69

بغداد کی فاح۔شہ عورت کا سچا قصہ.

بغداد کی فاح۔شہ عورت کا سچا قصہ.

(ڈیلی طالِب)
یہ لڑکیاں سب بے نیاز اپنی اداؤں سے سب کو گھائل کرتی مدرسہ عزیزیہ کے دروازے سے گزر رہی تھیں کہ حضرت شاہ محمد اسماعیل ؒ کی نظر ان پر پڑ گئی حضرت نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا یہ کون ہیں ساتھیوں نے بتایا حضرت یہ طوائف۔یں ہیں اور کسی نا چ رن۔گ کی محفل میں جارہی ہیں۔ یہ تو معلوم ہو ا یہ بتاؤ یہ کس مذہب سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ دین اسلام کو ہی بد نام کرنے والی ہیں۔ یہ سب اپنے آپ کو مسلمان کہتی ہیں ۔ حضرت نے یہ بات سنی تو فرمایا مان لیا کہ بدعمل اور بدک.ردار ہی سہی لیکن کلمہ گو ہونے کے اعتبار سے ہوئی تو ہماری بہنیں لہذا ہمیں انکی نصیحت کرنی چاہیے ۔ ساتھیوں نے کہا کہ ان پر نصیحت کیا خاک اثر کرے گی ان کو نصیحت کرنیوالا تو خود بدن.ام ہوجائیگا۔پھر کیا ہوا میں یہ فریضہ ادا کرکے رہوں گا ۔

ساتھیوں نے عرض کیا حضرت آپ کا ان کے پاس جانا بالکل ٹھیک نہیں شہر کے چاروں طرف آپکے مذہب مخالفین ہیں جو آپ کو بدن۔ام کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے آپ نے فرمایا مجھے ذرا برابر پرواہ نہیں ۔ میں انہیں نصیحت ضرور کرنے جاؤں گا ۔ اس کے بعد آپ تبلیغ حق واصلاح کا عزم لیکر گھر میں تشریف لائے درویشانہ لباس زیب تن کیا اور تنہا نا۔کہ کی حوی۔لی کے دروازے پر پہنچ گئے اور کہا اللہ والیو دروازہ کھولو اور فقیر کی سدا سنو آپ کی آواز سن کر چند لڑکیاں آئیں انہوں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ باہر درویش صورت بزرگ کھڑا ہے انہوں نے سمجھا یہ گدا گر فقیر انہوں نے چند روپے لاکر تھما دیئے ۔ لیکن اس نے اندر جانے کا اسرار کیا اور اندر چلے گئے ۔ شاہ صاحب نے دیکھا چاروں طرف شمعیں اور قندیلین روشن ہیں۔طوائف۔یں طبلے اور ڈھولک کی تھ۔اپ پر رق۔ص کررہی ہیں۔ ان کی بازیبوں اور گھنگ۔رو کی کھن۔کار نے عجیب سما باندھ رکھا ہے ۔ جوں ہی نائی۔کہ کی نگاہ اس فقیر پر پڑی اس پر ہیب۔ت طاری ہوگئی و ہ جانتی تھی۔ فقیرانہ لباس میں گداگر نہیں شاہ اسماعیل کھڑے ہیں جو شاہ ولی اللہ کے پوتے اور شاہ عبدالعزیز شاہ رفیع الدین اور شاہ عبدالقادر کے بھتیجے ہیں۔

نائی۔کہ تیزی سے اپنی کرسی سے اُٹھیں احترام کیساتھ انکے سامنے جاکر کھڑی ہوگئیں۔ ادب سے عرض کیا حضرت آپ نے ہم س۔یاہ کاروں کے پاس آنے کی زحم۔ت کیوں کی ۔ آپ نے پیغام بھیج دیا ہوتا ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتیں۔ آپ نے آنکھیں بند کیے بغیر نام۔حرم سے کہا بڑی بی تم نے ساری زندگی لوگوں کو را گ اور سرور سنایا ہے آج کچھ دیر ہم فقیروں کی سدا بھی سن لو ۔ جی سنائیے ہم مکمل توجہ کیساتھ آپ کا بیان سنیں گیں ۔ یہ کہہ کر اس نے تمام طوائف۔وں کو ط۔بلے ڈھول۔کے بند کرکے سننے کا حکم دے دیا وہ بیٹھ گئیں حضرت شاہ اسماعیل ؒ قرآن پاک نکال کر سورۃ التین کی تلاوت فرمائی ۔آپ کی تلاوت اس قدر پرسوز تھی طوائف۔یں بے خود ہوگئیں اور آیت مبارکہ کا دل نشین انداز ترجمہ کرکے بیان شروع کردیا ۔ آپ کا خطاب زبان کا کانوں سے خطاب نہیں تھا بلکہ دل کا دلوں سے اور روح کا روحوں سے خطاب تھا۔ یہ خطاب دراصل اس الہام ربانی کا کرشمہ تھا جو حضرت شاہ اسماعیل ؒ جیسے مخلص دردمندوں اور امت مسلمہ کے حقیقی خیرخواہوں کے دلوں پر اُترتا ہے ۔

جب طوائف۔وں نے سورت کی تشریح سنی تو ان پر لرزا ط۔اری ہوگیا روتے روتے انکی ہچکیاں بن گئیں۔ حضرت شاہ اسماعیل ؒ نے جب ان کی آنکھوں میں جھڑیاں دیکھیں تو بیان کا رخ توبہ کی طرف موڑ دیا اور بتایا جو کوئی گ۔ناہ کر بیٹھے اللہ سے اس کی معافی مانگ لے اللہ بڑا رحیم وہ معاف کردیتا ہے ۔ آپ نے توبہ کے اتنے فضائل بیان کیے کہ ان کی سسکیان بن گئیں۔شاہ صاحب نے انہیں اُٹھ کر وضو کرنے اور دو رکٰوۃ نفل پڑھنے کا کہا راوی کہتا ہے کہ جب وہ وضو کرکے قبلا رخ کھڑی ہوگئیں اور نماز کے دوران سجدوں میں گر گئیں تو حضرت نے ایک طرف کھڑے ہوکر اللہ سے عرض کیا میں تیرے حکم کی تعمیل میں اتنا ہی کرسکتا تھا کہ یہ سجدوں میں گری ہیں ان کے دلوں کو پاک کردے ان کے گ۔ناہوں کو معاف کردے اور انہیں آبرو مند بنا دے تیرے لیے کچھ مشکل نہیں ۔انہیں ہدایت فرما انہیں نیک بندوں میں شامل فرما۔ادھر شاہ صاحب کی دعا ختم ہوئی ادھر ان کی نماز وہ اس حال میں اُٹھیں کہ ان کے دل صاف ہوچکے تھے ۔ تما م طوائف۔یں گ۔ناہ کی زندگی پر افسوس کرنے لگیں اور ن۔کاح پر راضی ہوگئیں۔

نوجوان عورتوں نے نک۔اح کرالیے اور جو بڑی عمر والی تھیں انہوں نے محنت مزدوری سے گزارا کرنا شرو ع کردیا ۔ ان میں سب سے زیادہ موت۔ی نامی خاتون تھیں جب اس کے سابقہ جاننے والوں نے شریفانہ حالت اور سادہ لباس میں مج۔اہدین کے گھوڑوں کی لحاف والی چ۔کی پر دال پیستے دیکھا تو ان سے پوچھا وہ زندگی بہتر تھی۔ جس میں تو ملبوسات میں شاندار لگتی یا پھر یہ زندگی جس میں تیرے ہاتھوں پر چھ۔الے پڑے ہوئے ہیں۔ کہنے لگی اللہ کی قسم مجھے گ۔ناہ کی زندگی میں اتنا ل۔طف نہیں آیا جتنا مج۔اہدین کیلئے چکی پر دال تلتے وقت ہاتھوں پر ابھرنے والے چھ۔الوں سے آتا ہے ۔ گ۔ناہ کا دروازہ ہمیشہ کیلئے کھلا ہے جب تک یہ دروازہ کھلا اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کے گ۔ناہ معاف کرتا رہے گا ۔ ہم اپنے آپ کو اللہ کے حضور پیش کرکے سچے دل سے توبہ کرلیں اللہ تعالیٰ ضرور معاف کرے گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں