115

انتظار قتل کیس میں 2 پولیس اہلکاروں کو سزائے موت،5 کو عمرقیدکی سزا سنادی گئی

انتظار قتل کیس میں 2 پولیس اہلکاروں کو سزائے موت،5 کو عمرقیدکی سزا سنادی گئی

(ڈیلی طالِب)

کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ڈیفنس میں اینٹی کار لفٹنگ سیل (اے سی ایل سی) کے پولیس اہکاروں کی فائرنگ سے جاں بحق نوجوان انتظار احمد کے قتل کیس کا فیصلہ سنادیا۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ڈیفنس میں اے سی ایل سی پولیس اہکاروں کی فائرنگ سے جاں بحق نوجوان انتظار احمد کے قتل کیس میں جرم ثابت ہونے پر دو پولیس اہکاروں کو سزائے موت اور 5 کو عمر قید سنادی۔

عدالت کی جانب سے جن دو ملزمان کو سزائے موت سنائی گئی ہے ان میں بلال اور دانیال شامل ہیں۔

عدالت نے 5 اہلکاروں کو عمر قید کی سزا سنائی ہے اور پانچوں ملزمان پردو، دو لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔ عدالت نے ایک پولیس اہلکار غلام عباس کو عدم شواہد کی بناء پر بری کردیا۔

انتظار قتل کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ 13 جنوری 2018 کو کراچی کے علاقے ڈیفنس خیابان اتحاد میں اینٹی کار لفٹنگ سیل کے اہلکاروں کی فائرنگ سے 19 سالہ نوجوان انتظار احمد جاں بحق ہوگیا تھا، جس کے بعد نوجوان کے والد نے چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف سے انصاف کی اپیل کی تھی۔

مقتول انتظار کے والد کی پریس کانفرنس پر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے واقعے کا نوٹس لیا تھا اور واقعے کا مقدمہ بھی درج کرلیا گیا تھا۔

پولیس نے ابتدائی طور پر بیان دیا تھا کہ اینٹی کار لفٹنگ سیل (اے سی ایل سی) کے اہلکاروں نے گاڑی مشکوک سمجھ کر اسے رکنے کا اشارہ کیا اور نہ رکنے پر فائرنگ کی گئی جس سے نوجوان ہلاک ہوگیا۔

پولیس کی تحقیقات کے مطابق جائے وقوعہ سے گولیوں کے 16 خول ملے تھے جب کہ مقتول کی گاڑی میں ایک لڑکی موجود تھی جو بعد میں رکشے میں چلی گئی، اس لڑکی کی شناخت بعد میں مدیحہ کیانی کے نام سے ہوئی۔

انتظار قتل کیس کی چشم دید گواہ مدیحہ کیانی نے تقریبا تین سال بعد کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت کو اپنے بیان میں بتایا کہ وہ جوس پینے کے بعد انتظار کے ساتھ گاڑی میں جارہی تھی، اسی دوران دو گاڑیوں نے ان کا راستہ روکا، ہم رُکے تو پیچھے سے آواز آئی، یہ وہی گاڑی ہے، اس کے بعد روکنے والوں نے ہمیں جانے کا اشارہ کیا، انتظار نے جیسے ہی گاڑی آگے بڑھائی ، پیچھے سے فائرنگ شروع ہوگئی۔

مدیحہ نے بتایا کہ گولی لگنے سے انتظار موقع پر جاں بحق ہوگیا اور گاڑی روڈ کراس کرکے ایک گٹر سے ٹکرائی اور رُک گئی، میں خوفزدہ تھی اس لیے گاڑی سے اُتر کر رکشہ روکا اور رکشے والے کو بتایا کہ ان لوگوں نے میرے بھائی کو گولی مار دی ہے، میں رُکی تو یہ مجھے بھی شوٹ کردیں گے، اس کے بعد میں وہاں سے چلی گئی۔

مدیحہ نے بیان میں کہ وہ فائرنگ کرنے والوں کو پہچان نہیں سکتی۔ اس نے عدالت کو بتایا کہ واقعے کے بعد اسے ہراساں بھی کیا گیا، کاظم نامی شخص اُس لے گیا، جہاں مدعی کے پہلے وکیل نے مرضی کا بیان دینے کو بھی کہا، لیکن اس نے انکارکر دیا۔

فائرنگ کے واقعے میں ایس ایس پی اینٹی کار لفٹنگ سیل مقدس حیدر کے گن مین براہ راست ملوث تھے جب کہ اس کیس میں 9 پولیس افسران اور اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا تھا، پولیس نے عبوری چالان میں ایس ایس پی مقدس حیدر کو کلین چِٹ دیدی تھی۔

بعدازاں انتظار احمد کی ہلاکت کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنائی گئی، جس میں پولیس، رینجرز، سی ٹی ڈی اور حساس اداروں کے نمائندے شامل تھے، تاہم جے آئی ٹی پر مقتول کے والد نے عدم اعتماد کا اظہار کیا، جس پر 16 فروری کو نئی جی آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں