68

پاکستانی سیاستدان اور ان کے روحانی پیر

پاکستانی سیاستدان اور ان کے روحانی پیر

(ڈیلی طالِب)

الف لیلہٰ کی شہرزاد بلبل ہزار داستان تھی، وہ ہر شب بادشاہ کو ایک نئی کہانی سناتی اور ایک پنڈورا بکس کھول دیتی، کیا مریم نواز پاکستانی سیاست کی شہرزاد ثابت ہوں گی؟

اس سلسلے میں یقین کے ساتھ تو کوئی صاحب کرامت ہی کچھ کہہ سکتا ہے لیکن ان کا حال ہی میں دیا گیا بیان اسی قسم کی تاثیر رکھتا ہے۔ گزشتہ ہفتے وہ جب اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچیں تو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اپنے روایتی سخت اور کھردرے لہجے میں انھوں نے حکمرانوں کو آڑے ہاتھوں لیا اور ایسی باتیں کہہ دیں جو ایک خاص تناظر میں انکشاف کا درجہ رکھتی ہیں۔

انھوں نے کہا ’جو شخص ملک کی اہم ترین تقرریاں جادو ٹونے سے کرتا ہو، بجائے وزیراعظم کے جنات تقرریاں کرتے ہوں یا پھر جسے کہتے ہیں، طوطا فال نکالی جاتی ہو، اس ملک کا اور اداروں کا دنیا میں تماشا بن جائے تو اس میں حیرت کیا ہے۔‘

مریم نواز نے اس بیان میں غیر مرئی طاقتوں کی مدد سے عوامی مسائل کے حل اور آٹا، چینی، پیٹرول بجلی سستی کرنے کی بات بھی کی ہے، کیا حکومت اس مشورے سے فائدہ اٹھائے گی؟

پاکستان کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال تو نہیں ملتی لیکن یہ ضرور ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے والے بعض حکمران اور اہم شخصیات یہ یقین کرتے آئے ہیں کہ ایسی قوتوں کی مدد سے نہ صرف اقتدار کا حصول ممکن ہے بلکہ اسے مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ اس کی طوالت میں اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔

بانیانِ پاکستان کو چھوڑ کر ان کے بعد ملک کا نظم و نسق سنبھالنے والی شخصیات کے ہاں ایسی مثالیں کثرت سے ملتی ہیں۔ قدرت اللہ شہاب کے مطابق پاکستان کے تیسرے گورنر جنرل ملک غلام محمد، حاجی وارث علی شاہ کے عقیدت مند تھے جن کا مزار انڈیا میں لکھنؤ کے قریب دیوا شریف میں واقع ہے۔

قیام پاکستان سے پہلے وہ اکثر ان کے مزار پر حاضری دیا کرتے تھے۔ جن دنوں وہ گورنر جنرل ہاؤس میں مقیم تھے، پیر صاحب کی تصویر ان کے بستر کے ساتھ ایک میز پر اُن کی نگاہوں کے سامنے رہتی تھی۔

ایک اور بیوروکریٹ اور جنرل یحییٰ خان کی کابینہ کے رکن شہاب الدین رحمت اللہ نے اپنی خود نوشت ’شہاب بیتی’ میں لکھا ہے کہ ملک غلام محمد اولیائے کرام، خاص طور پر اپنے پیر کی وفات کے بعد بھی ان کی زندگی کے قائل تھے، کتاب میں انھوں نے اپنے ساتھ ملک غلام محمد کا ایک مکالمہ درج کیا ہے:

’یہ ولی اللہ بھی عجیب ہوتے ہیں، وصال کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں، جہاں تک میرا تعلق ہے، میں تو ان کے در کا گدا ہوں’۔

شہاب الدین رحمت اللہ نے لکھا ہے کہ یہ بات کہہ کر گورنر جنرل آب دیدہ ہو گئے اور قرآن مجید کی چند آیات پڑھ کر انھوں نے ان (شہاب الدین رحمت اللہ) پر سر سے پاؤں تک پھونک ماری۔ ان کے مطابق حاجی وارث علی شاہ نے کئی بار حج کا پیدل سفر کیا تھا اور زندگی بھر ان کے پاس صرف ایک ہی کپڑا رہا جسے وہ جسم پر لپیٹ لیا کرتے تھے، کوئی عقیدت مند نئی چادر پیش کر دیتا تو وہ اسے قبول کر کے پرانی چادر اسے بطور تبرک دے دیا کرتے تھے۔

قدرت اللہ شہاب نے لکھا ہے کہ ملک غلام محمد پر اپنی وفات سے قبل یہ دھن سوار ہو گئی تھی کہ وہ جہاز چارٹر کروا کر دیوا شریف جاکر اپنے پیر کے مزار پر حاضری دیں۔ اس مقصد کے لیے وہ انڈیا جا سکے یا نہیں ‘شہاب نامہ’ میں یہ ذکر نہیں ملتا۔

ملک غلام محمد کے بعد پاکستان کے پہلے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ایوب خان بھی وہ شخص تھے جنھوں نے اپنے اقتدار کے لیے روحانی شخصیات سے مدد لی۔ سنہ 1964 کے صدارتی انتخابات کے موقع پر یہ سلسلہ اس وقت عروج پر پہنچ گیا جب بانیِ پاکستان کی بہن فاطمہ جناح ان کے مقابلے میں حزب اختلاف کی امیدوار بن کر سامنے آئیں لیکن اس سلسلے کی ابتدا اس سے کچھ پہلے ہو چکی تھی۔

قدرت اللہ شہاب نے ‘شہاب نامہ’ میں انڈیا کے شہر مدراس سے آنے والے ایک بزرگ کا ذکر کیا ہے جنھوں نے فروری 1962ء میں ایوب خان سے ملاقات کی تھی۔ ان صاحب کے بارے میں معروف تھا کہ وہ علم جفر کے ماہر ہیں اور ایوب خان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔ انھوں نے ایوب خان کو بتایا کہ وہ پاکستان پر آٹھ یا نو برس حکومت کریں گے۔

اس ملاقات کے بعد ایوب خان نے قدرت اللہ شہاب کو مخاطب کر کے کہا: ’یہ بڈھا کیا بک رہا تھا۔‘

اس طرح انھوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ کسی قسم کی ضعیف الاعتقادی کا شکار نہیں ہیں لیکن اس واقعے کے دو ہی برس کے بعد جب فاطمہ جناح ایک بڑا سیاسی خطرہ بن کر ان کے مقابل آ کھڑی ہوئیں تو صورت حال بدل گئی۔

ایک سینئر صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایوب خان کے ملٹری سیکریٹری کے حوالے سے بتایا کہ اُن دنوں پیر صاحب دیول شریف پر ان کا بھروسہ بہت بڑھ گیا تھا اور ایوب خان کے سیاسی معاملات میں پیر صاحب کے عمل دخل میں کافی اضافہ ہو گیا تھا۔ یہاں تک کہ انتخابی چیلنج سے نمٹنے کے لیے پیر صاحب دیول شریف کی سرگرمیاں قومی زندگی میں گفتگو کا موضوع بن گئیں اور اخباری مندرجات کا حصہ بھی بننے لگیں۔

صحافی مجیب الرحمٰن شامی بتاتے ہیں کہ ‘نوائے وقت’ میں ان دنوں ایک کارٹون شائع ہوا جس میں پیر صاحب کو ایک لالٹین جو فاطمہ جناح کا انتخابی نشان تھا، بجھاتے ہوئے دکھایا گیا، کارٹون کا کیپشن تھا: ’پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا۔‘

سنہ 1967 میں ایوب خان کے خلاف تند وتیز احتجاجی مہم شروع ہو گئی، اس مشکل سے بچانے کے لیے پیر صاحب دیول شریف ایک بار پھر اسی جوش و خروش سے متحرک ہوئے، ان کی یہ کوششں کتنی کامیاب رہی، اس کا اندازہ مستقبل کے واقعات سے ہوتا ہے جن میں ایوب خان اقتدار سے محروم ہوئے اور یحییٰ خان مارشل لا لگا کر ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔

ایوب خان کی اقتدار سے محرومی کے بعد کا زمانہ بڑا ہنگامہ خیز رہا۔ اس دوران انتخابات ہوئے اور خانہ جنگی کے بعد مشرقی پاکستان علیحدہ ہو گیا۔

ذوالفقار علی بھٹو اور لاڑکانہ کے جمن فقیر

ان واقعات کے بعد ذوالفقار علی بھٹو ملک کے سیاسی منظر پر نمایاں ہوئے۔ بھٹو صاحب کی شہرت ایک جدید تعلیم یافتہ اور روشن خیال سیاست دان کی ہے، ان کے بارے میں ایوب خان کی طرح روحانی شخصیات سے فیض یاب ہونے کے واقعات کی کوئی شہادت نہیں ملتی، البتہ وہ فاتحہ خوانی کے لیے بزرگوں کی درگاہوں پر ضرور جایا کرتے تھے۔

لاڑکانہ کے ایک بزرگ شہری اور میونسپل کارپوریشن کے ایک اعلیٰ افسر گل محمد گاڈ بتاتے ہیں کہ یہ سرگرمیاں ان کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ تھیں۔ سیاسی مقاصد کے لیے اولیائے کرام اور بزرگوں کے مزاروں پر جانا اپنی جگہ لیکن لاڑکانہ میں جمن فقیر نام کے ایک مجذوب بزرگ سے ان کی دوستی کے واقعات زبان زد عام ہیں۔

جمن فقیر کس قسم کے آدمی تھے اور بھٹو صاحب کے تعلق سے ان کی کیسی حکایات لوگوں میں مقبول ہیں، یہ سوال میں نے مقامی صحافی طارق درانی سے پوچھا تو انھوں نے بتایا ’جمن فقیر قمبر نامی قصبے کے حجام تھے جو کسی زمانے میں لاڑکانہ منتقل ہو گئے۔ وہ اپنے گدھے پر سوار ہو کر دن بھر شہر میں گھومتے رہتے تھے اور قصابوں کی دکانوں سے ہڈیاں گوشت اور چھیچھڑے جمع کر کے کتوں کو ڈال دیا کرتے تھے، اس وجہ سے وہ جہاں جاتے کتے بھی ان کے پیچھے پیچھے چلتے رہتے۔

صحافی طارق درانی جمن فقیر کے بارے میں معروف تھا کہ وہ اپنی بھولی بھالی باتوں میں بڑی دانائی کی باتیں کہہ جاتے ہیں۔ لاڑکانہ کے لوگ کہا کرتے ہیں کہ ان کی یہ شہرت سن کر بھٹو صاحب نے جب وہ وزیر خارجہ تھے، انھیں اپنے پاس بلایا لیکن انھوں نے آنے سے انکار کر دیا جس پر بھٹو صاحب خود ان کے پاس پہنچ گئے۔ انھیں آتا دیکھ کر جمن فقیر نے بھٹو صاحب سے ان کی آمد کا سبب پوچھا تو انھوں نے کہا کہ وہ محض حاضری کے لیے آئے ہیں جس پر جمن نے کہا کہ میں کوئی تمھارا استاد ہوں جو یوں حاضری بھرنے آئے ہو؟ اس پر بھٹو صاحب نے انھیں دوستی کی پیش کش کر دی جو انھوں نے قبول کر لی۔

اسی طرح مقامی لوگ ایک اور ملاقات کا واقعہ بھی بیان کرتے ہیں جس میں بھٹو صاحب نے جمن فقیر سے پوچھا کہ وہ ان کی کیا خدمت کر سکتے ہیں تو فقیر نے کہا کہ وہ اپنی گاڑی انھیں دے دیں اور ان کا گدھا خود لے لیں۔ بھٹو صاحب آمادہ ہو گئے تو جمن فقیر نے اُن کے اردگرد کھڑے لوگوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ تمھارے پاس پہلے ہی کافی گدھے ہیں، مجھے میرے گدھے سے محروم کیوں کرتے ہو؟

گل محمد گاڈ ایسے واقعات کی صداقت کے بارے زیادہ یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن وہ اپنا ایک آنکھوں دیکھا واقعہ بیان کرتے ہیں جس کی نوعیت بھی ان واقعات سے مختلف نہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’بھٹو صاحب اسلام آباد سے آتے تو المرتضیٰ کے لان میں بیٹھ جاتے۔ اس موقع پر گھر کے دروازے کھل جاتے اور جو چاہتا، ان سے بلا اجازت ملنے آ جاتا۔ ایک بار ایسی ہی نشست کے دوران جمن فقیر اپنے گدھے پر سوار المرتضیٰ میں داخل ہوا۔‘

گل محمد گاڈ کہتے ہیں کہ وہ منظر آج بھی ان کی آنکھوں کے سامنے ہے: جمن فقیر اپنے گدھے پر سوار تھا اور ایک لمبی سی چھڑی اس کے ہاتھ میں تھی جسے لہراتے ہوئے اس نے بھٹو صاحب کو مخاطب کیا اور کہا کہ اسے خیرات دی جائے۔ جمن فقیر عام طور پر خیرات نہیں مانگا کرتا تھا لیکن جانے کیا وجہ تھی کہ اس روز اس نے اپنی روایت توڑ دی۔ بھٹو صاحب نے فوراً ہی جیب سے سو روپے نکال کر ان کی طرف بھجوائے۔ یہ دیکھ کر جمن فقیر اپنے مخصوص انداز میں مسکرایا اور پکار کر کہا کہ بھٹو! اگر تمھاری جگہ میں ہوتا تو سوچو، کیا میں بھی ایسا ہی کرتا؟ بھٹو صاحب طنز کی تہہ تک پہنچ گئے اور پانچ سو روپے کا نوٹ اس کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے کہا ‘جمن فقیر میرے لیے دعا کرنا۔‘

جمن فقیر نے بھٹو صاحب کی یہ درخواست سنی اور اپنے گدھے کا رخ بدل کر انھیں ایک بار پھر مخاطب کیا: ’یہ بادشاہی تمھارے لیے کافی نہیں ہے تو چلو آؤ، میرے ساتھ مل کر خیرات اکٹھی کرو۔‘

گل محمد گاڈ کے مطابق جمن فقیر تو یہ کہہ کر اپنے گدھے کو ٹخٹخاتا ہوا المرتضیٰ سے باہر نکل گیا لیکن بھٹو صاحب کے چہرے پر کسی خیال کی گہری لکیریں چھوڑ گیا جو بعد میں ایک سنجیدہ مسکراہٹ میں بدل گئیں۔

ذوالفقار بھٹو کے معاملے میں سیاسی معاملات میں ستارہ شناسوں سے مدد لینے کا ایک ہی واقعہ سامنے آتا ہے۔ مولانا کوثر نیازی نے اپنی کتاب ‘۔۔۔اور لائن کٹ گئی’ میں لکھا ہے کہ سنہ 1977 میں انتخابات کا اعلان کرنے کے بعد وہ سری لنکا کے دورے پر پہنچے۔ سری لنکا کے نجومیوں اور ستارہ شناسوں کی شہرت عالم گیر تھی، ان کی خواہش پر ملک کے چند تجربہ کار اور اچھی شہرت رکھنے والے ستارہ شناسوں سے ان کی ملاقات کرائی گئی۔ بھٹو صاحب جاننا چاہتے تھے کہ انھوں نے انتخابات کے لیے جس تاریخ کا اعلان کیا ہے، وہ ان کے لیے فائدہ مند ہو گی یا نہیں؟ ان لوگوں نے بھٹو صاحب کو یہ جواب دے کر اداس کر دیا کہ تاریخ کا اعلان تو وہ کر چکے ہیں، اب وہ ان سے کیا جاننا چاہتے ہیں؟

ستارہ شناسوں اور مستقبل کے بارے میں پیشین گوئیاں کرنے والوں سے ان کی دل چسپی کا یہی ایک واقعہ ریکارڈ پر ہے۔

بھٹو صاحب کی پھانسی کے وقت کے بارے میں صحافی طاہر خلیل نے اپنی یادوں کو ٹٹولتے ہوئے بتایا کہ ‘مجھے یاد ہے، بھٹو صاحب سے آخری ملاقات ان کی پہلی اہلیہ شیریں امیر بیگم نے کی تھی۔ اُن دنوں وہ راول پنڈی کے راول ہوٹل میں ٹھہریں، اپنے اس قیام کے دوران وہ چک لالہ میں کسی بزرگ کے پاس دعا کے لیے جایا کرتی تھیں۔‘

بے نظیر بھٹو

ذوالفقار علی بھٹو کے مقابلے میں ان کی صاحبزادی اور ان کی سیاسی جانشین بے نظیر بھٹو کا معاملہ مختلف تھا۔ ایک انڈین صحافی کے آر این سوامی نے اخبار ‘دی ٹریبیون’ میں شائع ہونے والے فیچر میں لکھا تھا کہ ’سنہ 1980 (یعنی اپنے والد کی پھانسی کے ایک برس بعد) بے نظیر بھٹو بنگلہ دیش کے دورے پر پہنچیں جہاں انھوں نے ایک معروف پیر سے ملاقات کی۔ اس موقع پر انھوں نے پیر صاحب سے دریافت کیا کہ ان کے والد کے قاتل کب تک اپنے انجام کو پہنچیں گے؟ یہ سوال سن کر پیر صاحب نے کچھ دیر کے لیے آنکھیں بند کر لیں پھر کہا ’جب آم ہوا میں اڑیں گے۔‘ بے نظیر بھٹو نے اس علامتی جملے کی وضاحت چاہی تو پیر صاحب نے جواب دینے سے انکار کر دیا۔‘

بے نظیر بھٹو سنہ 1988 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد جب وزیر اعظم منتخب ہوگئیں تو انھوں نے اپنی اولین فرصت میں دو اکتوبر 1989ء کو بنگلہ دیش کا دورہ کیا۔ اس دورے میں حافظ طاہر خلیل بھی صحافیوں کے وفد میں شامل تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس موقع پر وہ ملاقات کے لیے خصوصی طور پر اُن پیر صاحب کے ہاں پہنچیں۔

پیر صاحب سے ملاقات کی تفصیلات تو دستیاب نہیں ہیں لین حافظ طاہر خلیل بتاتے ہیں کہ پیر صاحب سے ملاقات کے پروگرام کا چرچا ہوا تو اس موقع پر ‘اڑتے ہوئے آموں’ والے جملے کی گونج بھی سنی گئی۔

یہ پیر صاحب کون تھے اور ان کی شہرت کیسی تھی، بنگلہ دیش کے ایک اخبار روزنامہ ’گون ودھیکار’ نے اس کی تفصیلات شائع کی ہیں۔ اخبار کے مطابق اُن پیر صاحب کا نام مجیب الرحمٰن چشتی تھا جن کی جوئے پورہاٹ میں درگاہ تھی۔ اخبار نے لکھا ہے ’پیر مجیب الرحمٰن چشتی کے بارے میں معروف تھا کہ وہ لوگوں کے ماضی اور مستقبل کے بارے میں پیش گوئیاں کیا کرتے ہیں۔ بنگلہ دیش کے فوجی جرنیل اور حکمراں جنرل حسین محمد ارشاد اور جنرل ضیاالرحمٰن بھی ان کے ہاں جایا کرتے تھے۔ پیر صاحب کی کرامات دور دور تک معروف تھیں، بعض لوگوں کے نزدیک یہ محض پروپیگنڈہ تھا، ایسے لوگوں کے نزدیک پیر صاحب کی شہرت بھی اچھی نہ تھی اور وہ ان سے خوف بھی کھایا کرتے تھے۔‘

روحانی شخصیات سے مدد لینے کے لیے ان کے ہاں جانے کے علاوہ مختلف مزاروں پر بے نظیر کی حاضری کے واقعات بہت معروف ہیں۔ .انڈیا کے این ڈٰی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق انھوں نے 2003ء میں اجمیر شریف کی درگاہ پر حاضری دی تھی، اس دورے کا بظاہر مقصد یہ تھا کہ ان کے اسیر شوہر کی جلد رہائی ممکن ہو جائے۔ این ڈٰی ٹی وی کے مطابق آصف علی زرداری جب رہا ہوگئے تو انھوں نے اپنے شوہر کے ہمراہ شکر گزاری کے لیے اجمیر شریف کا ایک بار پھر دورہ کیا اور اس موقع پر انھوں نے وہاں تاثرات کی کتاب میں اپنے تاثرات بھی قلم بند کیے۔

پاکستان میں اولیائے کرام کی بہت سی درگاہوں پر بےنظیر بھٹو کی حاضری کی تفصیلات دستیاب ہیں جن میں لال شہباز قلندر کا مزار خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ لاہور میں ان کے ایک جلوس کا روٹ خاص طور پر اس طرح بنایا گیا تاکہ وہ بی بی پاک دامن کے مزار پر حاضری دے سکیں۔ لاہور ہی میں وہ حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش کے مزار پر بھی کئی بار حاضر ہوئیں۔

گل محمد گاڈ بتاتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو کے آبائی قصبے رتو ڈیرو میں فقیر نصیر ناریجو نامی ایک پیر یا عامل کی بڑی شہرت تھی، بڑے بڑے لوگ اور بیوروکریسی کے افسر ان کے پاس آیا کرتے تھے، شہرت تھی کہ یہ صاحب عجیب و غریب باتیں کیا کرتے ہیں اور لوگوں کو ان کی زندگی کے بارے میں اہم اور غیر معمولی باتیں بتایا کرتے ہیں، ان کی شہرت کا سن کر بےنظیر بھٹو ایک بار ان کی درگاہ پر خود گئیں اور اس کے بعد انھیں اپنے گھر بلا کر ان سے مشورے کرنے لگیں۔

انجم نیاز کے مطابق بے نظیر بھٹو اسلام آباد کے ایک نواحی علاقے چک شہزاد میں ملتانی بابا کے نام سے معروف پیر سے ملاقات کے لیے بھی جایا کرتی تھیں اور ان کے سامنے زمین پر بیٹھا کرتی تھیں۔

سینئر صحافی اسلم خان پیر اِبرا کے نام سے معروف ایک پیر کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ کالم نگار اثر چوہان نے لکھا ہے کہ پیر اِبرا دراصل نواب جہانگیرابراہیم نامی ایک صاحب حیثیت بزرگ تھے جن سے بے نظیر بھٹو ہر اہم معاملے میں مشورہ کیا کرتی تھیں۔ ان کے مطابق وزیر اعظم کی حیثیت سے جب وہ پہلی بار امریکہ گئیں تو پیر اِبرا بھی سرکاری وفد کا حصہ تھے جنھیں وفاقی وزیر کے برابر پروٹوکول دیا گیا۔ اس دورے میں وزیر اعظم کے وفد کے ارکان کی تعداد 29 رکھی گئی تھی، وفد کی تعداد کا مشورہ بھی انھیں پیر اِبرا نے دیا تھا۔

انجم نیاز نے لکھا ہے کہ اس دورے میں ایک عیجب و غریب حلیے کا شخص دیکھ کر سنسنی سی پیدا ہوگئی جس پر نجم سیٹھی اور بعض دیگر باخبر صحافیوں نے یہ کہہ کر معاملہ ٹھنڈا کیا کہ یہ صاحب ’سرکاری پیر‘ ہیں۔

نوازشریف اور بےنظیر ایک ہی آستانے پر

اسلام آباد کے ایک سینئر صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ مانسہرہ میں دیوانہ بابا کے نام سے معروف پیر رحمت اللہ آف دھنکہ شریف کے ہاں بھی گئی تھیں جو راہنمائی اور مدد کے لیے اپنے پاس آنے والوں کو چھڑی سے مارا کرتے تھے۔

