتایا کہ انھوں نے پاکستان کی قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف ایک قراردار جمع کرائی ہے جس میں انھوں نے ’پشتونوں کو طالبان‘ کہنے اور ’دہشتگردوں سے موازنہ‘ کرنے پر عمران خان سے معافی کا مطالبہ کیا ہے۔

تاہم اپنی قراردار کی جو کاپی انھوں نے شیئر کی ہے اس میں عمران خان کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کا حوالہ دیا گیا ہے نہ کہ مذکورہ انٹرویو کا۔

واضح رہے کہ اس انٹرویو سے قبل عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی حالیہ تقریر میں کہا تھا کہ افغانستان کے سرحد کے ساتھ واقع پاکستان کی قبائلی علاقے کے لوگ ’طالبان کے ساتھ گہری ہمدردی رکھتے تھے جس کی وجہ مذہبی پہچان نہیں بلکہ پشتون قوم پرستی ہے۔۔۔ پھر پاکستان میں ابھی بھی 30 لاکھ افغان پناہ گزین ہیں، تمام پشتون، جو خیموں میں رہ رہے ہیں، ان کی ہمدردیاں افغان طالبان کے ساتھ ہیں۔۔۔‘

محسن داوڑ کی قرارداد

محسن داوڑ نے اپنی قراردار میں کہا ہے کہ ’یہ ایوان عمران خان کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی حالیہ تقریر میں ان ریمارکس کی مذمت کرتا ہے، جس میں انھوں نے طالبان کو پشتون قوم پرست بیان کیا، جو کہ بالکل غلط ہے اور سچ نہیں۔‘

قراردار میں مزید لکھا ہے کہ ’وزیراعظم کے بے بنیاد اور غلط دعوے پشتونوں کی توہین ہے جو طالبان کے ہاتھوں سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ہزاروں پشتونوں، پشتون رہنماؤں اور سیاسی کارکنوں نے طالبان کی دہشتگرد کارروائیوں میں اپنی جانیں گنوائی ہیں۔‘

انھوں نے یہ بھی لکھا کہ ’یہ پہلی بار نہیں کہ جب وزیراعظم نے طالبان کو پشتونوں کے ترجمان کی حیثیت سے پیش کرنے کی کوشش کی ہو۔ لہذا ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ وزیراعظم اپنے الفاظ واپس لیں اور ان غلط دعووں اور پشتونوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے پر معافی مانگیں۔‘

عمران خان نے اپنے انٹرویو میں اور کیا کہا؟

عمران خان نے مڈل ایسٹ آئی کو انٹرویو میں مزید کہا کہ ’جب ہم امریکہ کے اتحادی بنے تو وہ (طالبان) ہمارے خلاف ہو گئے۔ انھوں نے ہمیں امریکہ کا ساتھی کہا اور ریاست پاکستان پر حملہ آور ہوئے اور خود کو پاکستانی طالبان کہنے لگے۔ (امریکی) اتحاد کا حصہ بننے سے قبل ایسا نہیں تھا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’ایک وقت ایسا بھی تھا جب 50 کے قریب مختلف گروہ خود کو طالبان کہتے تھے جو ہم پر حملے کر رہے تھے۔ پاکستان میں دہشتگردی کے 16 ہزار حملے ہوئے۔ ان میں 80 ہزار پاکستانی ہلاک ہوئے۔ جیسے جیسے امریکہ کی موجودگی (افغانستان میں) کم ہوتی رہی تب سے اس تحریک کا جذبہ ماند پڑنے لگا کیونکہ اب ہم (امریکہ کے) ساتھی نہیں تھے۔

’ہم اب (امریکہ کے) ساتھی نہیں کیونکہ اب ہم کسی کا ساتھ نہیں دے رہے جو پشتونوں سے لڑ رہا ہو۔۔۔ اب ہم ان سے بات چیت کی کوشش کر رہے ہیں جن سے صلح ہو سکتی ہے کیونکہ ہماری پوزیشن مضبوط ہے۔‘

عمران خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’میرا ہمیشہ سے یقین ہے کہ تمام مسلح مزاحمتیں مذاکرات کی میز پر ہی اختتام پذیر ہوتی ہیں۔ جیسے آئی آر اے (آئرش ریپبلکن آرمی) کے ساتھ ہوا۔ اب مضبوط پوزیشن کے ساتھ ہم ان سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں کیونکہ افغانستان میں افغان طالبان نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ افغانستان کی سرزمین سے ہم پر حملوں کی اجازت نہیں دیں گے۔‘

انٹرویو میں آگے ایک موقع پر عمران خان نے کہا کہ ’بہت سے لوگ (دہشتگردی کے خلاف کارروائیوں میں) کولیٹرل نقصان کی وجہ سے ٹی ٹی پی کا حصہ بنے۔ پشتون ثقافت میں غیرت کا تقاضہ ہے کہ اگر کسی خاندان کا فرد کسی کے ہاتھوں مارا جائے تو انھیں انتقام لینا پڑتا ہے۔ اور بدلہ لینے کے لیے وہ دوسرے گروہ کے ساتھ مل جاتے ہیں۔‘

سوشل میڈیا پر ردعمل

پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما منظور پشتین نے عمران خان کے انٹرویو کے دوران دیے گئے بیان پر تنقید کرتے ہوئے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں لکھا کہ ’عمران خان پشتونوں کے بارے میں مسلسل نسلی اور متضاد وضاحتیں دے رہے ہیں تاکہ ان کو مجرم بنا کر پیش کیا جا سکے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ اور سکیورٹی کے نام پر ان کے ساتھ ہونے والے ظلم کو چھپایا جا سکے۔‘

مونا نامی صارف نے لکھا ’بہت افسوس ہوتا ہے جب ایک سربراہ مملکت آنکھ جھپکے بغیر ایک پوری قوم کے دہشت گرد ہونے کا اعلان کرتا ہے۔‘

حمزہ داوڑ نے لکھا ’اپنی پالیسی پر عمل درآمد کے لیے چند ریاستی کرائے کے لوگوں کی شمولیت کی وجہ سے وزیر اعظم کی طرف سے پوری پشتون قوم کو دہشت گرد قرار دینا انتہائی قابل مذمت ہے۔‘

یاد رہے کہ پاکستانی حکام ماضی میں تحریک طالبان پاکستان سے متعلق یہ الزامات لگاتے رہے ہیں کہ انھیں غیر ملکی طاقتوں کی جانب سے مدد فراہم کی جاتی ہے۔

انھوں نے مزید لکھا: ’عمران خان سے ایک سوال ہے کہ کیا وہ خود کو ان دہشت گردوں میں شامل کرتے ہیں یا نہیں کیونکہ وہ بھی اپنے آپ کو پشتون کہتے ہیں۔‘

اکمل خان نے لکھا ’پشتون دہشتگرد نہیں بلکہ پشتون دہشتگردی کا شکار ہیں۔‘

ایک اور صارف نے لکھا ’عمران خان پشتونوں کو برا بنا کر پیش کرنا بند کریں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اس سرزمین کی بہتری کے لیے اپنے پیاروں کو کھویا لیکن آپ لوگ ان کی قربانیوں کو تسلیم نہیں کرتے۔‘

اعجاز یوسفزئی نے لکھا: پشتون دہشتگرد نہیں۔ ہم باچا خان کے نظریے پر عمل کرتے ہیں۔ ہمیں امن سے پیار اور تشدد سے نفرت ہے۔‘

عالم زیب محسود نے لکھا ’عمران خان نے ہمیشہ خود کو فائدہ پہنچانے والوں کو نقصان پہنچایا۔ پشتوںوں کو دو بار عمران خان کو حکومت دینے کا یہ صلہ ملا کہ اب وہ انھیں دہشتگرد ثابت کرنے پر لگے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں