کیچ میں تاج بی بی کی ہلاکت: مبینہ طور پر سکیورٹی فوسز کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والی بلوچ خاتون کا خاندان ’جھوٹی‘ ایف آئی آر کٹنے پر سراپا احتجاج
(ڈیلی طالِب)
’ہمیں دہرے ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک تو فائرنگ کر کے ہماری بہن ہم سے چھین لی گئی اور دوسرا یہ کہ ان کی ہلاکت کی ایف آئی آر میں سراسر جھوٹ شامل کیا گیا ہے۔‘
یہ کہنا تھا بلوچستان کے ایران سے متصل سرحدی ضلع کیچ سے تعلق رکھنے والے طارق بلوچ کا جن کی بہن تاج بی بی 21 ستمبر کو گولی لگنے سے ہلاک ہوئی تھیں۔
طارق بلوچ نے کہا کہ ان کی بہن سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ سے ہونے والی فائرنگ سے ہلاک ہوئیں جبکہ اس قتل میں کیچ انتظامیہ نے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر دیا۔
’جنگل سے لکڑیاں لانے نکلی تھی‘
45 برس کی تاج بی بی کا تعلق ضلع کیچ کے ہیڈ کوارٹرز تربت کے قریب آسکانی کے علاقے سے تھا۔ وہ شادی شدہ تھیں تاہم ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ دیہی علاقوں کی دیگر خواتین کی طرح وہ بھی مختلف کاموں میں خاندان کے مردوں کی مدد کرتی تھیں۔
طارق بلوچ نے بتایا کہ ’تاج بی بی خاندان کے پانچ دیگر افراد کے ہمراہ 21 ستمبر کو ایک گاڑی میں جنگل سے لکڑیاں لانے کے لیے نکلی تھیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ چونکہ ان کے علاقے میں روٹی اور سالن وغیرہ پکانے کے لیے لکڑی کے استعمال کے سوا چارہ نہیں اس لیے لکڑی لانے کے لیے خاندان کے دو مرد حضرات سمیت چھ افراد یہ کام کرنے گئے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ ’گاڑی میرا بھائی چلا رہا تھا۔ بھائی کے علاوہ گاڑی میں تاج بی بی، ان کے شوہر اور خاندان کی دو دیگر خواتین اور ایک بچہ سوار تھا۔‘
انھوں نے بتایا کہ جب ان کی گاڑی میریں بند کے علاقے میں پہنچی تو گاڑی پر سامنے چیک پوسٹ سے فائرنگ کی گئی۔
’انتظامیہ کی یقین دہانی پر تدفین کی مگر ایف آئی آر غلط درج ہوئی‘
طارق بلوچ نے بتایا کہ ایک گولی ان کے بہن کے سر میں لگی تاہم باقی لوگ محفوظ رہے جنھوں نے تاج بی بی کو ہسپتال پہنچایا لیکن وہ پہلے ہی ہلاک ہو چکی تھیں۔
انھوں نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر کیچ خود بھی ہسپتال آئے اور وہاں ہم نے ان کو بتایا کہ ان پر سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ سے فائرنگ ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے ڈپٹی کمشنر کو کہا کہ جب تک چیک پوسٹ کے ذمہ دار اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کی جاتی اس وقت تک وہ لاش کو دفن نہیں کریں گے۔’
ڈپٹی کمشنر کی یقین دہائی پر تدفین کی گئی
طارق بلوچ نے بتایا کہ ڈپٹی کمشنر نے ان کو یقین دہانی کروائی کہ جو حقائق ہوں گے ان کی بنیاد پر ایف آئی آر درج کی جائے گی اس لیے انھوں نے لاش کی تدفین کر دی۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ڈپٹی کمشنر کی یقین دہانی پر لاش کی تدفین تو کر دی لیکن تدفین کے بعد جو ایف آئی آر درج کی گئی اس میں ان سے بالکل الٹ بات منسوب کی گئی۔
مدعی کو ایف آئی آر پر کیا اعتراض ہے؟
تاج بی بی کی ہلاکت کی ایف آئی آر طارق بلوچ کی مدعیت میں لیویز تھانہ تربت میں درج کی گئی اور اس ایف آئی آر میں قتل اور انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت نامعلوم افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق تاج بی بی اور دیگر افراد جب سامان کور (ندی) کی جانب روانہ ہوئے اور صبح تقریباً نو بجے میریں بند کے علاقے میں پہنچے تو سکیورٹی چیک پوسٹ اور نامعلوم افراد کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوا جس سے تاج بی بی ہلاک ہوئیں۔
ایف آئی آر میں مدعی کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ’نامعلوم مسلح ملزمان نے آتشیں اسلحے سے فائرنگ کر کے میری بہن کو قتل کیا اور میں نامعلوم افراد کے خلاف مقدمے کا دعویدار ہوں۔‘
طارق بلوچ کا کہنا تھا کہ انھوں نے ڈپٹی کمشنر کو بتایا کہ ان کے رشتے داروں پر فائرنگ چیک پوسٹ سے کی گئی لیکن اس کے برعکس ایف آئی آر نامعلوم افراد کے خلاف کاٹی گئی۔
انھوں نے بتایا کہ انھوں نے ڈپٹی کمشنر کی یہ بات سوشل میڈیا پر سنی کہ چیک پوسٹ جائے وقوعہ سے ساڑھے تین کلومیٹر دور ہے جہاں سے کسی رائفل سے گاڑی کو گولی نہیں لگ سکتی۔
’میں خود جائے وقوعہ پر لیویز فورس کے اہلکاروں کے ساتھ گیا جو کہ چیک پوسٹ سے ایک کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر ہے لیکن ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ وہ ساڑھے تین کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔‘
وہاں لیویز فورس کے اہلکاروں سے میں نے کہا کہ ’مجھے رائفل دیں میں خود فائر کرتا ہوں اور پھر آپ دیکھیں کہ اتنے فاصلے پر گولی لگتی ہے یا نہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ہمارا ڈپٹی کمشنر سے مطالبہ ہے کہ وہ اس ایف آئی آر کو واپس لیں تاکہ ہم درست ایف آئی آر کے اندراج کے لیے عدالت سے رجوع کریں۔
ڈپٹی کمشنر نے پریس کانفرنس میں کیا کہا تھا؟
اس واقعے کے حوالے سے سیکورٹی فورسز کے اعلیٰ حکام سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ چونکہ ڈپٹی کمشنر کیچ نے کہا ہے کہ اس معاملے کی تحقیقات ہو رہی ہیں اس لیے تحقیقات کا انتظار کیا جانا چاہیے۔
واضح رہے کہ ڈپٹی کمشنر کیچ حسین جان بلوچ نے اس واقعے کے حوالے سے جو پریس کانفرنس کی تھی اس میں انھوں نے کہا تھا کہ قتل ہونے والی خاتون کے رشتہ داروں نے بتایا کہ ان پر سیکورٹی فورسز کی چیک پوسٹ سے فائرنگ ہوئی۔
انھوں نے کہا کہ انھوں نے جائے وقوعہ کا معائنہ کیا جہاں خاتون کو گولی لگی تھی۔ ‘اس معائنے کے دوران خاتون کے شوہر اور بعض دیگر رشتہ دار بھی ہمارے ہمراہ تھے۔’
انھوں نے کہا کہ جب وہ وہاں گئے اور جائے وقوعہ سے چیک پوسٹ کے فاصلے کا جائزہ لیا تو یہ تین سے ساڑھے تین کلومیٹر کا فاصلہ بنتا تھا۔ ڈپٹی کمشنر کیچ نے کہا کہ انھوں نے سکیورٹی فورسز کے حکام سے بھی بات کی اور انھیں بتایا کہ لواحقین یہ الزام لگا رہے ہیں کہ فائرنگ چیک پوسٹ سے ہوئی ہے۔
سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے بھی بتایا کہ جائے وقوعہ سے چیک پوسٹ کا فاصلہ ساڑھے تین کلومیٹر ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اگر کوئی ایسا ہتھیار ہے جو اتنے فاصلے تک مار کر سکے تو وہ ہمیں دکھا دیں۔’
ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ ان کے خیال کے مطابق بھی یہ ممکن نہیں کہ اتنے فاصلے تک مار کرنے والا کوئی ہتھیار ہماری سکورٹی فورسز کے پاس ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے بارے میں تحقیقات کی جا رہی ہیں جس کے نتائج سامنے آئیں گے اور انھوں نے تفتیشی افسر کو بھی یہ کہا ہے کہ وہ تحقیقات کو جلد سے جلد مکمل کریں۔
ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ اس واقعے پر انھیں بھی افسوس ہے اور ان کی ہمدردیاں بھی متاثرہ خاندان کے ساتھ ہیں۔
قتل کے خلاف احتجاج
تاج بی بی کے قتل کے خلاف کوئٹہ اور تربت میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، جن میں واقعے میں مبینہ طور پر ملوث سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
کوئٹہ پریس کلب کے باہر بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام ہونے والے مظاہرے میں اس واقعے کی مذمت کی گئی ہے۔ مظاہرے کے شرکا کا کہنا تھا کہ متاثرہ خاندان کو انصاف کی فراہمی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔
انھوں نے مطالبہ کیا کہ گاڑی پر فائرنگ میں ملوث ملزمان کو گرفتار کر کے مقتول کے خاندان کو انصاف فراہم کیا جائے۔ مظاہرے کے شرکا کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں یہ پہلا موقع نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی سویلین کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
آل پارٹیز کیچ کے کنوینئر مشکور انور بلوچ نے بھی یہ مطالبہ کیا ہے کہ متاثرہ خاندان کے ساتھ انصاف کیا جائے۔
بلوچستان میں آل پارٹیز کیچ کے کنوینئر مشکور انور نے بتایا کہ جس علاقے میں گاڑی پر فائرنگ کی گئی وہ ضلع کیچ کے ہیڈ کوارٹرز تربت سے مشرق میں اندازاً 15 سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ انھوں نے مبینہ طور پر غلط ایف آئی آر کے اندراج کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر متاثرہ خاندان کو انصاف فراہم نہیں کیا گیا تو پھر بڑے پیمانے پر احتجاج کا سلسلہ پھیلا دیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب متاثرہ خاندان یہ کہتا ہے کہ جس گاڑی میں ہلاک ہونے والی خاتون سوار تھی اس پر سیکورٹی فورسز کی چیک پوسٹ سے فائرنگ ہوئی ہے تو اس کے بعد اس بات کا کیا جواز بنتا ہے کہ مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا جائے۔
مشکور انور نے کہا کہ غلط ایف آئی آر کے اندراج پر نہ صرف خاتون کے لواحقین کو تشویش ہے بلکہ کیچ کے عوام کی نمائندہ جماعتوں آل پارٹیز کو بھی تحفظات ہیں۔
’غلط ایف آئی آر کے اندراج پر ہم نے ڈپٹی کمشنر کیچ سے رابطے کی کوشش کی لیکن تاحال ان سے رابطہ نہیں ہوا۔‘
آل پارٹیز کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اگر ایف آئی آر کے اندراج اور ملزمان کی گرفتاری کے حوالے سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے تو ہم اس کے خلاف اپنے احتجاج کو وسعت دیں گے۔
- About the Author
- Latest Posts
Ghufran Karamat is a Senior Columunts who work With Daily talib