صحافی انجم نیاز مرحومہ نے روزنامہ ‘ ڈان’ میں ان کی اس ملاقات کا ذکر دلچسپ انداز میں کیا تھا۔ وہ لکھتی ہیں: ’نواز شریف کی 1993ء میں اقتدار سے محرومی کے بعد یہ واحد تحفہ تھا جو انھوں نے بے نظیر بھٹو کے لیے چھوڑا اور وہ تھے دیوانہ بابا، بےنظیر کو یقین تھا کہ اگر اس بزرگ نے نواز شریف کو دو بار اقتدار دلوا دیا تو ان کی دعائیں خود ان کے لیے بھی بابرکت ثابت ہوں گی’۔

دیوانہ بابا کے ہاں سابق وزیراعظم نواز شریف کیوں حاضر ہوئے، اس کی تفصیل اس دورے میں ان کے ساتھ موجود صحافی عمر فاروق کو آج بھی یاد ہے۔

عمر فاروق نے بتایا کہ نواز شریف وہاں اپنی خواہش کے تحت نہیں گئے تھے بلکہ انھوں نے یہ دورہ مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے ضلع مانسہرہ کے ایم این اے کی خواہش پر کیا تھا۔ عمر فاروق کے مطابق دیوانہ بابا نے نواز شریف کو دیکھ کر انھیں اپنی معروف چھڑی سے مارا اور کہا: ‘تمھیں بہت عزت ملنے والی ہے’۔

عمر فاروق کا کہنا ہے کہ نواز شریف نے دیوانہ بابا سے ملاقات کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی اور وہ ان کے حجرے سے باہر آنے کے بعد معمول کے سیاسی معاملات پر بات چیت کرتے رہے۔

گوہر ایوب خان بھی اس ملاقات میں موجود تھے۔ دیوانہ بابا نے انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا ‘تم گوہر ایوب ہو نا، میں اس وقت کراچی میں تانگا چلایا کرتا تھا جب تم نے وہاں فائرنگ کی تھی’۔

انجم نیاز کے مطابق سابق وزیراعظم غلام مصطفیٰ جتوئی بھی دیوانہ بابا سے متاثر تھے اور وہ ان سے ملنے کے لیے ان کی درگاہ پر گئے تھے۔

انجم نیاز نے لکھا ہے کہ نواز شریف بعد میں جب اقتدار میں آئے تو انھوں نے دیوانہ بابا کے گاؤں میں بجلی لگوائی جب کہ بے نظیر بھٹو نے سڑک بنوا کر اس دشوار گزار پہاڑی علاقے میں واقع ان کے گاؤں کو بیرونی دنیا سے جوڑ دیا۔

آصف علی زرداری: ایوان صدر میں پیر

روحانی شخصیات سے استفادے کے سلسلے میں سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے شوہر اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کے واقعات کی تفصیل بھی کافی دلچسپ ہے۔

وہ ایوان صدر پہنچے تو پیر محمد اعجاز کے نام سے ایک صاحب بھی ان کے ہمراہ ایوان صدر پہنچے۔ آصف علی زرداری کے ایک قریبی دوست نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایوان صدر کے معاملات میں پیر اعجاز بہت دخیل تھے۔ ہر صبح صدقے کے بکروں کی فراہمی کا کام بھی ان ہی کے ذمے تھا، وہ بکرے لاتے تو صدر زرداری ان پر ہاتھ پھیرتے، اس کے بعد بکروں کی قربانی کر دی جاتی۔ صدر زرداری کی آمد سے قبل پیر اعجاز ملاقات کے کمرے میں بھی پہنچ جاتے اور وہاں جھاڑ پھونک کیا کرتے۔

زرداری صاحب کے دوست نے بتایا کہ ان صاحب کا تعلق گوجرانوالہ سے ہے اور اسی شہر سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے کسی رکن قومی اسمبلی نے بے نظیر بھٹو سے انھیں متعارف کرایا تھا۔

اس سوال پر کہ پھر یہ صاحب آصف علی زرداری تک کیسے پہنچے، جواب ملا کہ ایک ہی خاندان کے دو افراد، خاص طور پر اگر وہ میاں بیوی ہوں تو کسی کے رسائی حاصل کر لینے میں حیرت کی کوئی ایسی بات نہیں۔ لیکن آصف علی زرداری اور پیر اعجاز کی قربت کی ابتدا ایک دلچسپ واقعے سے ہوئی۔

ایوان صدر کے ایک اعلیٰ اہل کار کو آصف علی زرداری کے ایک ذاتی فوٹو گرافر نے جو پاکستان چھوڑ چکے ہیں، بتایا کہ وہ ایک بار آصف زرداری سے ملنے جیل گئے جہاں زرداری صاحب کے سر پر پانی کا ایک قطرہ گرا۔ جیل میں یہ کیسے ہوگیا، قطرے کے گرنے پر لوگ اس بارے میں خیال آرائی کرنے لگے جبکہ پیر اعجاز نے کہا کہ یہ واقعہ ان کے شاندار مستقبل کا نکتہ آغاز ہے۔

آصف زرداری کے شاندار سیاسی مستقبل کی پیشن گوئی ایک اور شخصیت نے بھی کی تھی۔ یہ بھی اسی زمانے کی بات ہے جب آصف علی زرداری کراچی جیل میں بند تھے۔ جیل میں ایک بینکر فقیر ممتاز علی منگی بھی کسی مقدمے میں قید تھے۔

کراچی کے ایک تاجر ممریز خان بتاتے ہیں کہ لوگ ممتاز علی منگی سے دعاؤں کے لیے رجوع کرتے ہیں۔ ان صاحب نے قید کے دوران خواب دیکھا کہ آصف علی زرداری ایک جھنڈے والی گاڑی میں سوار ہیں اور بے نظیر بھٹو دکھائی نہیں دے رہیں۔ فقیر ممتاز علی منگی کے نزدیک یہ خواب واضح تھا لیکن ان کے لیے فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ اسی جیل میں قید آصف علی زرداری کو اس خواب سے آگاہ کریں یا نہ کریں، ایک دوست کے مشورے کے بعد انھوں نے زرداری صاحب کو اپنے خواب سے آگاہ کیا تو ممریز خان کے بقول وہ ہکا بکا رہ گئے اور کہا کہ ووٹ تو بے نظیر بھٹو کے ہیں یا ان کے والد کے ہیں، میں کہاں سے آگیا؟ فقیر ممتاز منگی نے کہا کہ وہ اس بارے میں کچھ نہیں جانتے، البتہ ان کا خواب واضح ہے۔

آصف علی زرداری کے بارے میں اپنی اس پیش گوئی سے قبل فقیر ممتاز علی منگی ایک اور غیر معمولی سیاسی واقعے کی وجہ سے شہرت حاصل کر چکے تھے۔ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں علی محمد مہر جب سندھ کے وزیر اعلیٰ نہ رہے تو سندھ اسمبلی کے رکن امتیاز شیخ کے وزیر اعلیٰ بننے کا امکان پیدا ہو گیا۔ ارباب غلام رحیم چاہتے تھے کہ اس بار قرعہ فال ان کے نام نکلے۔ فقیر ممتاز علی کی شہرت ان تک پہنچ چکی تھی چنانچہ انھوں نے جیل میں ان سے ملاقات کی، ممریز خان کے مطابق ممتاز منگی نے انھیں مشورہ دیا کہ صدقہ کریں، حلف آپ ہی اٹھائیں گے۔ ان کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔

بعد میں کراچی کے دورے کے موقع پر جنرل پرویز مشرف نے ارباب غلام رحیم سے ایک بار دریافت کیا کہ میں تو آپ کو جانتا بھی نہیں تھا، اس کے باوجود آپ وزیر اعلیٰ بن گئے، میرے لیے یہ حیرت کی بات ہے۔ ارباب غلام رحیم نے اس سوال پر جنرل مشرف کو فقیر ممتاز منگی کے بارے میں بتایا۔ جنرل مشرف نے ان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی جس پر فقیر ممتاز منگی کو جیل سے وزیر اعلیٰ ہاؤس لے جا کر جنرل مشرف سے ملوایا گیا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم نے تصدیق کی کہ فقیر ممتاز علی منگی سے جیل میں ان کی ایک یا دو بار ملاقات ہوئی لیکن بعد میں اُن سے ان کا تعلق قائم نہ رہ سکا جس کی ان کی مطابق کئی وجوہات تھیں۔ ارباب غلام رحیم کے مطابق اس کا ایک سبب یہ تھا کہ فقیر منگی کی شہرت اچھی نہیں تھی اور لوگوں کے الٹے سیدھے کاموں کے لیے ان سے سفارش کیا کرتے تھے۔ دوسری وجہ انھوں نے یہ بتائی کہ آصف علی زرداری نے اس معاملے میں مداخلت کر دی جس کی وجہ سے فقیر ممتاز منگی ان کی طرف متوجہ ہو گئے۔

ارباب غلام رحیم کہتے ہیں کہ اس میں کیا بری بات ہے کہ کوئی انسان بزرگوں سے رابطہ کر کے ان سے راہنمائی حاصل کرے؟ فقیر ممتاز منگی کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کا ذکر بھی کیا اور کہا کہ ہمارے اور ہماری حکومت کے کچھ لوگوں کو اس سلسلے میں نشانہ تنقید بناتے ہوئے آپ نواز شریف پر تنقید کیوں نہیں کرتے جنھوں نے پہلے علامہ طاہر القادری کو اپنی مسجد کا خطیب بنایا اور اس کے بعد ایک نعت خوان کو اس لیے پنجاب میں وزیر بنا دیا کیوں کہ وہ ان کے والد مرحوم کی قبر پر جاکر نعت پڑھا کرتے تھے۔

عمران خان اور بشریٰ بی بی

کہا جاتا ہے کہ یہ وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی ہی تھیں جن کے مشورے پر عمران خان نے قومی اسمبلی کا اجلاس چھوڑ کر پاکپتن میں بابا فرید شکر گنج کے مزار پر حاضری دی تھی۔ ایک بار وہ اسی درگاہ پر حاضر ہوئے تو اس کے تاریخی دروازے پر اس انداز میں تعظیم بجا لائے جس پر سجدے کا گمان ہوتا تھا۔ یہ واقعہ ملک بھر میں بحث کا موضوع بن گیا جس پر انھوں نے وضاحت کی کہ ان کا یہ عمل خالصتاً اس بزرگ کے احترام میں تھا۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بشریٰ بی بی نے ہی پاناما کیس کے آخری مرحلے میں خان صاحب کو کسی پہاڑی مقام پر ڈیرے لگانے کا مشورہ دیا تھا اور وہ نتھیا گلی کے ریسٹ ہاؤس منتقل ہو گئے تھے۔

یہ تاثر عام ہے کہ عمران خان یہ سب بشریٰ بی بی کے مشورے سے کرتے ہیں۔ 2 مارچ 2021 کو لاہور میں داتا دربار پر حاضری کے موقع پر بشریٰ بی بی نے ایک بیان میں اس تاثر کی تصدیق کی تھی اور کہا تھا کہ عمران خان کی ساری کامیابیاں ان ہی کی وجہ سے ہیں۔

عمران خان کا روحانی طاقت پر اعتقاد نیا نہیں۔ اپنی سنہ 2011 میں شائع ہونے والی کتاب ‘پاکستان، اے پرسنل ہسٹری’ میں لکھتے ہیں کہ بہت پہلے ساہیوال کے ایک پیر جی نے کہا تھا کہ نہ صرف میں مشہور ہوں گا بلکہ والدہ کا نام بھی روشن کروں گا۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ جب میں نے کرکٹ سے پہلی بار ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تو لاہور کے نزدیک ایک سرحدی گاؤں میں رہنے والے ایک بزرگ بابا جھلا نے کہا کہ ‘تو ابھی نہیں گیا، تو انشااللہ ابھی گیم میں ہے۔’ کتاب میں ایک اور بزرگ میاں بشیر صاحب کا بھی ذکر ہے ۔اگر وہ نہ ہوتے تو شاید میں لیمب بوتھم ہرجانہ کیس میں کنگال ہو چکا ہوتا۔

پاکستان تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کے مدعی اکبر ایس بابر کی شہرت ان دنوں عمران خان کے ایک بڑے مخالف کی ہے لیکن عمران خان اور وہ ایک زمانے میں یک جان دو قالب تھے، انھیں اگر تحریک انصاف کا شریک بانی کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔

اپنی گفتگو میں انھوں نے ایک واقعہ کا ذکر کیا کہ عمران جب کرکٹ کھیلا کرتے تھے، اس زمانے میں ان کی پنڈلی کا فریکچر ہو گیا جس سے یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ فاسٹ بالر کی حیثیت سے کرکٹ میں ان کا کیرئیر برقرار نہیں رہ سکے گا۔ ان کی زندگی کا یہ ایک نازک مرحلہ تھا جب سیالکوٹ کے ایک بابا ان کی زندگی میں داخل ہوئے۔ اس بزرگ نے انھیں یقین دلایا کہ ان کا کرکٹ کیرئیر نہ صرف برقرار رہے گا بلکہ بہت جلد وہ کرکٹ کے میدان میں غیر معمولی ترقی کریں گے۔

یہ وہی زمانہ ہے جب عمران خان پرستاروں کے ہجوم میں گھرے رہا کرتے تھے، ان کے یہی پرستار تھے جو ان کی ذاتی زندگی میں بھی بعض اوقات دخیل ہو جایا کرتے تھے۔ اسی زمانے میں عمران خان کی کوئی انتہائی قیمتی چیز ان کے بیڈ روم سے غائب ہو گئی۔ یہ گم شدگی عمران کے لیے انتہائی پریشان کن تھی اور وہ چاہتے تھے کہ اس چیز کو چرانے والا کسی نہ کسی طرح ان کے سامنے بے نقاب ہو جائے۔ یہ مسئلہ انھوں نے سیالکوٹ والے بابا کے سامنے رکھا تو وہ خاموشی اختیار کرنے کے بعد مراقبے میں چلے گئے، کچھ دیر کے بعد وہ اس کیفیت سے نکلے تو ان کی زبان پر اس چیز کے چرانے والے کا نام تھا۔ بابا نے جیسے ہی انھیں چور کی شناخت بتائی، عمران کے چہرے پر مسرت کی کرنیں جگمگانے لگیں۔

عمران خان کے ایام جوانی کے بعد ان کی سیاسی زندگی کی ابتدا میں ایسے بہت سے واقعات کا تذکرہ ملتا ہے جن میں وہ بعض روحانی شخصیات سے متاثر پائے گئے، ان میں گوجر خان کے پروفیسر احمد رفیق اختر خاص طور پر قابل ذکر ہیں جو مختلف سیاسی مہمات میں کامیابی کے لیے انھیں وظائف بتایا کرتے تھے۔

عمران خان جمائما خان سے طلاق کے معاملے پر ذہنی تناؤ کا شکار تھے۔ انھیں سب سے زیادہ پریشانی اپنے بیٹوں کے بارے میں تھی کہ وہ اسے قبول کریں گے یا نہیں۔ یہ پروفیسر احمد رفیق اختر ہی تھے جنھوں نے اس پیچیدہ صورت حال میں ان کی راہنمائی کی اور بتایا کہ ان کے بیٹوں کو اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔

2002ء کے عام انتخابات کے موقع پر جب عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ سے اپنی راہیں جدا کیں تو اس وقت تک وہ میانوالی سے قومی اسمبلی کی ایک نشست کے لیے کاغزات نامزد گی جمع کرا چکے تھے۔ اکبر ایس بابر اور حامد خان نے اس مرحلے پر مشورہ دیا کہ وہ انتخابات کا بائیکاٹ کردیں۔ عمران خان نے یہ مشورہ سنا اور راہنمائی کے لیے لاہور کے ایک بزرگ میاں بشیر سے رابطہ کیا جنھیں وہ ایم بی کے نام سے پکارا کرتے تھے۔ میاں بشیر نے اپنے روحانی وجدان کی روشنی میں بتایا کہ انھیں یہ ایک نشست قبول کر لینی چاہیے، عمران خان نے ان کا مشورہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے قبول کر لیا۔

بنی گالا میں چترالی ٹوپی والے ایک بزرگ کی بھی بڑی شہرت رہی ہے۔ عمران خان کے ایک قریبی ساتھی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ پراسرار شخص بنی گالا میں اکثر دیکھے جاتے اور سیاسی معاملات، خاص طور پر عمران خان کے مخالفین کی شخصیت کا تجزیہ کیا کرتے اور بتایا کرتے کہ ان لوگوں سے کن طریقوں سے نمٹا جاسکتا ہے۔

پڑھنے کے لیے وظائف

سیاسی مقاصد اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں روحانی امداد کے حصول کی کچھ مثالیں یہ ہیں جن کا تذکرہ ہوا لیکن اس کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ آصف علی زرداری کے دوست جن کا ذکر اس سے قبل ہو چکا ہے، بے نظیر بھٹو کی شخصیت کے ایک اور پہلو کی بھی نشان دہی کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ بے نظیر بھٹو مختلف درگاہوں پر حاضری اور روحانی شخصیات سے ملاقاتوں کے علاوہ کچھ ایسے نیک لوگوں سے بھی ملا کرتی تھیں جو پیشین گوئیاں کرنے کے بجائے انھیں پڑھنے کے لیے وظائف بتایا کرتے تھے، ایک بار انھوں نے بے نظیر بھٹو سے اس بارے میں سوال بھی کیا جس پر انھوں نے بتایا ‘یہ بزرگ مجھے پڑھنے کے لیے وظائف دیتے ہیں جن سے مجھے سکون ملتا ہے۔‘

سکون یا برکت کے لیے وظائف کے حصول کے لیے بزرگوں سے ملاقات کے لیے بیگم شفیق ضیا الحق بھی راول پنڈی کے قریب حیال کے مقام پر جایا کرتی تھیں۔ ان کے صاحبزادے اعجاز الحق نے مجھے بتایا ‘حیال شریف میں کوئی نیک بزرگ رہا کرتے تھے جو قرآن حکیم سے پڑھنے کے لیے بڑے مؤثر وظائف بتایا کرتے تھے، خود میں بھی ان کے پاس جاتا رہا ہوں، ان کے پاس جانے کا تجربہ بڑا خوش گوار رہا’۔

اعجاز الحق نے مزید بتایا کہ ان کے والد جنرل ضیا الحق بھی علما اور بزرگوں کے عقیدت مند تھے۔ دیوبند کے ایک ممتاز بزرگ اور روحانی پیشوا مولانا اشرف علی تھانوی سے ان کی گہری عقیدت تھی جنھوں نے قائد اعظم اور تحریک پاکستان کی حمایت کی تھی۔ ان کا جامعہ اشرفیہ اور جامعہ مسجد نیلا گنبد سے زندگی بھر بڑا گہرا تعلق رہا، وہاں جا کر وہ اکثر قیام بھی کیا کرتے تھے۔

عاملوں، نجومیوں اور پراسرار قوتیں رکھنے والے لوگوں سے رجوع

سابق صدر آصف علی زرداری احتساب عدالت میں اپنے پیر اعجاز کے ساتھ پیش ہوتے ہیں اور عمران خان نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے کے بجائے درگاہ پاک پتن پر حاضری دی تو انگریزی روزنامہ ‘ڈان’ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے اداریے میں لکھا ’اس طرح کے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ سیاسی قائدین اپنی قسمت اور فیصلہ سازی کے معاملے میں اعتماد کی کمی کا شکار ہیں۔

امریکی اخبار لاس اینجلس ٹائمز نے اس معاملے کو مختلف انداز میں دیکھا تھا۔ اخبار کے نامہ نگار رونی ٹمپیسٹ نے محمد خان جونجیو کے وزیر اعظم کی حیثیت سے پیر صاحب پگارا کے سامنے ننگے پاؤں چلنے اور زمین پر بیٹھنے کے واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک مغربی سفارت کار کے حوالے سے لکھا تھا ‘پاکستان جنوبی ایشیا کا ایک بہت ہی قدامت پسند معاشرہ ہے جس کی جاگیردارانہ روایات میں تبدیلیوں کی رفتار نہ ہونے کے برابر ہے اور اس کی مذہبی (پیر حضرات) اور سیاسی شخصیات بہت زیادہ دولت اور غیر معمولی طاقت کی مالک ہیں۔

اخبار کا خیال تھا کہ پیروں کے سامنے وزیر اعظم جیسا منصب رکھنے والی شخصیات کے سرنگوں ہو جانے کا سبب بھی یہی ہے۔ ‘کیا سبب ہے کہ بعض لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے درست طریقے اختیار کرنے کے بجائے عاملوں، نجومیوں اور پراسرار قوتیں رکھنے والے لوگوں سے رجوع کرتے ہیں؟’۔

یہ سوال میں نے ماہر نفسیات پروفیسر ڈاکٹر طاہر سے کیا جو نفسیاتی امراض کے انتہائی تجربہ کار معالج ہیں اور اس شعبے کے مختلف پہلوؤں پر بین الاقوامی جرنلز میں ان کے درجنوں مقالے شائع ہو چکے ہیں۔

میرے اس سوال کے پس منظر میں اخبارات کے وہ تبصرے بھی تھے جن میں اس قسم کے لوگوں کو خود اعتمادی سے محروم قرار دیا گیا یا اس کی وجوہات پاکستان کے مخصوص سماجی حالات اور تاریخ میں تلاش کی گئیں۔

ڈاکٹر طاہر کہتے ہیں کہ اس کی دو بنیادی وجوہات تو بے علمی اور وسائل سے محرومی ہو سکتی ہیں لیکن بعض اوقات وسائل رکھنے والے اور تعلیم یافتہ لوگ بھی ایسی سرگرمیوں میں دلچسپی لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی ایک سیدھی سی وجہ تو ضعیف الاعتقادی ہے لیکن یہ معاملے کا مذہبی پہلو ہے۔ اس کی نفسیاتی توجیہ مختلف ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’آپ نے دیکھا ہو گا کہ بعض خواتین و حضرات اپنی عمر سے زائد عمر کے لوگوں سے جان بوجھ کر شادی کر لیتے ہیں۔ نفسیات بتاتی ہے کہ ایسے لوگ ماں یا باپ کی سرپرستی، شفقت یا پیار سے محرومی کی کمی اس طریقے سے پوری کرتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی معاملہ عاملوں اور گنڈے تعویز کے حصول کے لیے پیر فقیروں کے پاس جانے کا ہے۔ یہ لوگ ایسے عناصر کے پاس جا کر احساس تحفظ اور سرپرستی محسوس کرتے ہیں۔ آپ نے ایسے لوگوں کے پاس جانے والوں سے اکثر سنا ہوگا کہ فلاں کے پاس جا کر مجھے سکون اور اطمینان محسوس ہوا۔ اس قسم کی باتیں ان کی اسی کیفیت کو ظاہر کرتی ہیں۔‘

ڈاکٹر صاحب یہ کہہ کر ذرا رکے، پھر کہا کہ ایسی علامات کو نفسیات کے علم میں Maladies of the Nafas یعنی شخصیت کے عیوب کہا جاتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے ایک ہی جملے میں دریا کو کوزے میں بند کر دیا تھا.

50% LikesVS
50% Dislikes

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں