آرین خان منشیات کیس سے شہ سرخیوں میں آنے والے نواب ملک کون ہیں جنھیں کباڑ والا کہا جاتا ہے؟
(ڈیلی طالِب)
یہ انڈیا میں سنہ 1984 کے لوک سبھا یعنی پارلیمانی انتخابات کی بات ہے۔ شمال مشرقی ممبئی کی پارلیمانی سیٹ سے ایک جانب کانگریس کی طرف سے گروداس کامت تھے تو دوسری طرف بی جے پی کے پرمود مہاجن تھے۔
اس الیکشن میں گروداس کامت کو دو لاکھ 73 ہزار سے زیادہ ووٹ ملے اور انھوں نے پرمود مہاجن کو تقریباً 95 ہزار ووٹوں سے شکست دی۔
اسی الیکشن میں ایک 25 سالہ نوجوان بھی انتخابی میدان میں قسمت آزما رہا تھا۔ تمام تر کوششوں کے باوجود وہ صرف 2620 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
لیکن گذشتہ ایک ماہ سے وہی شکست خوردہ امیدوار مہاراشٹر کی سیاست پر چھایا ہوا ہے۔ اس امیدوار کا نام نواب ملک ہے۔
شیوسینا کے رہنما اور مہاراشٹر کے وزیر اعلی ادھو ٹھاکرے کی حکومت میں نواب ملک کے پاس اقلیتی امور، کاروباری اداروں اور ہنر کی ترقی کے قلمدان ہیں۔ وہ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے چیف قومی ترجمان بھی ہیں اور پارٹی کے ممبئی سٹی کے صدر بھی ہیں۔
نیشنلسٹ کانگریس بھی ادھو ٹھاکرے کی حکومت میں شریک ایک فریق ہے۔
بالی وڈ اداکار شاہ رخ خان کے بیٹے آرین خان کی منشیات کیس میں گرفتاری کے بعد سے نواب ملک کافی متحرک ہیں۔
وہ مسلسل نارکوٹکس کنٹرول بیورو (این سی بی) ممبئی کے ڈویژنل ڈائریکٹر سمیر وانکھیڑے اور ان کے خاندان پر الزام لگاتے رہے ہیں۔
آرین خان کو اکتوبر کے اوائل میں گرفتار کیا گیا تھا اور 26 دن کے بعد 28 اکتوبر کو ضمانت ملی تھی۔ اس دوران یہ سارا معاملہ کئی ڈرامائی مراحل سے گزرا۔
اس میں نواب ملک نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ انھوں نے سمیر وانکھیڑے کی پیدائش سے لے کر شادی اور خاندان کے متعلق کئی الزامات لگائے جس کی وجہ سے سمیر وانکھیڑے بھی تحقیقات کی زد میں آ گئے ہیں۔
آرین خان کی رہائی کے بعد ملک کی ٹوئٹ ‘پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست’ نے سب کی توجہ حاصل کرلی۔ اور اس کے بعد یکم نومبر کو انھوں نے مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ دیویندر فڑنویس کی بیوی کی جے دیپ رانا کے ساتھ تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا، ‘چلو آج بی جے پی اور منشیات فروشوں کے درمیان تعلقات پر بات کرتے ہیں۔’
جے دیپ رانا ان دنوں منشیات کی سمگلنگ کے جرم میں جیل میں ہیں۔ تاہم، اس کے جواب میں دیویندر فڑنویس نے ملک پر انڈرورلڈ کے ساتھ تعلقات کا الزام لگایا ہے اور کہا ہے کہ وہ دیوالی کے بعد بم پھوڑیں گے۔
بہر حال ایک ماہ سے نواب ملک سوشل میڈیا اور میڈیا پر اپنے بیانات کی وجہ سے مسلسل شہ سرخیوں میں ہیں۔
نواب ملک کا تعلق در اصل ریاست اتر پردیش سے ہے
نواب ملک کے خاندان کا تعلق اتر پردیش کے ضلع بلرام پور سے ہے۔ ان کے خاندان کی اچھی کاشتکاری اور کاروبار تھا، خاندان مالی طور پر خوشحال رہا ہے۔
نواب ملک کی پیدائش سے قبل ان کے والد محمد اسلام ملک ممبئی جا بسے تھے۔ لیکن خاندان پہلے بچے کی پیدائش کے لیے واپس اتر پردیش پہنچ گیا۔ نواب 20 جون 1959 کو اتر پردیش کے بلرام پور کے اترولا تعلقہ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔
کچھ عرصے بعد ملک فیملی دوبارہ ممبئی واپس آگئی۔ ملک خاندان کے ممبئی میں چھوٹے بڑے کاروبار تھے۔ ان کا ایک ہوٹل تھا۔ اس کے علاوہ کباڑ کے کاروبار کے ساتھ کچھ اور چھوٹے موٹے کاروبار تھے۔
بی جے پی کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے ملک نے کہا: ‘ہاں، میں ایک کباڑی والا (سکریپ ڈیلر) ہوں، میرے والد ممبئی میں کپڑے اور کباڑ کا کاروبار کرتے تھے۔ میں نے ایم ایل اے بننے تک کباڑ کا کاروبار بھی کیا۔ میرا خاندان اب بھی کرتا ہے۔ مجھے اس پر فخر ہے۔’
بی جے پی پر تنقید
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہاں، میں کباڑ ی والا ہوں، لیکن یہ لوگ نہیں جانتے کہ کباڑ والوں کا کام کیا ہے، جو چیز کارآمد نہیں ہوتی اسے اٹھا لیتے ہیں۔ ایک ایک کرکے اٹھا لیتے ہیں۔ الگ کرنے اور چھانٹنے کے بعد۔ ہم ان میں سے استعمال کی چیز نکال لیتے ہیں۔’
سنہ 1980 میں 21 سال کی عمر میں نواب نے مہ جبین نامی لڑکی سے شادی کی۔ ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔
مخالفت کی وجہ سے انگلش سکول چھوڑ دیا
ہمانشی پروڈکشن کو دیے گئے ایک انٹرویو میں نواب ملک نے اپنی زندگی کے بارے میں بہت سی باتیں بتائیں۔
ابتدائی تعلیم کے لیے نواب کو سینٹ جوزف انگلش سکول میں داخل کرایا گیا۔ لیکن والد محمد اسلام کے رشتہ داروں اور دوستوں کی مخالفت کی وجہ سے وہ انگلش سکول نہیں گئے۔
بعد میں نواب کو این ایم سی کے نورباغ اردو سکول میں داخل کرایا گیا۔ یہاں سے چوتھی جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد انھوں نے ڈونگری کے جی آر نمبر 2 سکول میں ساتویں کلاس تک اور پھر انجمن اسلام سکول سے 11ویں (اس وقت میٹرک) تک تعلیم حاصل کی۔
میٹرک کے بعد انھوں نے برہانی کالج سے بارہویں کی ڈگری حاصل کی۔ اسی کالج میں بی اے میں داخلہ بھی لیا۔ لیکن خاندانی وجوہات کی وجہ سے انھوں نے بی اے فائنل ایئر کا امتحان نہیں دیا۔
طلبہ تحریک سے سیاست میں دلچسپی
جب نواب ملک کالج میں تھے تو ممبئی یونیورسٹی نے کالج کی فیسیں بڑھا دیں۔ اس کے خلاف تحریک چلی۔ نواب ملک نے اس تحریک میں ایک عام طالب علم کی طرح حصہ لیا۔
احتجاج کے دوران پولیس کی پٹائی سے نواب زخمی ہو گئے۔ اگلے دن طلباء نے پولیس کمشنر ہیڈ کوارٹر تک مارچ بھی کیا۔ نواب ملک کا کہنا ہے کہ اس دوران انھیں سیاست میں دلچسپی پیدا ہوئی۔
انھوں نے بتایا ہے کہ سنہ 1977 میں مرکز میں جنتا پارٹی کی حکومت آئی، بعد میں اس حکومت کے خلاف نوجوانوں میں احتجاج کا ماحول پیدا ہوا۔ چنانچہ میں نے وقتاً فوقتاً کانگریس کی طرف سے منعقد ہونے والے چھوٹے بڑے اجلاسوں میں حصہ لینا شروع کیا۔’
1984 لوک سبھا انتخابات
1981 میں جب سنجے گاندھی کی اچانک موت ہو گئی تو ان کی اہلیہ مینکا گاندھی نے سنجے وچار منچ کے نام سے ایک الگ گروپ بنایا۔ نواب اس وقت سنجے وچار منچ میں شامل ہو گئے۔
1984 کے لوک سبھا انتخابات میں نواب ملک نے سنجے وچار منچ سے انتخابات میں شرکت کی۔ لیکن ان کی سیاسی جماعت کی حیثیت نہیں تھی اس لیے انھیں آزاد امیدوار تصور کیا گیا۔
ملک کی عمر اس وقت صرف 25 سال تھی اور انھوں نے اس الیکشن میں صرف 2620 ووٹ حاصل کیے تھے۔
نواب ملک نے اس انتخابی تجربے کے بارے میں بتایا: ‘مجھے بہت کم ووٹ ملے، میں نے انتخاب لڑنے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ میں اس وقت سیاسی طور پر ناپختہ تھا، لیکن میں سمجھ گیا کہ اگر میں سیاست میں کام کرنا چاہتا ہوں تو کانگریس پارٹی کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔’
بعد میں نواب ملک دوبارہ کانگریس کے لیے کام کرنے لگے۔ انھوں نے سنہ 1991 میں بلدیاتی انتخابات کے لیے کانگریس سے ٹکٹ مانگا۔ لیکن کانگریس نے انھیں ٹکٹ نہیں دیا۔
لیکن نواب ملک اپنی سیاسی جگہ بنانے میں مصروف رہے۔ دسمبر 1992 میں بابری مسجد کے واقعہ کے بعد ممبئی میں فسادات پھوٹ پڑے۔ اس کے بعد ہر طرف کشیدہ ماحول تھا۔ اس وقت نواب ملک کو ایک اخبار نکالنے کا خیال آیا۔
شیو سینا کا سامنا اخبار کچھ سال پہلے شروع ہوا تھا اور ممبئی میں مقبول ہوا۔ اسی سے ترغیب پا کر ملک اور ان کے ساتھیوں نے ایک اخبار نکالنے کا فیصلہ کیا۔
اس کے بعد ملک نے نیرج کمار کے ساتھ ممبئی میں ‘سانجھ سماچار’ کے نام سے ایک اخبار شروع کیا۔ لیکن چند سالوں کے بعد مالی مجبوریوں کی وجہ سے اسے بند کر دیا گیا۔
سماج وادی پارٹی، ضمنی انتخاب اور اسمبلی کی لاٹری
ممبئی اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں بابری مسجد واقعہ کے بعد سماج وادی پارٹی مسلم ووٹروں میں مقبولیت حاصل کر رہی تھی۔ اس لہر میں نواب ملک بھی سماج وادی پارٹی میں شامل ہو گئے۔
سنہ 1995 کے اسمبلی انتخابات میں انھیں مسلم اکثریتی حلقہ نہرو نگر سے پارٹی کا ٹکٹ ملا۔
اس وقت شیو سینا کے سوریہ کانت مہادک نے 51 ہزار 569 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی تھی۔ نواب ملک 37511 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔
ملک کو شکست ہوئی، لیکن اگلے ہی سال اسمبلی میں پہنچ گئے۔ مذہب کی بنیاد پر ووٹ مانگنے پر ایم ایل اے مہادک کے خلاف دائر درخواست پر انھیں قصوروار پایا گیا اور الیکشن کمیشن نے الیکشن کو منسوخ کردیا۔ اس لیے سنہ 1996 میں نہرو نگر حلقہ میں دوبارہ انتخابات کرائے گئے۔
اس بار نواب ملک تقریباً ساڑھے چھ ہزار ووٹوں سے جیت گئے۔
‘این سی پی کا مسلم چہرہ’
نواب ملک پھر 1999 کے اسمبلی انتخابات میں سماج وادی پارٹی سے جیت گئے۔ اس کے بعد کانگریس اور این سی پی کی حکومت قائم ہوئی۔ سماج وادی پارٹی سے دو ایم ایل اے منتخب ہوئے۔ اسے بھی محاذ کی حمایت کے لیے اقتدار میں حصہ ملا۔
نواب ملک وزیر مملکت برائے ہاؤسنگ بن گئے۔ سیاسی طور پر وہ بہت اچھا کام کر رہے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سماج وادی پارٹی کے لیڈروں کے ساتھ ملک کے اختلافات کھل کر سامنے آئے۔ اس سے تنگ آکر ملک نے وزیر ہونے کے باوجود این سی پی میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔
پارٹی چھوڑنے کے اپنے فیصلے کے بارے میں انھوں نے کہا: ‘اس وقت ممبئی میں سماج وادی پارٹی کے لیڈر مذہبی خطوط پر سیاست کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ سماج وادی پارٹی ایسے کام کر رہی تھی جیسے وہ مسلم لیگ ہو۔’
سمیر وانکھیڑے کی مخالفت کی وجہ کہیں داماد کی گرفتاری تو نہیں؟
آرین خان منشیات کیس سامنے آنے کے بعد نواب ملک نے شدید مخالفت کی۔ تاہم، بھارتیہ جنتا پارٹی نے این سی بی اور سمیر وانکھیڑے پر الزام لگانے کے لیے نواب ملک کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
این سی بی کو نو جنوری سنہ 2021 کو کسی مشکوک سرگرمی کے لیے الرٹ کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سمیر وانکھیڑے نے ممبئی کے باندرہ علاقے سے بھنگ پکڑنے کا دعویٰ کیا۔
بتایا گیا کہ ملزم کرن سجلانی کے گھر کے باہر سے درآمد کی گئی بھنگ ضبط کر لی گئی ہے۔ اس معاملے میں چار لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور پہلی بار نواب ملک کے داماد سمیر خان کا نام سامنے آیا۔
سمیر خان نواب ملک کی بڑی بیٹی نیلوفر کے شوہر ہیں۔ این سی بی نے سمیر خان کو جنوری میں این ڈی پی ایس ایکٹ کی دفعہ 27 (اے) کے تحت منشیات کی اسمگلنگ اور منی لانڈرنگ کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
سمیر خان کو سیشن کورٹ نے 14 اکتوبر کو اس کیس میں ضمانت دی تھی۔ عدالت نے سمیر خان کی منشیات فروشی اور منشیات کے لیے رقم فراہم کرنے کے الزام میں ضمانت منظور کر لی۔
عدالت کے حکم کے بعد، نواب ملک نے الزام لگایا کہ ‘این سی بی لوگوں کو بدنام کرنے کے لیے جھوٹے جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات لگانے کا کام کر رہا ہے۔ این سی بی نے کہا کہ 200 کلو گرام گانجا ملا تھا، لیکن رپورٹ سے پتہ چلا کہ یہ ہربل تمباکو تھا۔’ نواب ملک کے الزامات پر نارکوٹکس کنٹرول بیورو کی طرف سے ابھی تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
- About the Author
- Latest Posts
Ghufran Karamat is a Senior Columunts who work With Daily talib