لداخ سرحدی تنازع: وادی گلوان میں سنہ 2020 کے دوران چینی اور انڈین فوجیوں کے درمیان ٹکراؤ کی ایک اور ویڈیو سامنے آ گئی
(ڈیلی طالِب)
چین کے سوشل میڈیا پر جمعرات کو ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں چین کے فوجیوں کے قبضے میں زخمی انڈین فوجیوں کو لے جاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
یہ ویڈیو گذشتہ برس گلوان وادی میں چینی اور انڈین فوجیوں کے درمیان ٹکراؤ کے بعد پکڑے گئے انڈین فوجیوں کی ہے۔
گلوان وادی کے خونریز ٹکراؤ کی اس ویڈیو میں انڈین فوجیوں کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے جبکہ چینی فوجی زخمی انڈین فوجیوں کو ایک ایک کر کے سہارا دے کر لے جاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
چینی حکومت یا چین کے کسی سرکاری ادارے نے اس ویڈیو کو جاری کرنے کی تصدیق نہیں کی لیکن یہ مخصوص ویڈیو صرف چینی فوج کے پاس ہی ہو سکتی ہے۔
واضح رہے کہ جون 2020 میں مشرقی لداخ کی وادی گلوان میں اںڈیا اور چین کے فوجیوں کے درمیان جھڑپ ہوئی تھی۔ اس جھڑپ کی کچھ ویڈیوز لڑائی کے کچھ دن بعد جاری کی گئی تھیں لیکن تفصیلی ویڈیوز کبھی سامنے نہیں آئیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ چین کے پاس اب بھی اس لڑائی کی اہم ویڈیوز موجود ہیں۔ اگر یہ کشیدگی بڑھتی رہی تو آنے والے دنوں میں اس خونریز لڑائی کی مزید ویڈیوز سامنے آ سکتی ہیں۔
اس ویڈیو کے بارے میں انڈین میڈیا میں مکمل خاموشی ہے۔ اسے کہیں دکھايا نہیں گیا اور نہ ہی اخبارات نے اس کے بارے میں کوئی خبر یا تصویر شائع کی۔
ٹوئٹر پر اس ویڈیو کے بارے میں کچھ لوگوں نے ردعمل ظاہر کیا ہے لیکن حزب اختلاف کی جماعت کانگریس نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اس کے بارے میں جواب دے۔
پارٹی کے سیںیئر ترجمان پون کھیڑا نے کہا ہے کہ ’اس ویڈیو پر حکومت کی خاموشی پر ہم سوال اٹھانا چاہتے ہیں۔ سرکار کو جواب دینا چاہیے۔ اگر یہ ویڈیو صحیح ہے تو یہ بہت تکلیف دہ ہے۔ یہ جنگی جرائم کے زمرے میں آئے گا۔ چین کی ہمت کیسے ہوئی کہ وہ اس طرح کی حرکت کرنے کا مرتکب ہوا۔ اگر حکومت اسے جنگی جرائم مانتی ہے تو وہ بتائے کہ وہ اس سلسلے میں کیا قدم اٹھائے گی۔’
ویڈیو کو اس مرحلے پر جاری کیے جانے کا سبب کیا ہو سکتا ہے؟
انڈیا کے سلامتی امور کے ماہر اور فورس میگزین کے مدیر پروین ساہنی کہتے ہیں کہ انڈیا اور چین کے درمیان گذشتہ اتوار کو کور کمانڈروں کے درمیان سرحد سے فوج پیچھے ہٹانے کے سوال پر بات چیت پوری طرح ناکام ہو گئی تھی۔
ڈیلی طالِب سے بات سے کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’یہ مذاکرات اتنی بُری طرح ناکام ہوئے ہیں کہ پہلی بار چین نے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ یہ بات چیت ان کی شرائط پر ہو گی یا پھر آگے بات نہیں ہو گی۔ جب ہمارے نائب صدر ابھی ارونا چل پردیش کے دورے پر گئے تو انھوں نے اس پر اعتراض کیا۔ انڈیا نے اس کا جواب دیا تو انھوں نے ویڈیو جاری کر دی۔ چین نے واضح کر دیا ہے کہ لداخ پر بات چیت ان کی شرائط پر ہی ہو گی نہیں تو کچھ نہیں ہو گا۔
سلامتی امور کے ماہر کیپٹن انل گور کا خیال ہے کہ لداخ میں چین کو اس کی پُرانی پوزیشن پر بھیجنا اب مشکل ہو چکا ہے۔
’چین اب ڈیپسانگ اور ہاٹ سپرنگ کے علاقے خالی نہیں کرنا چاہتا۔ یہ علاقے انڈیا کی سلامتی کے لیے انتہائی اہم ہیں کیونکہ لیہ سے دولت بیگ اولڈی تک جانے والی سڑک اب چینی فوج کی براہ راست نگراںی میں آ گئی ہے۔ چین صرف دباؤ میں دوسرے کی بات سنتا ہے۔ جب سے انڈین فوجی کیلاش رینچ اور پینگانگ سو جھیل سے پیچھے ہٹے، چین کے اوپر جو دباؤ تھا وہ بھی ختم ہو گیا۔ اب مجھے نہیں لگتا کہ چین گلوان سے پہلے والی پوزیشن میں واپس جائے گا۔‘
انڈین فوجیوں کی ڈیڑھ برس پرانی اس ویڈیو پر انڈیا میں بھلے ہی خاموشی ہو لیکن ماہرین کا خیال ہے انڈیا اور چین کے درمیان صورتحال دن بدن خراب ہو رہی ہے۔ امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان کے چین مخالف ںئے اتحاد ’کواڈ‘ میں شامل ہونے سے انڈیا کے خلاف چین کی ناراضی اور بڑھی ہے۔
پروین ساہنی کے مطابق ’یہ حقیقت ہے۔ سرحد پر ان کے فوجیوں کی تعداد کافی بڑھ چکی ہے۔ چین بہت ناراض ہے۔ مودی حکومت اس بات کا احساس نہیں کر پا رہی کہ صورتحال کافی خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔‘
انڈیا کی مشکلات میں جمعرات کو اس وقت مزید اضافہ ہو گیا جب انڈیا کے انتہائی قریبی ملک بھوٹان نے سرحدی تنازع کے حل کے لیے چین سے ایک معاہدہ کر لیا۔
جون 2016 میں بھوٹان اور چین کی سرحد پر واقع ڈوکلام خطے میں چین کی طرف سے ایک سڑک تعمیر کیے جانے پر انڈیا، بھوٹان اور چین کے درمیان دو مہینے سے زیادہ عرصے تک زبردست تناؤ تھا اور فوجیں ایک دوسرے کے مقابل کھڑی تھیں۔
چینی امور کی تجزیہ کار غزالہ وہاب کہتی ہیں کہ کہ بھوٹان کو اب محسوس ہوا ہو گا کہ ’انڈیا اگر اپنے سرحدی تنازعات کو نہیں حل کر پا رہا تو وہ بھوٹان کا کیا دفاع کرے گا۔
- About the Author
- Latest Posts
Ghufran Karamat is a Senior Columunts who work With Daily talib