کیچ دھماکے میں بچوں کی ہلاکت: کمسن بہن بھائی کی میتوں کے ہمراہ کوئٹہ میں دھرنا کیوں دیا جا رہا ہے؟
(ڈیلی طالِب)
’کیچ کے مقابلے میں کوئٹہ میں اس وقت سردی بہت زیادہ ہے۔ اس سردی میں کھلے آسمان تلے بیٹھنا کوئی آسان کام نہیں لیکن ہم یہاں سخت موسم میں اپنے دو معصوم بچوں کی لاشوں کے ہمراہ بیٹھنے پر مجبورہیں تاکہ ہمیں انصاف ملے۔۔۔ ہمارے پاس لوگوں کو بھیجا گیا کہ بچوں کو دفنا دیں آپ کو 20 لاکھ روپے دیں گے۔ ہم نے اُن کو جواب دیا کہ ہمیں نہ دولت چاہیے اور نہ زمین بلکہ صرف انصاف چاہیے۔‘
یہ دعویٰ ہے 75 برس کی مہناز بی بی کا جو اپنی کمسن پوتی اور پوتے کی میتوں کے ہمراہ گذشتہ تین روز سے کوئٹہ کے گورنر ہاؤس کے قریب دھرنا دیے بیٹھی ہیں۔
ضعیف ہونے کے باعث مہناز کے لیے بغیر سہارے کے چلنا مشکل ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ جب تک انھیں اپنے پوتوں کی ہلاکتوں پر انصاف نہیں مل جاتا وہ گورنر ہاؤس کے سامنے سے نہیں ہٹیں گی اور نہ ہی اپنے پوتوں کی تدفین کی اجازت دیں گی۔
یاد رہے کہ گذشتہ اتوار کو بلوچستان کے ضلع کیچ میں دھماکہ خیز مواد پھٹنے سے دو کمسن بچے ہلاک جبکہ ایک شدید زخمی ہوا تھا۔
بچوں کے لواحقین نے الزام عائد کیا ہے کہ یہ واقعہ ایف سی کی جانب سے فائر کیے جانے والے گولے کے پھٹنے سے پیش آیا تاہم ایف سی حکام نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ بچوں کی ہلاکت اُس ہینڈ گرینیڈ کے پھٹنے کے باعث ہوئی جس سے وہ کھیل رہے تھے۔
بچوں کے لواحقین گذشتہ اتوار سے میتوں کے ہمراہ احتجاج کر رہے ہیں تاہم ’انصاف نہ ملنے‘ کے باعث لواحقین نے میتوں کے ہمراہ اپنا دھرنہ کوئٹہ کے گورنر ہاؤس کے سامنے منتقل کر لیا اور اب بھی اس دھرنے میں شریک درجنوں خواتین اور مرد وہاں بیٹھے ہیں۔
لواحقین کا مطالبہ ہے کہ اس واقعے کا مقدمہ ایف سی کے متعلقہ اہلکاروں کے خلاف درج کیا جائے۔
دوسری جانب ایف سی اور مقامی انتظامیہ لواحقین کے الزامات کی تردید کر رہے ہے۔ ایف سی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دعویٰ کیا کہ ’گولہ گرنے سے زمین پر گڑھا پڑتا ہے لیکن جائے وقوعہ پر نہ تو کوئی گڑھا موجود ہے اور نہ ہی کسی گولے کے ٹکڑے ملے تاہم ایک گرنیڈ کی پِن ضرور ملی ہے۔‘
ہلاک ہونے والے بچے کون تھے؟
ہلاک اور زخمی ہونے والے بچوں کا تعلق بنیادی طور پر ضلع پنجگور کے علاقے بالگتر سے ہے۔
ان بچوں کے دادا مہراب بلوچ نےڈیلی طالِب کو بتایا کہ ہلاک ہونے والے دونوں بچے بہن بھائی تھے، جن کی عمریں چھ سے سات سال کے درمیان تھی جبکہ زخمی ہونے والا تیسرا بچہ بھی ان کا رشتہ دار ہے۔
انھوں نے کہا کہ بچوں کے والد گذشتہ تین سال سے دبئی میں محنت مزدوری کر رہے ہیں اور ان کے یہی دو بچے تھے۔
دھرنے میں موجود ایک اور رشتہ دار سردو بلوچ نے بتایا کہ بالگتر میں سکیورٹی فورسز کے آپریشن زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کا خاندان کچھ عرصہ قبل بالگتر سے نقل مکانی کر کے ہوشاپ کے علاقے پرکوٹگ میں آ بسے تھے۔
’ہم وہاں سے اس لیے نقل مکانی کر کے ہوشاپ آئے کہ یہاں محفوظ رہیں گے، لیکن یہاں بھی ہمارے معصوم بچے مارے گئے۔‘
’بچوں کو خون میں لت پت دیکھا تو میری جان نکل گئی‘
بچوں کی ہلاکت کا واقعہ ضلع کیچ میں ہوشاپ کے علاقے پرکوٹگ میں پیش آیا۔
سردو بلوچ نے بتایا کہ انھوں نے اتوار کے روز جانور ذبح کیا تھا اور یہ تینوں بچے گوشت تقسیم کرنے کے بعد اپنے گھر کے پیچھے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر کھیل رہے تھے۔
’ساڑھے دس بجے کے قریب مجھے گھر کے پیچھے زوردار دھماکے کی آواز سُنائی دی۔‘
’میں جب گھر کے پیچھے گیا تو دیکھا تینوں بچے خون میں لت پت پڑے تھے۔ جس درخت کے نیچے بچے کھیل رہے تھے وہ بھی گولے سے متاثر ہوا تھا اور زمین پر گڑھا بھی پڑ گیا تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’دھماکے سے میں پہلے ہی خوفزدہ تھا اور جب چھوٹے بچوں کو خون میں لت پت دیکھا تو میری جان نکل گئی جس کی وجہ سے میرے لیے بچوں کو اٹھانا مشکل ہو رہا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پرکوٹگ میں ان کے دیگر رشتہ داروں کے پندرہ کے قریب گھر ہیں جن کے مرد زیادہ تر کام پر گئے ہوئے تھے اس لیے وہ اور وہاں موجود چند دیگر افراد نے بچوں کو پہلے موٹر سائیکلوں پر ہوشاپ بازار پہنچایا اور اس کے بعد ان کو وہاں سے گاڑی کے ذریعے تربت ہسپتال پہنچایا۔
انھوں نے کہا کہ ’تربت ہسپتال میں ہمیں بتایا گیا کہ دو بچے ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ زخمی بچے کی حالت تشویشناک ہے جسے کراچی منتقل کر دیا گیا۔‘
سردو بلوچ نے دعویٰ کیا کہ بچے جس گولے کے پھٹنے سے ہلاک ہوئے وہ مبینہ طور پر ایف سی کیمپ کی جانب سے فائر کیا گیا تھا۔
جب انھیں بتایا گیا کہ ایف سی اور ڈپٹی کمشنر نے وہاں ایف سی کی جانب سے گولہ فائر کرنے کے الزام کو مسترد کیا ہے تو سردو بلوچ نے بتایا کہ گولہ ایف سی کے اس کیمپ کی جانب سے فائر کیا گیا جو ان کے گھروں سے بہت زیادہ دور نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گولہ گرنے سے وہاں گڑھا پڑ گیا تھا اور وہ درخت بھی متاثر ہوا تھا جس کے نیچے بچے بیٹھے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ چونکہ سب سے پہلے ان کے لیے بچوں کی زندگی بچانا اہم تھا اس لیے انھوں نے شواہد کو محفوظ بنانے کی بجائے بچوں کو ہسپتال پہنچانے کی کوشش کی۔
انھوں نے الزام عائد کیا کہ اس واقعے کے بعد ایف سی اہلکار جائے وقوعہ پر آئے اور مبینہ طور پر لوگوں پر تشدد کرنے کے علاوہ وہاں موجود شواہد کو مٹایا۔ ’وہاں جو گڑھا پڑ گیا تھا اس کو بھرنے کے علاوہ متاثرہ درخت کو آگ تک لگا دی گئی۔‘
انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’ان کے جانے کے بعد اگر سرکار کے لوگوں نے کسی ہینڈ گرنیڈ کا پن وہاں رکھا ہو تو اس کے بارے میں وہ کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن ہمارے بچے گولے کے پھٹنے سے ہلاک اور زخمی ہوئے۔‘
ادھر فرنٹیئر کور کے ایک اہلکار نے رابطہ کرنے پر ان تمام دعوؤں کو مسترد کیا اور کہا کہ ایف سی کی جانب سے کوئی گولہ فائر نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس کے کوئی شواہد ملے ہیں تاہم ایک ہینڈ گرینیڈ کی پن اس جگہ سے ضرور ملی ہے۔
ڈیلی طالِب سے بات کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر کیچ حسین بلوچ نے بتایا کہ اس واقعے کے حوالے سے جو ابتدائی انکوائری ہوئی اس کے مطابق گولہ گرنے کے شواہد نہیں ملے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ متعلقہ تحصیلدار اور دیگر حکام بھی جائے وقوعہ پر گئے تھے اور انھوں نے وہاں سے شواہد کے نمونے بھی جمع کیے تھے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہاں سے اب تک جو شواہد ملے ہیں وہ ہیٹڈ گرینیڈ کے پھٹنے کے ہیں اور غالباً بچے کھلونا سمجھ کر اس کے ساتھ کھیل رہے تھے جو کھیل کھیل میں پھٹ گیا۔
اس سوال پر کہ اس واقعے کے بعد معاملے کی اصل نوعیت کا تعین کرنے کے لیے کوئی عدالتی ٹریبونل کیوں نہیں بنایا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ اب یہ لوگ یہاں سے کوئٹہ گئے ہیں اور یہ دیکھنا ہے کہ وہاں سے حکومت کا کیا فیصلہ آئے گا۔
بچوں کی لاشوں کو کوئٹہ کیوں لایا گیا؟
سردو بلوچ نے بتایا کہ انھوں نے مقامی حکام کو کہا کہ وہ بچوں کی ہلاکت کا مقدمہ ایف سی کے متعلقہ اہلکاروں کے خلاف درج کریں لیکن انھوں نے ان کی بات نہیں مانی۔
انھوں نے الزام عائد کیا کہ ان پر نہ صرف لاشوں کو دفنانے کے لیے دباﺅ ڈالا گیا بلکہ ایکسکاویٹر لا کر زبردستی قبروں کی کھدائی بھی کی گئی۔
انھوں نے کہا کہ ہمیں بتایا گیا کہ لاشوں کو اگر فوری طور پر نہیں دفنایا گیا تو یہ خراب ہو جائیں گی جس پر ہم نے ان کو بتایا کہ اگر یہ گل سڑ بھی جائیں تو بھی ہم ان کو نہیں دفنائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہلاکت کے فوراً بعد انھوں نے بچوں کی لاشوں کو تربت شہر کے چار چوک والے علاقے میں رکھ دیا اور وہاں دھرنا دیا۔
سردو بلوچ کا کہنا تھا کہ لاشوں کے ساتھ ہم نے دو روز تک تربت میں دھرنا دیا لیکن وہاں جب ہماری بات نہیں مانی گئی تو ہم ان کو لے کر کوئٹہ آ گئے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ جب ہم تربت شہر سے لاشوں کو لے کر ہوشاپ پہنچے تو وہاں ہمیں ایک مرتبہ پھر چیک پوسٹ پر کئی گھنٹے تک روک کر لاشوں کو دفنانے کے لیے دباﺅ ڈالا جاتا رہا۔
’ہمیں بتایا گیا کہ آپ لوگ بھلے کوئٹہ جائیں لیکن پہلے لاشوں کو دفنائیں۔ ہم نے بتایا کہ لاشوں کے ساتھ جب ہماری بات نہیں سُنی جا رہی ہے تو ویسے ہماری بات کہاں سُنی جائے گی۔‘
انھوں نے کہا کہ بڑی مشکل کے بعد ہم یہاں پہنچے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ یہاں ہماری بات سُنی جائے گی یا نہیں۔
واضح رہے کہ تربت سے بچوں کی لاشوں کے ہمراہ کوئٹہ آ کر دھرنا دینے کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔
اس سے قبل ضلع کیچ کے علاقے بلیدہ سے پولیس کی مبینہ فائرنگ سے ہلاک ہونے والے ایک بچے کے رشتہ داروں نے بھی تربت سے کوئٹہ آ کر دھرنا دیا تھا۔
- About the Author
- Latest Posts
Ghufran Karamat is a Senior Columunts who work With Daily talib