60

افغان حکومت کو کمزور کرنے سے کسی کو فائدہ نہیں ہو گا: طالبان

افغان حکومت کو کمزور کرنے سے کسی کو فائدہ نہیں ہو گا: طالبان

(ڈیلی طالِب)

افغانستان میں طالبان کی نئی حکومت نے امریکہ اور یورپی مندوبین کو خبردار کیا ہے کہ اگر ان پر پابندیوں کے ذریعے دباؤ ڈالنے کی کوششیں کی جاتی رہیں تو اس سے سکیورٹی کی صورتحال خراب ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی حالات ابتر ہونے سے پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔

منگل کی رات شائع ہونے والے ایک بیان کے مطابق افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ عامر خان متقی نے مغربی سفارت کاروں سے دوحہ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’افغان حکومت کو کمزور کرنے سے کسی کو بھی فائدہ نہیں ہوگا۔‘

انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’اس کے منفی اثرات براہ راست دنیا پر سکیورٹی اور (افغانستان) سے معاشی حالات کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والوں کی صورت میں دکھائی دیں گے۔‘

طالبان اگست میں افغانستان کی سابق حکومت کو ہٹا کر اقتدار میں آئے تھے اور اپنی حکومت کا اعلان کیا تھا۔ مگر ملک کو مستحکم کرنے کی کوششوں میں انہیں شدت پسند تنظیم داعش کی جانب سے حملوں، بین الاقوامی پابندیوں، بینکس کے خالی ہونے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ادا نہ کرنے کی صورت میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔

افغان وزارت خارجہ کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان کے مطابق عامر خان متقی نے دوحہ میں ہونے والی ملاقات کے دوران کہا کہ ’ہم دنیا سے کہتے ہیں کہ موجودہ پابندیاں ختم کی جائیں اور بینکس کو معمول کے مطابق کام کرنے دیا جائے تاکہ فلاحی ادارے، تنظیمیں اور حکومت اپنے خزانے اور بین الاقوامی مالی امداد سے ملازمین کو تنخواہیں ادا کر سکیں۔‘

یورپی ممالک کو اس وقت خاص طور پر یہ تشویش لاحق ہے کہ اگر افغان معیشت تباہ ہوتی ہے تو بڑی تعداد میں پناہ گزین باہر نکلیں گے، پاکستان اور ایران جیسے پڑوسی ممالک پر اور یورپی سرحدوں پر پھر دباؤ بڑھے گا۔

ایسی صورتحال میں یورپی یونین پہلے ہی ایک ارب یوروز کی امداد کا اعلان کر چکی ہے لیکن یورپی کمیشن کی صدر نے اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ رقم افغانستان کے پڑوسیوں کی مدد کے لیے استعمال کی جائے گی یا افغان عوام کی ’براہ راست مدد‘ کے لیے دی جائے گی، طالبان حکومت کو نہیں۔

اس سے قبل اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گتریس بھی عالمی برادری سے کہہ چکے ہیں کہ افغانستان کی معیشت کو تباہی سے بچانے کے لیے اس کی معیشت میں ’کیش انجیکٹ‘ کرنے کی ضرورت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں