66

’اسی لمحے کے لیے زندہ تھا کہ اپنے بیٹے کو سنتا، بولتا دیکھ سکوں‘

’اسی لمحے کے لیے زندہ تھا کہ اپنے بیٹے کو سنتا، بولتا دیکھ سکوں‘

(ڈیلی طالِب)

سمیع اللہ کی آنکھوں میں اس وقت خوشی کی آنسو آ گئے جب انہوں نے پہلی مرتبہ اپنے پانچ سال کے بیٹےرایان کو ’آ، با، با،آ‘ بولتے ہوئے دیکھا اور ان کو یقین ہوگیا کہ ان کا بیٹا اب سن سکتا ہے اور اپنے والدین کو ’بابا ‘ اور ’ماما‘ پکار سکتا ہے۔

سمیع اللہ کا تعلق پشاور سے ہے اور ان کا بیٹا قوت سماعت سے محروم ہے۔ آج پشاور کے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس ہسپتال میں ان کے بیٹے سمیت دو دیگر بچوں کو خصوصی آلہ سماعت ‘کاکلئیر‘ لگایا گیا، جو صوبے کے کسی بھی ہسپتال میں پہلی کامیاب کوشش ہے تاہم اس ڈیوائس پر آنے والی لاگت بچے کے والدین کو برداشت کرنا پڑے گی جس پر تقریبا 20 لاکھ خرچ آتا ہے۔

سمیع اللہ نے بتایا کہ ان کے بچے کو پیدائش سے سننے کا مسئلہ تھا اور جب وہ ڈیڑھ سال کا ہو گیا تو ہمیں پتا چلا کہ ہمارا بیٹا سن نہیں پا رہا ہے اور اس کے بعد ہم نے ان کی علاج کے لیے کوششیں شروع کیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’ہم لاہوراور کراچی کے مختلف ہسپتالوں میں گئے لیکن وہاں پر علاج ممکن نہیں تھا اور ہم مایوس ہو کر واپس لوٹ جاتے تھے۔‘

اس کے بعد سمیع اللہ کے مطابق ان کو ایک دوست نے لاہور میں ڈاکٹر احسان دانش نامی شخص کا بتایا جس کے بعد ہم نے ان کو اپروچ کیا۔ ڈاکٹر احسان دانش پاکستان میں ’کاکلیئر امپلانٹ‘ بنانے والی کمپنی کے نمائندہ ہیں۔

سمیع اللہ کے مطابق جب ان کو بتایا گیا کہ ان کا بچہ ڈیوائس کے ذریعے سن سکے گا تو انہوں نے اس ڈیوائس کو خریدنے اور لگانے پر آنے والی لاگت کے لیے عطیات اکھٹا کرنا شروع کر دیے۔

انہوں نے بتایا کہ ’ لندن، دبئی اور مختلف جگہوں سے دوستوں نے ڈیوائس لگانے کے خرچے کے لیے عطیات کیے اور یہ آخر کار ممکن ہوگیا کہ میرا بیٹا اب سن سکتا ہے۔ میں صرف اسی کے لیے زندہ تھا کہ میں اپنے بیٹے کو سنتے اور بولتے ہوئے دیکھ سکوں۔ مجھے یقین نہیں آ رہا ہے کہ میرا بیٹا اب سن سکتا ہے۔‘

رایان سمیت دو دیگر بچوں کو بھی یہ خصوصی آلہ سماعت آج حیات میڈیکل کمپلیکس میں لگائے گئے۔ یہ تین ڈیوائسز پاکستان بیت المال کی جانب سے سپانسر کی گئیں تھیں جب کہ ڈیوائس لگانے کے لیے سرجریز پشاور کے ہسپتال میں کرائی گئیں۔

کوہاٹ سے تعلق رکھنے والی یٰاسمین بھی اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ ہال میں بیٹھی تھیں جب کہ ان کا بیٹا ساتھ والی کرسی پر موبائل پر ویڈیوز دیکھ رہا تھا۔

یٰاسمین کہتی ہیں کہ ’اللہ کا شکر ہے کہ میرا بیٹا اب سن سکتا ہے۔ ابھی بول نہیں سکتا ہے کیونکہ بولنے میں تقریبا ایک سال کا وقت لگے گا ۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’میرے بیٹے کو سماعت کا مسئلہ بچپن سے ہے اور جب ہمیں پتا چلا تو ہم نہایت پریشان تھے کیونکہ جہاں پر بھی ہم گئے تو ہمیں بتایا گیا تھا کہ اس کا علاج ممکن نہیں۔ تاہم بعد میں پشاور کے اس ہسپتال میں آگئے اور پاکستان بیت المال کی جانب سے بچے کے لیے ڈیوائس خریدی گئی۔‘

یٰاسمین نے بتایا کہ ’اس ڈیوائس پر آنے والی لاگت غریب تو کیا ایک متوسبط طبقے سے تعلق رکھنے کا خاندان بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ جب کہ ڈیوائس لگانے کے بعد اہم مرحلہ سپیچ تھراپی کا بھی ہے لیکن ہمارے صوبے کے تمام اضلاع کے ہسپتالوں میں سپیچ تھراپسٹ میسر نہیں ہیں۔ ہم حکومت سے درخواست کریں گے کہ وہ ضلعی ہسپتالوں میں کم از کم ایک سپیچ تھراپسٹ تعینات کریں۔‘

ڈیوائس کیسے لگائی جاتی ہے؟

اس خصوصی آلہ سماعت کو ’ کاکلیئر ‘کہا جاتا ہے اور یہ پانچ سال کی عمر تک کے ان بچوں کو لگایا جا سکتا ہے جو قوت سماعت سے محروم ہوں۔ ان میں سے ایک ڈیوائس کان کے عقب میں سرجری کے ذریعے نصب کی جاتی ہے جب کہ اسی کے ساتھ کنیکٹ ایک دوسری چھوٹی ڈیوائس باہر لگائی جاتی ہے۔

اس سرجری کو کرانے کے لیے سرٹیفائڈ آڈیالوجسٹ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ آلے کے باہر والے کمپوننٹ کی وارنٹی تین سال جب کہ کان کے عقب میں نصب ڈیوائس کی وارنٹی دس سال تک ہوتی ہے۔

ڈیوائس بنانے والی کمپنی کے نمائندے ڈاکٹر احسان دانش نے بتایا کہ ’پاکستان میں ہم سال 2000 سے کام کر رہے ہے اور اب تک پورے پاکستان میں تقریبا ساڑھے پانچ ہزار ڈیوائسز لگا چکے ہے۔ جن میں سے کچھ بچے یونیورسٹیز اور کالجز تک پہنچ چکے ہیں اور نارمل سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔‘

کنگ ایڈورڈز میڈکل کالج کی آڈیالوجسٹ غلام فاطمہ جو آج بچوں کی ڈیوئسز آن کرنے کی تقریب میں شریک تھی، نے بتایا کہ ’ایکسٹرنل ڈیوائس آن کرنے میں دو پروسجیر ہوتے ہے جس میں ایک کو ٹیلی میٹر کہتے ہے۔‘

فاطمہ نے بتایا کہ ’اس میں ہم بچوں کے انٹرنل ڈیوائس کو چیک کرتے ہیں کہ اس میں کوئی مسئلہ تو نہیں ہے جو 40 دن پہلے لگایا جاتا ہے۔‘

ان کے مطابق ’اس کے بعد ہم بچے کی آواز سننے کے لیول کو چیک کرتے ہیں کہ بچہ کس لیول تک تیز آواز کو سننے میں تکلیف محسوس نہیں کر رہا۔ بچوں کے لیے ہم زیادہ تیز آوازیں ابتدا سے سننے نہیں دیتے جیسے ہارن کی آواز یا دروازے کی گھنٹی کی آواز کیونکہ اس سے بچے کا دماغ متاثر ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ ابتدا میں یہی کوشش ہوتی ہے کہ بچے کو بہت اونچی آواز بھی آہستہ محسوس ہو سکے اور ایک دو سال میں وہ نارمل لیول تک لایا جاتا ہے۔‘

ہسپتال انتظامیہ کے مطابق اس ڈیوائس کو لگانے پر تقریبا 20 لاکھ کی لاگت آتی ہے۔

حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر شہزاد اکبر نےڈیلی طالِب کو بتایا کہ ’ڈیوائس لگانے کے لیے جو سرجری کی جاتی ہے وہ ہسپتال میں مفت ہوگی۔ جب کہ ساتھ میں ہسپتال کی دیگر سروسز بھی مفت مہیا ہوگی۔‘

تاہم ڈاکٹر شہزاد کے مطابق ہماری کوشش ہے کہ پاکستان بیت المال اس مد میں بچوں کی ڈیوائس کا خرچہ برداشت کر سکے کیونکہ اس لاگت میں زیادہ خرچہ ڈیوائسز خریدنے کا ہے۔

ایچ ایم سی کے ناک، کان، گلہ یونٹ کے سربراہ ڈاکٹر عدنان یار محمد خان نےڈیلی طالِب کو بتایا کہ ’آج جن بچوں کی ایکسٹرنل ڈیوائسز آن کی گئی ہیں ان میں سے ایک کی سرجری 40 دن پہلے کی گئی تھی۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’ہسپتال میں سپیچ تھراپی، اور اس ڈیوائس کو لگانے کے لیے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں اپریشن تھیٹر، آڈیا لوجی شعبے کی استعداد کار کو بڑھایا گیا ہے تاکہ صوبے میں یہ سہولت بچوں کو مہیا کی جا سکے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’ہم کوشش کریں گے کہ حکومتی سطح اور حکومتی معاونت سے ہسپتال میں اس کو ایک مستقل سہولت کی طور پر متعارف کرایا جا سکے اور تین بچوں کی کامیاب سرجریز اور ان کو ایکسٹرنل ڈیوائسز لگانا اسی کاوش کی ایک کڑی ہے۔‘

50% LikesVS
50% Dislikes

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں