67

‘پینڈورا پیپرز’: وزیرخزانہ شوکت ترین، مونس الہٰی سمیت 700 سے زائد پاکستانیوں کے نام

‘پینڈورا پیپرز’: وزیرخزانہ شوکت ترین، مونس الہٰی سمیت 700 سے زائد پاکستانیوں کے نام

(ڈیلی طالِب)

دنیا بھر کی اہم شخصیات کے خفیہ مالیاتی معاملات پر انٹرنیشنل کنسورشیئم آف انویسٹیگیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی ایک بڑی بین الاقوامی تحقیق ‘پینڈورا پیپرز’ کے نام سے جاری کردی گئی ہے جس میں میڈیا رپورٹس کے مطابق 700 سے زائد پاکستانیوں کے نام شامل ہیں۔

پاکستان کے وزیرخزانہ شوکت ترین، مسلم لیگ (ق) کے رہنما اور وزیر آبی امور مونس الہٰی، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر فیصل واوڈا، اسحٰق ڈار کے بیٹے، پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے رکن سندھ اسمبلی شرجیل میمن، وفاقی وزیر خسرو بختیار کے خاندان کے نام اور پی ٹی آئی کے سینئر رہنما علیم خان جیسے اہم نام سمیت 700 سے زائد پاکستانی شامل ہیں۔

پینڈورا پیپرز میں فوج کے چند ریٹائرڈ عہدیداروں، کاروباری شخصیات، ایگزیکٹ کمپنی کے مالک شعیب شیخ سمیت میڈیا اداروں کے مالکان کے بھی نام آئے ہیں۔

پاکستان سے انگریزی روزنامے دی نیوز انٹرنیشنل کے صحافی عمر چیمہ اور فخر درانی اس تحقیقات کا حصہ تھے۔

وزیراعظم عمران خان کے قریبی لوگوں کی آفشور کمپنیاں

آئی سی آئی جے کی جاری کردہ رپورٹ پینڈورا پیپرز میں ‘وزیراعظم عمران خان کا نئے پاکستان کا وعدہ لیکن ان کے قریبی حلقے کے اراکین خفیہ طور پر ملینز آف شور میں منتقل کرتے رہے’ کے نام سے رپورٹ بھی شامل کی۔

آئی سی آئی جے کے مطابق پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے متعدد مرتبہ اس بات کو دہرایا گیا ہے کہ ٹیکس چوری سے اور منی لانڈرنگ کے باعث عریب ممالک میں غربت میں اضافہ ہوتا ہے لیکن ان کے قریبی حلقے کے لوگوں کی آف شور کمپنیوں کے سامنے آنے کا انکشاف ہوا ہے۔

آئی سی آئی جے کے مطابق لیک ہونے والے ڈیٹا کے مطابق عمران خان کے قریبی حلقے میں سے وفاقی وزیر خزانہ شوکت فیاض احمد ترین، ان کے اہل خانہ، وزیراعظم عمران خان کے سابق مشیر خزانہ اور ریونیو وقار مسعود خان اور پاکستان تحریک انصاف کو فنڈز فراہم کرنے والے اور امریکا میں مالی فراڈ میں نامزد عارف نقوی بھی شامل ہیں۔

ان کے علاوہ چوہدری مونس الٰہی، جو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی اہم اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے عہدیدار ہیں، بھی اس میں شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق لیک ہونے والی دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے قریبی حلقے کے ‘ایم اراکین’ سمیت کابینہ کے وزرا اور ان کے خاندان کے نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں، اہم مالی مفادات رکھنے والوں کے پاس ‘خفیہ طور پر رکھی ہوئی ملینز ڈالرز کی کمپنیاں اور ٹرسٹ ہولڈنگ پر مشتمل چھپی ہوئی دولت ہے۔

رپورٹ میں ‘فوجی عہدیداروں کو بھی نامزد کیا گیا ہے’ تاہم وضاحت کی گئی ہے کہ رپورٹ میں شامل دستاویزات میں عمران خان کی اپنی ذاتی حیثیت میں کوئی کمپنی نہیں ہے اور ‘ایسی کوئی بات نہیں ہے’۔

بیرون ملک اثاثے رکھنے والے ناموں میں وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین، ان کا خاندان، اور وزیراعظم عمران خان کے سابق مشیر برائے خزانہ و ریونیو وقار مسعود خان کا بیٹا شامل ہے۔

آئی سی آئی جے کا کہنا تھا کہ ‘ریکارڈز میں پی ٹی آئی کو بہت زیادہ فنڈز دینے والے عارف نقوی کا بھی نام شامل ہے جنہیں امریکا میں فراڈ کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں’۔

عمران خان کو فنڈنگ کرنے والے عارف نقوی کی آفشور کمپنیاں

عارف نقوی 2013 میں انتخابی مہم میں وزیراعظم عمران خان کے فنانسر اور اہم فنڈنگ کرنے والی شخصیت تھے اور ان کی کئی آف شور کمپنیاں ہیں۔

رپورٹ کے مطابق عارف نقوی نے 2017 میں یوکے ہولڈنگز کی ملکیت تین لگژری اپارٹمنٹس کے لیے منتقل کیے، ان کی کنٹری اسٹیٹ اور لندن کے مضافات میں ایک پراپرٹی ہے اور ڈوئچے بینک کے ذریعے آف شور ٹرسٹ میں منتقل کیے، بینک نے ٹرسٹ سے فائدہ اٹھانے والوں کے حوالے سے آئی سی آئی جے کے سوالات کے جواب دینے سے گریز کیا۔

اگلے برس، دبئی میں قائم خسارے میں جانے والی نجی کمپنی ابراج گروپ کی صدارت کی، جس کی ملکیت میں کے-الیکٹرک بھی ہے۔

دوسری جانب امریکی پراسیکیوٹرز کی جانب سے عارف نقوی پر ابراج کے سرمایہ کاروں کے ساتھ 400 ملین ڈالر فراڈ کا الزام عائد کیا گیا اور رواں برس ان کی برطانیہ سے امریکی منتقلی کے لیے عدالت سے رجوع کیا گیا تاہم عارف نقوی نے کہا کہ انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔

شوکت ترین اور ان کے خاندان کی 4 آفشور کمپنیاں

رپورٹ کے مطابق وزیرخزانہ شوکت ترین اور ان کے خاندان کے اراکین کی چار آف شور کمپنیاں ہیں اور کہا گیا کہ فنانشل کنسلٹنٹ طارق فواد ملک نے کمپنی کے حوالے سے دستاویزات دیکھتے ہیں اور کہا کہ وہ ترین خاندان کی ایک بینک میں سعودی کاروبار کے ساتھ سرمایہ کاری کے ارادے کا حصہ ہے۔

طارق فواد ملک نے کہا کہ ‘ریگیولیٹر کی شرائط کے طور پر ہم اسٹریٹجک سرمایہ کاری کے لیے اصولی منظوری کی خاطرے پاکستان کے مرکزی بینک سے بھی رابطے میں تھے، ڈیل کو آگے نہیں بڑھایا گیا’۔

شوکت ترین نے آئی سی آئی جے کے سوالات کا جواب نہیں دیا لین آج اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ ‘آف شور کمپنیاں اپنے بینک کے لیے فنڈ ریزنگ کے عمل کے طور پر قائم کی گئیں’۔

خسرو بختیار کے بھائی کی آفشور کمپنی

آئی سی آئی جے کے مطابق وفاقی وزیر صنعت خسرو بختیار کے بھائی عمر بختیار نے 10 لاکھ ڈالر لندن کے علاقے چیلسی میں اپنی بزرگ والدہ کو اپارٹنمنٹ کے لیے 2018 میں آف شور کمپنی کے ذریعے منتقل کیا۔

خسرو بختیار نے کنسورشیم کو تحریری بیان میں کہا کہ پاکستان کی انسداد کرپشن کا ادارہ ان کے خاندان کے خلاف تحقیقات کر رہا ہے جہاں ‘الزامات بے بنیاد تھے جس نے ان کے خاندان کی ماضی کی دولت کو نظر انداز کیا گیا’، اور یہ تاحال کوئی باقاعدہ شکایت نہیں ہے۔

سینیٹر فیصل واوڈا اور سابق مشیر وقار مسعود کے بیٹے کی کمپنی

پینڈورا پییپرز میں بتایا گیا ہے کہ سابق وفاقی وزیر برائے آبی امور فیصل واوڈا نے برطانیہ پراپرٹیز میں 2012 میں سرمایہ کاری کی، سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا کہ ٹیکس حکام کے سامنے بیرون ملک موجود اپنے اثاثے ظاہر کر دیے ہیں۔

تحقیقات میں مزید انکشاف کیا گیا ہے وزیراعظم کے سابق مشیر خزانہ وقار مسعود کے بیٹے برٹش ورجن آئی لینڈز کی کمپنی کے مشترکہ مالک ہیں۔ وقار مسعود خان نے آئی سی آئی جے کو بتایا کہ انہیں معلوم نہیں کہ ان کے بیٹے کی کمپنی کا کیا معاملہ ہے اور ان کے بیٹے آزاد زندگی گزار رہے ہیں اور ان پر انحصار نہیں کرتے ہیں۔

فوجی افسران کے معاملات

پینڈورا پیپرز میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ‘بھارت کے مشہور فلمی ڈائریکٹر کے بیٹے نے ایک تھری اسٹار جنرل کی اہلیہ کو لندن میں ایک لگژری اپارٹمنٹ منتقل کیا’۔

آئی سی آئی جے نے کہا کہ ‘یہ ان کئی کمپنیوں میں سے ایک ہے جس میں فوجی عہدیداران اور ان کے خاندان ملوث ہیں’۔ جنرل نے آئی سی آئی جے کو بتایا کہ خریدی گئیں پراپرٹیز کو واضح کیا گیا تھا تاہم ان کی اہلیہ نے جواب نہیں دیا۔

تفصیلات کے مطابق سابق صدر پرویز مشرف کے ساتھی ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل شفاعت اللہ شاہ کی اہلیہ نے 2017 میں آفشور ٹرانزیکشن کے ذریعے لندن میں 1.2ملین ڈالر کا اپارٹمنٹ حاصل کیا۔

تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ یہ پراپرٹی لیفٹیننٹ جنرل شفاعت اللہ شاہ کی اہلیہہ کو اکبر آصف کی ملکیت میں شامل آف شور کے ذریعے منتقل کیا گیا، بھارت کے فلم ڈائریکٹر کے کے آصف اکبر کے بیٹے خود ایک کاروباری شخصیت ہیں جن کے لندن اور دبئی میں ریسٹورینٹس ہیں۔

رپورٹ کے مطابق سامنے آنے والی دستاویزات میں دکھایا گیا ہے کہ آصف کی آف شور کمپنیوں کے ذریعے کروڑو ڈالر کی جائیدادیں ہیں۔

انہوں نے انہی کمپنیوں میں سے ایک برٹش ورجن آئی لینڈ (بی وی آئی) میں رجسٹرڈ طلحہ لمیٹڈ کے ذریعے اکبر نے لندن میں اپارٹمنٹ جنرل شفاعت شاہ کی اہلیہ کو منتقل کیا۔

دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ کینیری وارف فنانشل ضلعے کے قریب واقع اپارٹمنٹ 2006 میں خریدا گیا، اگلے برس اکبر نے اس کمپنی کی ملکیت لیفٹیننٹ جنرل شاہ کی اہلیہ کو منتقل کردیا۔

دلچسپ طور پر تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ اکبر کی بہن، حنا اکبر ‘اقبال مرچی کی بیوہ، ایک منظم سرکرفہ کرائم گروپ ڈی کمپنی کی سنیئر رکن ہیں’۔

اس وقت اقبال مرچی بھارت کے لیے انتہائی مطلوب تھے اور امریکا کی طرف سے منشیات کی اسمگلنگ پر پابندی تھی اور ان کا انتقال 2013 میں ہوا تھا۔

آئی سی آئی جے کی رپورٹ کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل شاہ نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ اپارٹمنٹ کی خریداری سابق فوجی ساتھی کے ذریعے کی گئی ہے اس وقت وہ لندن میں رئیل اسٹیٹ کمپنی کے لیے بطور کنسلٹنٹ کام کر رہے تھے اور آصف کے ساتھ کسی ذاتی رابطے کے ذریعے نہیں خریدی گئی۔

انہوں نے کہا کہ فلیٹ ان کی اہلیہ کے نام پر خریدی گئی کیونکہ ‘میری اپنے نام پر جائیداد ہے جبکہ اہلیہ کی کوئی نہیں ہے اور ٹیکس کٹوتی میں توازن نہیں کرنا’۔

ریٹائرڈ جنرل نے کہا کہ ان کی اہلیہ نے اکبر سے کبھی ملاقات نہیں کی اور میں صرف ایک دفعہ ملا جب اس وقت کے صدر پرویز مشرف کا معاون تھا اور انکشاف کیا کہ ڈورچیسٹر ہوٹل کی راہداریوں میں ملاقات اس وقت ہوئی جب اکبر اپنے والد کی فلم ریلیز کرنا چاہتے تھے اور جب وہ ہئراسٹائلسٹ کے ساتھ تھے جو پرویز مشرف کی اہلیہ کے بال بنانے آئے تھے۔

آئی سی آئی جے کی رپورٹ کے مطابق اکبر نے پرویز مشرف سے کہا کہ وہ ان کے والد کی فلم پاکستان میں ریلیز کرنے کی اجازت دیں، جہاں اس وقت بھارتی فلموں پر پابندی تھی جبکہ پرویز مشرف نے یقین دہانی کروائی اور بعد میں پابندی ہٹا دی۔

مونس الہٰی پر الزامات

پینڈورا پیپرز میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ق) کے مونس الہٰی جو’وزیراعظم عمران خان کے اہم سیاسی اتحادی ہیں، نے مبینہ طور پر کرپشن سے بنے کاروبار سے معاملات خفیہ ٹرسٹ میں رکھنے اور پاکستان کے ٹیکس حکام سے چھپانے کا عمل انجام دیا’۔

مونس الہٰی کے خاندان کے ترجمان نے آئی سی آئی جے کے شراکت دار میڈیا کو بتایا کہ ‘سیاسی طور پر نشانہ بنانے کے لیے غلط تعبیر کرنے اور دستاویزات کو مخالفت کے باعث پھیلایا گیا’۔

انہوں نے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ‘خاندان کے اثاثے قانون کے مطابق ڈیکلیئرڈ ہیں’۔

دنیائے صحافت کی سب سے بڑی تحقیق

آئی سی آئی جے کے بیان کے مطابق پینڈورا پیپرز دنیا کے ہر حصے سے تعلق رکھنے والی ایک کروڑ 19 لاکھ سے زائد فائلز کے ‘لیکڈ ڈیٹا بیس’ پر مشتمل ہیں۔

ادارے نے بتایا تھا کہ دنیا کے 117 ممالک سے 150 میڈیا اداروں سے تعلق رکھنے والے 600 سے زائد رپورٹرز نے 2 سال تک جاری رہنے والی اس تحقیق میں حصہ لیا۔

پاکستان سے انگریزی روزنامے دی نیوز انٹرنیشنل سے وابستہ صحافی عمر چیمہ اور فخر درانی اس تحقیقات میں شامل تھے۔

آئی سی آئی جے کے مطابق یہ انکشافات اتوار کے روز پاکستانی وقت کے مطابق رات ساڑھے 9 بجے جاری کیے جائیں گے۔

یاد رہے کہ اپریل 2016 میں آئی سی آئی جے کی تحقیق پاناما پیپرز کے نام سے سامنے آئی تھی جس نے دنیا میں تہلکہ مچادیا تھا۔

پاناما پیپرز ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل تھے جس میں درجنوں سابق اور اس وقت کے سربراہان مملکت، کاروباری شخصیات، مجرموں، مشہور شخصیات اور کھلاڑیوں کی ‘آف شور’ کمپنیوں کا ریکارڈ موجود تھا۔

پاناما لیکس میں پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کا بھی آف شور کمپنیوں سے تعلق سامنے آیا تھا جس پر ان کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمات چلائے گئے تھے اور اسی وجہ سے نواز کو وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونے پڑے تھے۔

اس حوالے سے صبح سے ٹوئٹر پر پینڈورا پیپرز کا ہیش ٹیگ بھی ٹرینڈ کررہا ہے جس میں سیاستدانوں اور صحافیوں سمیت شہری بھی اپنے خیالات کا اظہار کررہے ہیں۔

سالانہ ایک کھرب ڈالر غریب سے امیر ممالک کی جانب منتقل ہوتے ہیں، فیصل جاوید

آئی سی آئی جے کے ‘پینڈورا پیپرز’ سے اعلان کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر فیصل جاوید نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹ پر ایک جاری بیان میں میڈیا رپورٹس کے حوالے سے کہا تھا کہ پاناما پیپر کے بعد آئی سی آئی جے پینڈورا پیپرز کے منظر عام پر لانے والا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ غریب ممالک سے امیر ممالک کی جانب منی لانڈرنگ کی وجہ سے دنیا میں بہت زیادہ عدم مساوات پیدا ہوئی ہے اور وزیراعظم نے اس معاملے کو اقوام متحدہ سمیت ہر عالمی فورم پر اٹھایا ہے۔

ایک اور ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ فائنینشل اکاؤنٹیبلیٹی ٹرانسپیرنسی اینڈ انٹیگریٹی (ایف اے سی ٹی آئی) کے مطابق غریب ممالک سے امیر ممالک کی جانب ایک کھرب ڈالر سالانہ منتقل ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان سیاست میں اس لیے آئے کہ وہ ناانصافی، کرپشن اور منی لانڈرنگ کے خلاف جنگ کرسکیں، ان کا مزید کہنا تھا کہ کرپشن اور غیر قانونی رقم کی منتقلی سے غربت کو ختم کیا جاسکتا ہے۔

لیکس سے وزیراعظم کے مؤقف کو مزید تقویت ملے گی، فواد چوہدری

اس سے قبل مذکورہ لیکس کے حوالے سے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا تھا کہ دنیا بھر کی اہم شخصیات کے خفیہ مالیاتی معاملات پر بڑی بین الاقوامی تحقیق ’پینڈورا پیپرز‘ سے وزیراعظم عمران خان کے مؤقف کو مزید تقویت ملے گی۔

سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر انہوں نے کہا تھا کہ پاناما پیپرز میں انتہائی کرپٹ لوگوں کے غیر ملکی اثاثوں کا انکشاف ہوا تھا، اب انٹرنیشنل کنسورشیئم آف انویسٹیگیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی ایک اور تحقیق سامنے آ رہی ہے۔

فواد چوہدری نے مزید کہا کہ جب پاناما پیپرز کی طرح غریب ممالک سے امیر ممالک میں پیسے منتقل ہونے کی تفصیلات شیئر کی جاتی ہیں تو اس سے وزیراعظم عمران خان کے مؤقف کو مزید تقویت ملتی ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ یہ تحقیق پاناما پیپرز کی طرح شفافیت کی نئی راہیں کھولے گی اور بدعنوانی کی حوصلہ شکنی کی ایک اور وجہ بن جائے گی۔

میرا لیڈر ایک، ایک پیسے کا حساب لیتا اور دیتا ہے، شہباز گل

دوسری جانب وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور شہباز گِل نے بھی فواد چوہدری اور ڈاکٹر فیصل سے مختلف مؤقف اختیار نہیں کیا۔

فیصل آباد میں ایک عوامی جلسے سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ مجھے میرے لیڈر کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ عوام کا پیسہ بھی بچاتا ہے اور عوام کا پیسہ کھانے والا بندہ اس کو نظر آجائے اور اگر کسی بندے کا 4 کلو وزن بڑھ جائے تو وہ اس سے پوچھتا ہے کہ ایکسر سائز کیوں نہیں کررہے، تو وہ ہر چیز کا حساب لینے والا بندہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر کسی نے غلط کیا ہوگا تو وہ اس سے اس کا حساب لیتا ہے اور عمران خان کا میں کہہ سکتا ہوں کہ وہ ایک ایک پیسے کا حساب دیتا اور لیتا بھی ہے اور وہ آئندہ بھی ایسا ہی کرے گا، کسی مگر مچھ کو پیسہ نہیں کھانے دیں گے۔

شہباز گل نے اپنے روایتی انداز میں کسی کا نام لیے بغیر کا کہا کہ لیکس کے بعد کچھ لوگ خاموش ہوجائیں گے اور کچھ لوگوں کی پریشانی بڑھ جائے گی اور انہوں نے واضح کیا کہ عمران خان کی نہ تو کوئی کمپنی ہے اور نہ ہی وہ ان کی طرح کے کام کرتے ہیں اور نہ ایسے کام کرنے والوں کو چھوڑتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر کسی اور کی کمپنی ہے تو اس کا جواب وہ خود دے گا، وزیراعظم پر اس کا وزن نہیں ہے، ان کا کہنا تھا کہ سب نے اپنے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ جو بھی کرپشن کرے گا وہ خود اس کا جواب دے ہے چاہے وہ وزیر ہو، اس کا تعلق پی ٹی آئی سے ہو یا وہ مسلم لیگ سے تعلق رکھتا ہو۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں