53

بھوک نے اتنا مجبور کر دیا کہ ہاتھ جوڑ کر سوشل میڈیا پر مدد مانگ لی، ان بچیوں کے ساتھ باپ اور بھائی نے ایسا کیا کر دیا کہ یہ اس عمل پر مجبور ہو گئیں

بھوک نے اتنا مجبور کر دیا کہ ہاتھ جوڑ کر سوشل میڈیا پر مدد مانگ لی، ان بچیوں کے ساتھ باپ اور بھائی نے ایسا کیا کر دیا کہ یہ اس عمل پر مجبور ہو گئیں

(ڈیلی طالِب)

انسان ایک معاشرتی حیوان ہے وہ اس دنیا میں تنہا نہیں رہ سکتا ہے ۔ ہمارا معاشرہ تو ویسے بھی مردوں کا معاشرہ کہلاتا ہے جہاں پر تمام تر آزادی کے باوجود کچھ عورتیں معاشرے میں اپنے بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں۔ ایسی عورتیں باپ بھائی، شوہر کو سر کی چھت کہتی ہیں اور ان کے بغیر خود کو بے آسرا سمجھنے لگتی ہیں-

ایسا ہی کچھ اس خاندان کے ساتھ ہوا پانچ بیٹیوں اور ایک بیٹے کے اس گھرانے کو پہلا جھٹکا اس وقت لگا جب کہ اس گھر کے سربراہ نے کسی دوسری عورت سے شادی کر کے اپنے بچوں کو تنہا اور بے سہارہ چھوڑ دیا- دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کی شادی ہو چکی تھی جس میں سے دوسری بیٹی بھی جہیز نہ دینے کے سبب دو بچوں کے ساتھ طلاق لے کر واپس ماں کے پاس آچکی تھی-

جس کی وجہ سے اخراجات کا سارا بار بڑے بھائی پر آگیا جو خود بھی شادی شدہ تھا اس نے اس مشکل وقت میں گھر کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے بجائے ایک آسان راستہ اختیار کیا اور اپنی فیملی کو لے کر سسرال شفٹ ہو گیا اور اپنی چار بہنوں اور ماں سے باپ ہی کی طرح لا تعلق ہو گیا-

بوڑھی ماں بچیوں کا پیٹ پالنے کے لیے دردر بھٹکنے پر مجبور ہو گئی۔ بھیک مانگ کر جو روکھی سوکھی لاتی وہی ان کے پیٹ کے ایندھن کو بھرنے کے لیے کچھ نہ کچھ سبب بن جاتا- مگر پے در پے مشکلات اور تکالیف نے اس بوڑھی ماں کی ہڈیوں میں اب اتنی طاقت بھی نہ چھوڑی کہ وہ بھیک مانگنے کے لیے گھر سے باہر نکل سکے- اس نے چارپائی پکڑ لی اور اس کے نتیجے میں غربت اور افلاس کے ساتھ ساتھ گھر میں بھوک نے بھی ڈیرے ڈال لیے-

کئی وقت کے فاقوں کے بعد 18 سالہ رمشا ، 14 سالہ فاطمہ اور 12سالہ ثوبیہ نے ہاتھ جوڑ کر سوشل میڈیا پر آکر مدد مانگنے کا فیصلہ کیا اور سوشل میڈیا کے ایک پیج سے رابطہ کرکے ان کو اپنی ساری کہانی سنائی-

ان کا یہ کہنا تھا کہ رمشا اور فاطمہ کی منگنی ہو چکی ہے مگر اس وقت ان کی ماں کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہیں کہ وہ تین وقت کا کھانا کھا سکیں تو شادی تو بہت دور کی بات لگتی ہے-

انہوں نے اس ویڈیو میں ہاتھ جوڑ کر مخیر حضرات سے مطالبہ کیا کہ ان کی مدد کی جائے اور ایسا بندوبست کیا جائے کہ وہ کم از کم پیٹ بھر روٹی کھانے کے قابل ہو سکیں-

یہ معصوم بچیاں اس معاشرے کے ان تمام افراد کے لیے ایک سوالیہ نشان ہیں جو کہ پیٹ بھر کھانا کھاتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی کھلاتے ہیں۔ یہ ہاتھ جوڑے بچیاں ان حکمرانوں کا بھی امتحان ہیں جو ریاست مدینہ کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر انہی کے راج میں یہ تین بچیاں بھوک کی شدت کے سبب ہاتھ جوڑ کر مدد مانگنے پر مجبور ہو گئی ہیں-

50% LikesVS
50% Dislikes

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں