خاندان کی کفالت کے لیے چاٹ کا سٹال لگانے والی 11 سالہ عروج
(ڈیلی طالِب)
چند روز سے پاکستان میں سوشل میڈیا پر ایک بچی کی تصویر گردش کر رہی تھی جو اپنے گھر کے مالی حالات کو بہتر کرنے کے لیے گھر کے ہی باہر آلو چنا چاٹ بیچ رہی تھی۔
سوشل میڈیا پر یہ تصویر اتنی وائرل ہوئی کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے اس پر ایکشن لیا اور بچی کے خاندان کو تین لاکھ روپے کی مالی امداد پہنچا دی۔
عروج نامی اس 11 سالہ بچی سے ملنے ہم ان کے گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ صوبائی حکومت کے علاوہ بھی اس خاندان کو عوام کی جانب سے مالی امداد مل چکی ہے۔
عروج لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں ایک کرائے کے گھر میں رہتی ہیں اور ان کے والد اور بڑے بھائی انتقال کر چکے ہیں۔ چار بیٹیوں اور ایک سات سالہ بیٹے کا ساتھ تو ہے مگر ان کی والدہ زارا بی بی اس ساری صورت حال میں کچھ بوکھلائی بھی ہوئی ہیں اور ڈری بھی۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے خاندان میں نہ ان کے کوئی بہن بھائی ہیں نہ کوئی اور بڑا جبکہ ان کی بیٹیاں بھی ابھی کم عمر ہی ہیں۔
آن لائن فنڈز
فیس بک پر بنے ایک فلاحی گروپ ’آزاد پاکستان‘ کے منتظمین نے عروج کے لیے فنڈز اکٹھے کیے۔ اس گروپ کے منتظم غالب خلیل نے ڈیلی طالِبسے بات کرتے ہوئے بتایا کہ تقریباً دو لاکھ 20 ہزار فنڈز اب تک جمع ہو چکے ہیں جس میں سے بچی کے خاندان کو ہر مہینے 20 ہزار دیے جائیں گے۔ اس میں سے 15 ہزار بچیوں کی تعلیم کے لیے، پانچ ہزار اضافی خرچوں کے لیے جبکہ ہر ماہ خشک راشن بھی ان کے گھر پہنچ جایا کرے گا۔
غالب نے بتایا کہ اس کے علاوہ انہوں نے ایک لاکھ 40 ہزار کی رقم الگ کر لی ہے جو اس خاندان کو کسی ایمرجنسی کی صورت میں 20 منٹ کے اندر اندر مہیا کر دی جائے گی۔
عروج کے ہمسائے فہیم اس وقت ان کی والدہ زارا بی بی کی دفتری کاموں میں مدد کر رہے ہیں۔ فہیم نے بتایا کہ وہ آزاد پاکستان گروپ کے ساتھ مل کر اس خاندان کی مددکر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جو فنڈز اکٹھے ہوئے تھے ان میں سے کچھ رقم کی ترپال اور نئی ریڑھی خرید کر اس خاندان کو دے دی گئی ہے جبک وہ خود زارا بی بی کے ساتھ حکومتی دفاتر میں امداد کی رقم وصول کرنے بھی گئے اور ساتھ ہی ساتھ وہ انہیں بیت المال بھی لے گئے، جہاں تحریری دستاویزات جمع کروادیے گئے ہیں۔
عروج نئی ریڑھی پر شام چار بجے سے رات 11 بجے تک آلو چنا چاٹ بیچتی ہیں، جبکہ ان کی والدہ اور چھوٹا بھائی ان کی اس کام میں مدد کرتے ہیں۔ عروج کسی بھی طرح غیر محفوظ نہ ہوں اس لیے ان کی والدہ گھر کا دروازہ کھلا رکھتی ہیں اور اندر سے عروج کو دیکھتی رہتی ہیں۔
اس ساری صورت حال کے حوالے سے عروج نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی عمر بے شک کم ہے لیکن ان کے حالات ایسے تھے کہ انہیں گھر کا بیٹا بننا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ انہیں محنت کر کے خوشی ہوتی ہے اور کرتی رہیں گی۔
انہوں نے امید ظاہر کی جلد ان کا کام اچھاچل پڑے گا اور وہ اپنی پڑھائی کو جاری رکھیں گی اور ایک دن ڈاکٹر بنیں گی۔
- About the Author
- Latest Posts
Ghufran Karamat is a Senior Columunts who work With Daily talib