83

قدوس بزنجو جنہیں سب کچھ داؤ پر لگا کر جیتنے کا ہنر آتا ہے

قدوس بزنجو جنہیں سب کچھ داؤ پر لگا کر جیتنے کا ہنر آتا ہے

(ڈیلی طالِب)

قدوس بزنجو کو اس وقت ایوان کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔ اپوزیشن جماعتیں بھی ان کے ساتھ ہیں، جن کا عزم ہے کہ وہ ایک مختلف حکومت بنا کر یہاں کے عوام کی خوشحالی کے لیے کام کریں گے۔

دسمبر 2017 میں بلوچستان کے سیاسی لوگوں کی بیٹھک ہوئی، جس میں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی قرارداد کون جمع کرائے گا۔

سب ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ اس دوران اس وقت کےڈپٹی سپیکر عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ میں پہل کرتا ہوں۔ آپ لوگ میری پیروی کریں۔

تحریک کے لیے مضمون جب لکھ کر تیار ہو گیا تو سب سے پہلے دستخط کرنے والے یہی رکن اسمبلی تھے۔ قرارداد مسلم لیگ ن کے وزیراعلیٰ نواب ثنا اللہ زہری کے وقت سے پہلے استعفے کی صورت میں کامیابی سے ہمکنار ہو گئی۔

انہوں نے اپنے عہدے کو داؤ پر لگا کر یہ قدم اٹھایا تھا۔ ناقدین کے مطابق بزنجو کو سب کچھ داؤ پر لگا کر جیتنے کا ہنر آتا ہے۔

بلوچستان میں سیاسی بحران اکثر و بیشتر جاری رہتا ہے۔ جن میں اکثر دیکھنے میں آیا کہ اس کا نشانہ منتخب وزیر اعلیٰ ہی بنتا ہے۔

اس بار بھی ایسا ہی ہوا اور جام کمال خان نرغے میں آگئے اور انہی کی جماعت کی طرف سے جمع کرائی جانے والی تحریک عدم اعتماد کی قرار داد پر رائے شماری سے ایک روز قبل انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔

اس بحران میں جو شخص شروع دن سے خبروں اور متحرک رہا ہے، وہ سپیکرعبدالقدوس بزنجو تھے، جنہوں نے اس تمام عرصے کے دوران ناراض اراکین کو متحرک رکھا۔

انہوں نے ہی سب سے پہلے جام کمال سے اختلاف کرتے ہوئے اس کا برملا اظہار کیا تھا۔

سیاسی پس منظر

قدوس بزنجو ایک عام گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن ان کے والد میر عبدالمجید بزنجو بھی رکن اسمبلی اور ڈپٹی سپیکر بلوچستان اسمبلی رہ چکے ہیں۔

گوہر اسد عمرانی کا تعلق بھی بلوچستان کے سب سے کم ترقی یافتہ ضلع آواران سے ہے۔ جو قدوس بزنجو کو بچپن اور جوانی کے دور سے جانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں شروع سے ہی سیاست کرنے کا جنون رہا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ دوسرے لوگ اپنے مستقبل اور پڑھائی لکھائی پر بات کرتے تھے لیکن ’قدوس کہتا تھا کہ اس نے وزیر بننا ہے۔ اس وقت شاید کسی کو معلوم نہیں تھا کہ ہمارا یہ دوست صوبے کے سب سے اعلیٰ عہدے پر فائز ہو گا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’میں انہیں بچپن سے جانتا ہوں، یکم جنوری 1974 کو پیدا ہونے والے قدوس بزنجو کا آبائی علاقہ ضلع آواران کی تحصیل جھاؤ کے گاؤں شندی ہے۔ میں ستگان کا رہنے والا ہوں جو اس کا پڑوسی علاقہ ہے۔‘

گوہر اسد عمرانی نے بتایا کہ قدوس بزنجو کے ساتھ زیادہ قربت اس وقت رہی جب میں اور وہ اسلام آباد میں نمل یونیورسٹی میں اکٹھے پڑھتے تھے، یہ 1999 کا دور تھا۔

یاد رہے کہ ضلع آواران بلوچستان کا سب سے کم ترقی یافتہ علاقہ ہے۔ دوسری جانب یہ ضلع شورش سے بھی متاثر رہا ہے۔ جہاں مسلح مزاحمت کار سرگرم ہیں۔

گوہر اسد عمرانی نے بتایا کہ گہرے اور سفید رنگ پسند کرنے والے قدوس بزنجو زندگی میں ہمیشہ مشکل فیصلے کرتے رہے ہیں۔ وہ کبھی بھی سوچ کے قدم نہیں اٹھاتے بلکہ انہیں نتائج کی پرواہ نہیں ہوتی۔

’قدوس نے کھبی ہار کے بارے میں نہیں سوچا بلکہ وہ ’بگ رسک بگ پرافٹ‘ کے فارمولے پر عمل پیرا رہتے ہیں۔ اگر ہم اس کی سیاسی زندگی دیکھیں تو وہ ہر دور میں یہی کرتا رہا ہے۔‘

’ان کی زندگی میں شاید یہی وجہ ہے کہ قسمت کا عمل دخل زیادہ ہے اور انہوں نے ہر وقت کامیابی ہی حاصل کی۔ میں سمجھتا ہوں کہ قدوس کا قسمت نے ساتھ دیا، جو وہ دوسری بار وزیراعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں۔ جو کم ہی لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔‘

2002 سے سیاست کے میدان میں سرگرم قدوس بزنجو کو موقع اس وقت ملا جب سابق صدر پرویز مشرف نے گریجویٹ اسمبلی بنانے کا اعلان کیا تھا، جس پر ان کے والد مجید بزنجو نے انہیں انتخابات میں حصہ لینے کا کہا تھا۔

گوہر اسد عمرانی کہتے ہیں ’جب ہم لوگ تعلیم حاصل کر رہے تھے تو قدوس ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ اسے بڑا آدمی یعنی وزیر بننا ہے۔ اس نے تہیہ کر لیا تھا کہ وہ یہ مقصد کسی بھی صورت حاصل کرکے رہے گا۔‘

انہوں نے کہا کہ اگر ہم ان کا ماضی دیکھیں تو یہی وہ جذبہ تھا جس نے انہیں ایک کامیاب سیاستدان بنایا۔

بلوچستان میں سیاست عمومی طور پر موروثی ہوتی ہے۔ جیسے نواب کے بعد اس کا بیٹا اور سردار کے بعد اس کے بیٹے سیاست کا حصہ بنتے ہیں۔ آج بھی صوبے کے اکثر سیاستدان اپنے قبائلی اثرورسوخ کے باعث اسمبلیوں کے رکن بنتے آ رہے ہیں۔

قدوس بزنجو کے حوالے سے صورتحال مختلف ہے، وہ کسی سردار نواب یا جاگیر دار کے بیٹے نہیں بلکہ ایک عام آدمی کے فرزند ہیں۔ ان کی فطرت میں غرور نہیں جس کا اعتراف گوہر کےعلاوہ ان کے دوسرے دوست بھی کرتے ہیں۔

انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس سے پہلے بھی 13 جنوری، 2018 سے سات جون 2018 تک بلوچستان کے 16 ویں وزیراعلیٰ کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔

قدوس بزنجو کا تعلق بلوچوں کے قبیلے بزنجو سے ہے۔ اس قبیلے کی مشہور شخصیت اور سیاستدان میرغوث بخش بزنجو بھی تھے۔ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بلوچستان میں سیاست کی بنیاد رکھی اور تمام نوابوں اور سرداروں کو سیاست کی طرف لائے۔

گوہر اسد عمرانی کہتے ہیں کہ قدوس بزنجو جسمانی صحت کے لیے بیڈ منٹن، ٹیبل ٹینس کے علاوہ کبھی کبھی کرکٹ بھی کھیلتے ہیں اور اردو، انگریزی اور بلوچی زبان میں روانی سے بات کرسکتے ہیں۔

عبدالقدوس بزنجو کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر بننے کے علاوہ صوبائی وزیر بھی رہے ہیں۔ انہوں نے 2013 کے عام انتخابات میں سب سے کم ووٹ 544 لے کر بھی کامیابی حاصل کی تھی۔

گوہر اسد کے مطابق ان کی سیاست میں ان کا والد مجید بزنجو کا ہاتھ رہا ہے اور والد نے جاتے ہوئے ایک جمی ہوئی سیاست اس کے سپرد کی اور قدوس نے اسی راستے کو اپنا کر سیاست کو مضبوط اور کامیابی کے راستے پر گامزن کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔

بلوچستان میں یہ تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے والوں میں سردار اختر مینگل، نواب ثنااللہ زہری، جام کمال خان شامل ہیں۔ ان تینوں نے رائے شماری سے قبل استعفی دے کر عہدہ چھوڑ دیا تھا۔

بلوچستان کی سیاسی تاریخ میں صرف جام محمد یوسف جو جام کمال خان کے والد ہیں، اپنی وزارت اعلیٰ کی مدت پوری کی۔ جو یکم دسمبر 2002 سے 19 نومبر، 2007 تک رہی۔

قدوس بزنجو جمعے کو ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر کے وزیر اعلیٰ بن چکے ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں بھی ان کے ساتھ ہیں، جن کا عزم ہے کہ وہ ایک مختلف حکومت بنا کر یہاں کے عوام کی خوشحالی کے لیے کام کریں گے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں