50

پاکستان میں میڈیا گروپس کو کس دور میں کتنے اشتہارات ملے؟

پاکستان میں میڈیا گروپس کو کس دور میں کتنے اشتہارات ملے؟

(ڈیلی طالِب)

پاکستان میں حکمراں جماعت کے سینیٹر فیصل جاوید نے کہا ہے کہ اشتہارات کا ریکارڈ دیکھنے کے بعد اندازہ ہوا ہے کہ ذرائع ابلاغ کے اداروں کو کسی پالیسی کے تحت اشتہارات نہیں دیے گئے بلکہ من پسند نیوز چینلز کو نوازا گیا ہے۔

ایوان بالا یعنی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے پیر کو ہونے والے اجلاس کی سربراہی کرتے ہوئے سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ اداروں میں کئی کئی ماہ کی تنخواہ نہیں دی جاتی رہیں جس کی وجہ سے ملازمین خود کشی کرنے پہ مجبور ہوئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اربوں روپے کے اشتہارات لینے کے باوجود اداروں میں کام کرنے والوں کی تنخواہیں بروقت ادا نہیں ہوئیں۔

اجلاس میں وزارت اطلاعات نے سال 2013 سے لے کر 2018 اور سال 2018 سے نومبر 2021 تک ذرائع ابلاغ کے اداروں کو دیے گئے سرکاری اشتہارات کی تفصیلات پیش کیں۔

سرکاری اشتہارات کی تفصیلات کے مطابق جنگ گروپ کو 2013 سے 2018 تک تین ارب 12 کروڑ 32 لاکھ روپے کے اشتہارات دیے گئے۔

دستاویز کے مطابق مسلم لیگ ن کے پانچ سالہ دور میں جنگ گروپ کو سب سے زیادہ سرکاری اشتہارات دیے گئے جبکہ دنیا گروپ کو ایک ارب 11 کروڑ 12 لاکھ کے سرکاری اشتہارات دیے گئے۔

اسی طرح ایکسپریس گروپ کو ایک ارب 17 کروڑ 70 لاکھ روپے کے سرکاری اشتہارات دیے گئے۔

تفصیلات کے مطابق نیو نیوز کو 11 کروڑ 68 لاکھ روپے کے سرکاری اشتہارات جبکہ سما نیوز کو 18 کروڑ 86 لاکھ روپے اور اے آر وائی کو ساڑھے آٹھ کروڑ کے اشتہارات دیے گئے۔

سرکاری دستاویز میں مزید بتایا گیا ہے کہ ذرائع ابلاغ کے 16 دیگر اداروں کو مسلم لیگ ن کے پانچ سالہ دور میں آٹھ ارب 94 کروڑ 20 لاکھ کے سرکاری اشتہارات دیے گئے۔

سرکاری ٹی وی پاکستان ٹیلی ویژن کو مسلم لیگ ن کے پانچ سالہ دور حکومت میں 21 کروڑ 84 لاکھ روپے کے اشتہارات دیے گئے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات میں پیش کی جانے والی سرکاری دستاویز کے مطابق موجودہ حکومت میں سات جولائی 2018 سے لے کر 28 نومبر 2021 تک جنگ گروپ کو ایک ارب آٹھ کروڑ 84 لاکھ روپے کے سرکاری اشتہارات دیے گئے جبکہ ایکسپریس گروپ کو 99 کروڑ 20 لاکھ روپے کے سرکاری اشتہارات دیے جا چکے ہیں۔

دنیا گروپ کو 56 کروڑ 93 لاکھ روپے کےاشتہارات، سما نیوز کو 12 کروڑ روپے کے سرکاری اشتہارات جبکہ ذرائع ابلاغ کے دیگر اداروں کو تین ارب 67 کروڑ روپے کے اشتہارات دیے گئے۔

پی ٹی وی کو موجودہ دور حکومت میں 11 کروڑ روپے کے سرکاری اشتہارات دیے گئے۔

اس موقع پر وزیر مملکت برائے اطلاعات فرخ حبیب نے تفصیل سننے کے بعد کہا کہ اشتہارات کا ڈیٹا بتا رہا ہے کہ ایک ٹیلی فون کال میں جن چینلز کو سرکاری اشتہارات دینے سے روکا جا رہا تھا ان کو واقعی اشتہارات کم ملے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ 2013 سے 2018 تک ملک میں کوئی حکومت نہیں تھی۔

’لگتا ہے اس دوران نہ تو ملک میں کوئی نظام تھا نہ کابینہ تھی۔ اس دوران ملک میں بادشاہت تھی اور بادشاہوں کے بچے بھی امور سلطنت چلا رہے تھے۔‘

چیئرمین کمیٹی فیصل جاوید نے کہا کہ اشتہارات کے ذریعے ذرائع ابلاغ کی آزادی پر قدغن لگانے کی کوشش کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ ’بیانیہ کنٹرول کرنے کے لیے نیوز چینلز کو اشتہارات دیے جاتے ہیں تو انٹرٹینمنٹ کو کیوں نہیں دیے جاتے؟‘

وزیر مملکت فرخ حبیب نے جواب دیا کہ چینلز کی ریٹنگ کے حساب سے اشتہارات دیے جاتے ہیں۔

فیصل جاوید نے کہا کہ ان اشتہارات میں انٹرٹینمنٹ چینلز کو کچھ نہیں ملا۔ کمیٹی کی تجویز ہے کہ جب بھی اشتہارات دیے جائیں تو سپورٹس اور انٹرٹینمنٹ چینلز کو بھی حصہ دیا جائے۔

وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ کچھ چینلز کو ضرورت سے زیادہ اشتہارات ملے تو کسی کو نہ ہونے کے برابر ملے۔

فرخ حبیب نے مزید کہا کہ مریم نواز کی آڈیو سامنے آنے کے بعد وزارت اطلاعات انکوائری کر رہی ہے جو بدھ تک مکمل ہوجائے گی۔

’مریم نواز نے کچھ چینلز کو اشتہارات نہ دینے کی بات کی۔ کمیٹی اس بات کو دیکھ رہی ہے کہ مریم نواز نے کس حیثیت میں ہدایات دیں۔‘

مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ اشتہارات کی انکوائری کرنی ہے تو 1999 سے شروع کی جائے تاکہ علم ہو سکے کہ اس دور میں کس کو کتنا نوازا گیا۔

’ہم سیاست دانوں کے گریبان پر ہاتھ ڈال رہے ہیں ان کے گریبان پاکیزہ کیوں ہیں۔‘

قائمہ کمیٹی میں کرکٹر شعیب اختر اور ڈاکٹر نعمان نیاز کے معاملے پر بھی بات ہوئی جس کے بارے میں ایم ڈی پی ٹی وی نے بتایا کہ شعیب اختر سے بدتمیزی کا معاملہ حل ہوگیا ہے۔

’شعیب اختر کے ساتھ معاملہ نہیں ہونا چاہیے تھا، واقعے سے پی ٹی وی کو نقصان پہنچا۔‘

سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ ڈاکٹر نعمان کی جگہ کوئی عام شخص ہوتا تو کیا تب بھی پی ٹی وی کا ایسا ہی رویہ ہوتا؟

انہوں نے مطالبہ کیا کہ ڈاکٹر نعمان نیاز پر عارضی نہیں طویل عرصے کے لیے پابندی لگائیں۔

جس پر فیصل جاوید نے کہا کہ ریاستی ٹی وی چینل پر اینکر کو ایسا رویہ نہیں رکھنا چاہیے تھا۔

’شعیب اختر ہمارے لیجنڈ ہیں انہیں تحقیقات میں شامل ہونا چاہیے۔ تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ کمیٹی میں پیش کریں۔‘

50% LikesVS
50% Dislikes

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں