78

پولیس اور تحریک لبیک کے کارکنان کے درمیان جھڑپیں، دو اہلکار ہلاک

پولیس اور تحریک لبیک کے کارکنان کے درمیان جھڑپیں، دو اہلکار ہلاک

(ڈیلی طالِب)

پنجاب پولیس کے مطابق کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے کارکنان کو لاہور سے اسلام آباد کی طرف جانے سے روکنے کی کوششیں جاری ہیں جبکہ ٹی ایل پی کارکنان کی طرف سے بھی پتھراؤ کیا جا رہا ہے۔

آئی جی پنجاب نے اس حوالے سے کہا ہے کہ’ کسی بھی صورت مارچ کے شرکا کو اسلام آباد نہیں جانے دیا جائے گا۔‘

اس حوالے سے پنجاب پولیس نے کالعدم ٹی ایل پی کا مارچ چوبرجی کے قریب روکنے کے بعد آنسو گیس اور شیلنگ کا استعمال شروع کر دیا ہے جبکہ جواب میں ٹی ایل پی کارکنوں کی جانب سے بھی پتھراؤ کیا جا رہا ہے۔

پنجاب پولیس کے مطابق ٹی ایل پی کارکنان کے ساتھ جھڑپوں میں دو پولیس اہلکار مارے گئے ہیں جبکہ متعدد دیگر افراد زخمی ہوئے ہیں۔

جبکہ دوسری جانب تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے بھی کارکنان کی ہلاکت کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔

اب سے کچھ دیر قبل مارچ کے شرکا نے ٹی ایل پی کے مرکز سے روانہ ہونے کے بعد راستے میں لگے کنٹینرز کو ہٹانا شروع کر دیا تھا۔

جس کے بعد جب مارچ شرکا ایم اے او کالج چوک اور چوبرجی کے قریب پہنچے تو وہاں پہلے سے موجود بھاری نفری نے انہیں طاقت سے روکنے کی کوشش کی۔

اس وقت تحریک لبیک کے کارکنان کو روکنے کے لیے بڑی تعداد میں سکیورٹی اہلکار اور رینجرز کو تعینات کیا گیا ہے۔

اس سے قبل ٹی ایل پی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اگر حکومت پہلے مرحلے میں سعد حسین رضوی کو رہا کر دیتی ہے تو مارچ کی کال واپس لینے پر غور کیا جاسکتا ہے۔

تاہم بعد میں ٹی ایل پی کے ترجمان صدام بخاری نے حکومت کے ساتھ مذاکرات ناکام ہونے کی تصدیق کی تھی۔

دوسری جانب وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ٹی ایل پیکے ساتھ دوبارہ مذاکرات کے لیے ٹیم تشکیل دے دی ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب کے مطابق ’تحریک لبیک سے مذاکرات کے لیے ہم نے پنجاب کابینہ کے سینیئر اراکین راجہ بشارت اور چوہدری ظہیر الدین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی ہے۔

جبکہ ٹی ایل پی قیادت کی کال پر کارکن ملتان روڈ پر ٹی ایل پی کے مرکز رحمت العالمین مسجد سے اسلام آباد کی جانب مارچ کا آغاز کر چکے ہیں اور کارکنان نے سڑکوں پر لگی رکاوٹوں کو ہٹانا شروع کر دیا ہے۔

اسی حوالے سے اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان مختلف راستوں کو پہلے ہی کنٹینرز لگا کر بند کر دیا گیا ہے۔

ڈیلی طالِب کے مطابق اسلام آباد کے ایکسپریس ہائی وے پر فیض آباد کے مقام پر وفاقی دارالحکومت سے راولپنڈی کو جانے والے پل کو گذشتہ رات کنٹینرز رکھ کر بند کر دیا گیا تھا۔

اسلام آباد سے فیض آباد کے ذریعے راولپنڈی جانے والوں کو سیکٹر آئی ایٹ کا پُل استعمال کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جبکہ راولپنڈی سے دارالحکومت آنے والے نائنتھ ایونیو کا راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔

ڈیلی طالِب کے مطابق فیض آباد پل کے تمام راستوں پر بڑے بڑے کنٹینرز رکھے گئے ہیں جبکہ ایکپریس ہائی وے پر ٹریفک پولیس کے اہلکار میگا فون کے ذریعے لوگوں کو متبادل راستوں کی طرف جانے کے اعلانات کرتے نظر آئے۔

اسلام باد میں اکثر نجی تعلیمی ادارے بھی دن 11 بجے بند کر دیے گئے تھے۔

اسلام آباد اور راولپنڈی کی ٹریفک پولیس گذشتہ رات سے سوشل میڈیا پر راستوں کی بندش اور متبادل روٹ استعمال کرنے کی ہدایات کر رہی ہے۔

لاہور کی صورتحال

منگل سے جاری دھرنے کے باعث لاہور میں ملتان روڈ کے اطراف پندرہ سے بیس لاکھ کی آبادی گھروں میں محصور ہوکر رہ گئی ہے۔

ایک رکشہ ڈرائیور ممتاز (فرضی نام) نے ڈیلی طالِب‌کو بتایا کہ ان کی رہائش چوک یتیم خانہ کے قریب ہے لیکن راستے بند ہونے کے باعث چار روز سے وہ رکشہ نہیں نکال سکے جس سے دووقت کی روزی کمانا بھی مشکل ہوگیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر باہر نکلیں تو ٹی ایل پی کارکن واپس نہیں آنے دیتے اور پولیس کی جانب سے بھی یہاں نقل وحرکت پر پابندی ہے۔ بچے سکول تک نہیں جاسکتے، مارکیٹیں بھی بند ہیں اور راشن خریدنے میں بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘

اطلاعات کے مطابق حکومت نے ٹی ایل پی کا مارچ روکنے کے لیے تمام شہروں سے متحرک کارکن پہلے ہی حراست میں لے رکھے ہیں جبکہ لاہور سے اسلام آباد جی ٹی روڈ کو گوجرانوالہ، گجرات، جہلم، کھاریاں اور راولپنڈی کے قریب سے بند کرنے کے لیے کنٹینر رکھ دیے ہیں۔

تاہم ان ساری رکاوٹوں کے باوجود ٹی ایل پی کارکن اسلام آباد جانے کے لیے پر عزم ہیں اور پہلے ہی راولپنڈی پہنچنا شروع ہوگئے ہیں، لہذا اگر وہ روانہ ہوتے ہیں تو لاہور میں پولیس کی جانب سے روکنے کی کوشش میں چھ ماہ پہلے جیسے پُر تشدد حالات کا خدشہ ہے۔

ٹی ایل پی کا احتجاج کیوں؟

کالعدم تحریک لبیک پاکستان نے گذشتہ کئی روز سے اپنے سربراہ سعد رضوی کو رہا نہ کیے جانے کے معاملے پر لاہور میں دھرنا دے رکھا ہے جبکہ انتظامیہ نے ملتان روڈ پر ٹی ایل پی کے مرکز کے گرد آنے جانے والے راستوں کو کنٹینر لگا کر بند کر دیا ہے۔

اس کے علاوہ ضلعی انتظامیہ نے گذشتہ روز دھرنے کے مقام اور اردگرد کے علاقوں میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سہولیات بند کرنے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کیا جبکہ مارکیٹیں اور کمرشل سینٹرز بھی بند کروا دیے گئے ہیں۔

تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ سعد حسین رضوی کو ڈی سی لاہور کے احکامات پر رواں برس 12 اپریل کو لاہور سے ایک جنازے میں شرکت کے بعد واپسی پر حراست میں لیا گیا تھا۔

ان کی گرفتاری توہین آمیز خاکوں کی اشاعت پر فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے لیے ممکنہ احتجاج کو روکنے کے لیے عمل میں لائی گئی تھی۔

سعد رضوی کو 90، 90 روز کے لیے دو بار نظر بند کیا گیا جا چکا ہے۔ ان کی رہائی کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا جس پر عدالت نے سماعت مکمل ہونے کے بعد یکم اکتوبر کو انہیں رہا کرنے کا حکم دیا تھا، تاہم اب تک رہائی عمل میں نہیں آئی۔

ٹی ایل پی نے حکومت کو سعد رضوی کی رہائی کے لیے گذشتہ روز (21 اکتوبر) کو شام پانچ بجے تک کی مہلت دی تھی، جس کے بعد تنظیم کے رہنماؤں نے جمعے کو اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں