52

تارک سنہا: انڈین کرکٹ ٹیم کو ایک درجن بین الاقوامی کھلاڑی دینے والے کوچ نہیں رہے

تارک سنہا: انڈین کرکٹ ٹیم کو ایک درجن بین الاقوامی کھلاڑی دینے والے کوچ نہیں رہے

(ڈیلی طالِب)

انڈیا کے کرکٹ مبصر اور سابق کرکٹر آکاش چوپڑا کہتے ہیں کہ ’میں نے نو سال کی عمر میں اُن سے ٹریننگ لینی شروع کی اور اس وقت کلب کی فیس صرف 50 روپے ہوا کرتی تھی۔ وہ ان کھلاڑیوں سے فیس نہیں لیتے تھے جو مالی طور پر کمزور ہوتے تھے۔ وہ مفت میں سکھاتے تھے۔‘

خواتین کرکٹ ٹیم کی سابق کپتان انجم چوپڑا نے کہا کہ ’دسمبر 2001 میں جب وہ خواتین کرکٹ ٹیم کے کوچ تھے، میں کپتان بنی اور ہماری ٹیم نے پہلی بار انگلینڈ کو ون ڈے میں 5-0 سے ہرایا۔‘

یہ بیانات اس شخص کے بارے میں ہیں جنھوں نے انڈیا کو 12 بین الاقوامی کرکٹر دیے۔ اُن میں رشبھ پنت اور شکھر دھون آج بھی ٹیم انڈیا کے لیے کھیل رہے ہیں۔

دلی کی ڈومیسٹک کرکٹ کے لیجنڈری کوچ تارک سنہا پانچ نومبر کو پھیپھڑوں کے کینسر کے باعث وفات پا گئے ہیں۔

انھوں نے سنہ 1969 میں دہلی میں اپنی کلرک کی ملازمت سے جمع کی گئی رقم سے سونیٹ کلب کی بنیاد رکھی تھی۔ اسی کلب سے رمن لامبا سے لے کر رشبھ پنت جیسے کھلاڑی نکلے جنھوں نے بین الاقوامی کرکٹ میں اپنی جگہ بنائی۔

جب ہم دہلی یونیورسٹی میں واقع ان کے سونیٹ کلب پہنچے تو معلوم ہوا کہ معروف کرکٹر وریندر سہواگ اور ان کے اہلخانہ، رشبھ پنت کے اہلخانہ، آشیش نہرا کے اہلِ خانہ، سابق کرکٹر اتل واسن اور آکاش چوپڑا کا خاندان ان کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے وہاں موجود ہیں۔

پورا کرکٹ گراؤنڈ موجودہ نوجوان کھلاڑیوں، سابق کوچز، کرکٹرز اور ان کے اہلخانہ سے بھرا ہوا تھا۔ یہ منظر لوگوں اور کھلاڑیوں کے دلوں میں ان کے لیے احترام کی علامت تھا۔

انھیں یاد کرتے ہوئے سابق کرکٹر سنجیو شرما نے بتایا کہ ’رمن لامبا نے ان سے پوچھا کہ آپ آشیش نہرا پر کیوں محنت کر رہے ہیں؟ اس میں وہ بات نہیں ہے تو استاد جی کہنے لگے، نہیں، یہ کھلاڑی بہت آگے جائے گا۔‘

دوسری جانب اتل واسن نے کہا ’میں چار سال تک ڈی ڈی سی اے (دہلی اور ڈسٹرکٹ کرکٹ ایسوسی ایشن) کا سلیکٹر رہا لیکن کبھی استاد جی نے مجھے فون کر کے کسی کی سفارش نہیں کی۔‘

سپورٹس جرنلسٹ اندرنیل باسو کا کہنا ہے کہ تارک سنہا کو سنہ 2018 میں ڈروناچاریہ ایوارڈ سے نوازا گیا تھا، لیکن وہ اپنی اصل کامیابی صرف کھلاڑیوں کو کرکٹ کی باریک چالیں سکھانے اور آگے بڑھانے میں سمجھتے تھے۔

ان کے مطابق انھیں پہچان اور انعامات کی کوئی بھوک نہیں تھی۔ اس کی وضاحت اس بات سے ہوتی ہے کہ بہت سے تجربہ کار کھلاڑیوں نے ان کی مرضی کے خلاف ڈروناچاریہ ایوارڈ کے لیے نامزدگی حاصل کی تھی۔

جونیئر ٹیم میں سلیکشن نہ ہوا تو اکیڈمی کھول دی

تارک سنہا دہلی کے کملا نگر میں گورنمنٹ سکول (برلا سکول) کے وکٹ کیپر بلے باز تھے۔ انھیں سی کے نائیڈو ٹرافی کے لیے دہلی کی جونیئر ٹیم میں جگہ ملنے کی امید تھی لیکن انھیں منتخب نہیں کیا گیا۔

اس سے جو صدمہ پہنچا اس کے بعد انھوں کرکٹ اکیڈمی کھولنے کا ارادہ کیا تاکہ سرکاری سکولوں کے نوجوان کھلاڑیوں کو اچھی سطح پر تربیت دی جائے۔ سنہ 1969 میں انھوں نے سونیٹ کلب بنایا جس کا آغاز گورنمنٹ برلا سکول سے کیا۔

بعد میں تارک سنہا کو دہلی یونیورسٹی کے پی جی ڈی اے وی کالج میں کلرک کی نوکری مل گئی اور وہاں سے ملنے والی تنخواہ کو وہ اپنے کلب کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کرنے لگے۔

جب یہ کلب 20 بچوں کے ساتھ شروع ہوا تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ کلب آگے بڑھ کر دہلی کے باوقار نیشنل انسٹیٹیوٹ آف سپورٹس سے مقابلہ کرے گا اور دہلی کا فلیگ شپ ایونٹ جیت جائے گا۔

ڈی ڈی سی اے نے سنہ 1971 میں اس کلب کو منظوری دی۔ یہی نہیں اس کرکٹ کلب کو کم پیسوں اور سہولیات کی وجہ سے کئی بار جگہ بدلنی پڑی۔ پہلے یہ برلا سکول میں تھا، پھر اجمل خان پارک اس کا نیا گھر بن گیا۔ اس کے بعد ڈی سی ایم گراؤنڈ، پھر ڈی یو کا راجدھانی کالج اور فی الحال یہ وینکٹیشور کالج گراؤنڈ میں واقع ہے۔

برے وقت میں کھلاڑیوں کا ساتھ دیتے تھے

اتل واسن کا کہنا ہے کہ وہ 14 سال کی عمر میں سونیٹ کلب گئے تھے۔ اور وہاں تارک سنہا سے انھوں نے سخت محنت کرنے اور برے وقت میں بھی ہمت رکھنے کا فن سیکھا۔

انھیں یاد ہے کہ سونیٹ کلب میں کوئی امیر یا غریب نہیں تھا۔ سب کو ایک لیول پر رکھا جاتا تھا۔ تمام بچوں کو وکٹ لگانے سے لے کر خود ہی پچ پر رولر چلانا سکھایا گیا۔ اس کے بعد ہی کسی کی کوچنگ شروع ہوئی۔

انھوں نے ایک بار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان دنوں ان کی کارکردگی اچھی نہیں تھی۔ اس وقت انھوں نے کرکٹ چھوڑنے کا ارادہ کر لیا تھا۔ جب ’استاد جی‘ (تارک سنہا کو سبھی پیار سے استاد جی کے نام سے پکارتے ہیں) کو معلوم ہوا تو وہ سیدھے اتل واسن کے گھر گئے۔ وہاں جا کر انھیں اور ان کے والد کو خوب سمجھایا۔

اتل واسن کہتے ہیں: ’کون کوچ اتنی توجہ دیتا ہے؟ جب کوئی کھلاڑی اچھی کارکردگی نہیں دکھا پاتا تو وہ ان کا ہاتھ پکڑ لیتے تھے۔ یہ انھی کی وجہ سے ہے کہ آپ مجھے انڈین ٹیم میں کھیلتے ہوئے دیکھ سکے، کیونکہ انھوں نے مجھے سہارا دیے رکھا۔‘

ان کے علاوہ دوسرے کرکٹر آکاش چوپڑا نے بتایا کہ نو سال کی عمر میں انھوں نے کلب میں کھیلنا شروع کیا۔ آکاش چوپڑا کہتے ہیں: ’ان کی سب سے بڑی صلاحیت چھوٹی عمر میں ٹیلنٹ کو پہچاننا تھا۔ یہاں تک کہ وہ اندازہ لگا لیتے تھے کہ کوئی کھلاڑی کتنی دور جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ غریب بچوں کو مفت تربیت بھی دیتے تھے۔‘

جب آشیش نہرا نے استاد جی کے لیے گھر خریدا

تارک سنہا کے کلب میں کرکٹ سیکھنے والے سابق ٹیسٹ کرکٹر سنجیو شرما ایک واقعہ سناتے ہیں: ’جب آشیش نہرا اپنی پہچان بنا چکے تو وہ ایک دن سونیٹ کلب میں استاد جی کا انتظار کر رہے تھے۔ استاد جی بہت دیر سے آئے تو آشیش نے پوچھا آپ جلدی کیوں نہیں آتے؟‘

اس پر تارک سنہا نے جواب دیا کہ ’میرا گھر غازی آباد میں ہے، اب اگر میں اتنی دور سے آؤں تو وقت لگے گا۔‘ یہ سُن کر آشیش نہرا نے استاد جی کے لیے دوارکا میں گھر خریدا۔‘

یہی نہیں وقتاً فوقتاً بڑے کھلاڑیوں نے ان کے کلب کی مالی مدد بھی کی۔ تاہم انھوں نے کبھی کسی کے پاس جا کر خود سے کچھ نہیں مانگا۔

ان کی کوچنگ کے طریقہ کار کے بارے میں سنجیو شرما نے بتایا کہ وہ بولر اور بلے باز دونوں کی تکنیک پر کام کرتے تھے۔ وہ گرمیوں میں سپنرز اور سردیوں میں تیز گیند بازوں کو سخت ٹریننگ دیتے تھے۔

خواتین کی کرکٹ میں اہم کردار

انڈین خواتین کرکٹ ٹیم کی کپتان انجم چوپڑا نے بتایا کہ دسمبر سنہ 2001 میں جب انھیں کپتان منتخب کیا گیا تو اس وقت تارک سنہا ہی کوچ تھے۔ یہ انھی کا دور تھا جب سنہ 2002 میں خواتین کی کرکٹ ٹیم نے پہلی بار گھریلو ون ڈے میں غیر ملکی ٹیم کو 5-0 سے شکست دی۔ اس وقت انگلینڈ کی ٹیم ون ڈے سیریز کے لیے انڈیا آئی ہوئی تھی۔

وہ بتاتی ہیں کہ خواتین کرکٹ ٹیم نے غیر ملکی سرزمین پر جو پہلی ٹیسٹ سیریز جیتی وہ بھی ان کی کوچنگ کے دوران جنوبی افریقہ کے خلاف کھیلی گئی سیریز تھی۔

سنجیو شرما بتاتے ہیں کہ ’جب وہ راجستھان کرکٹ ایسوسی ایشن کے چیف عہدیدار بنے تو دو سال تک راجستھان کی ٹیم رانچی ٹرافی کی فاتح رہی۔ اچھے کھلاڑیوں کو پرکھنے کا قدرتی ہنر ان کے پاس تھا۔ اس کے علاوہ وہ بہت سے غیر ملکی کرکٹ کوچز یا کھلاڑیوں کی کتابیں پڑھتے تھے۔‘

اتنے کھلاڑیوں کو بلندیوں تک پہنچانے کے بعد بھی استاد جی آخر دم تک سادہ زندگی گزارتے رہے۔ انھوں نے کبھی شادی نہیں کی۔ کرکٹ کو اپنا جیون ساتھی سمجھتے ہوئے وہ کھلاڑیوں کے ٹیلنٹ میں اپنا خاندان تلاش کرتے رہے۔

انھوں نے جن 12 بین الاقوامی کھلاڑیوں کی کوچنگ کی ان میں رشبھ پنت، شیکھر دھون، آکاش چوپڑا، انجم چوپڑا، آشیش نہرا، اتل واسن، سنجیو شرما، کے پی بھاسکر، اجے شرما، منوج پربھاکر، رمن لامبا، سریندر کھنہ اور رندھیر سنگھ شامل ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں