ملالہ اور عصر کی جان پہچان کیسے ہوئی، نکاح خواں کو کیا ملا؟
(ڈیلی طالِب)
نوبیل انعام یافتہ پاکستانی ملالہ یوسفزئی کا نکاح پڑھانے والے نکاح خواں امام قیام الدین کا ڈیلی طالِب کو دیے جانے والے ایک خصوصی انٹرویو میں کہنا ہے کہ نکاح پڑھانے کے بعد انہیں خاندان کی جانب سے مٹھائی کا ٹوکرا ملا۔
ادھر ملالہ یوسفزئی نے برطانوی میگزین ’ووگ‘ کے لیے لکھے گئے ایک مضمون میں کہا ہے کہ ان کے شوہر عصر ملک کے ساتھ پہلی ملاقات ان کے زمانہ طالب علمی کے دوران آکسفورڈ میں 2018 میں ہوئی تھی اور پھر دونوں بہترین دوست بن گئے۔
امام قیام الدین نے بتایا کہ ’نکاح کے لیے ملالہ یوسفزئی کی رہائش گاہ پر برمنگھم میں نو نومبر کو مقامی وقت کے مطابق سہ پہر تین بجے کا وقت مقرر کیا گیا تھا۔‘
صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر مردان سے تعلق رکھنے والے امام قیام الدین کا کہنا تھا کہ ’میں ملالہ یوسفزئی کے خاندان کو 2016 سے جانتا ہوں۔ خاندان نے مجھے نکاح کے لیے مدعو کرتے ہوئے واضح طور پر بتایا تھا کہ آپ کو ملالہ یوسفزئی کے نکاح کے لیے بلایا جا رہا ہے اور یہ نکاح کس کے ساتھ ہو رہا ہے، یہ بھی بتا دیا گیا تھا۔‘
ملالہ یوسفزئی کے شوہر عصر ملک کے اہل خانہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے امام قیام الدین کا کہنا تھا ایک سادہ تقریب میں دونوں خاندانوں کے افراد موجود تھے۔
ان کے مطابق ’نکاح کے موقع پر دونوں خاندان بہت خوش تھے اور ماحول بہت خوشگوار تھا۔ تقریب میں ملالہ یوسفزئی کی تین سہیلیاں بھی شریک تھیں۔‘
’نکاح نامے پر دستخط کے وقت ہاتھ نہیں لرزے‘
اس سوال پر کہ نکاح نامے پر دستخط کرتے ہوئے کس کے ہاتھ لرز رہے تھے؟ امام قیام الدین کا کہنا تھا کہ ’ملالہ یوسفزئی اور عصر ملک دونوں بہت خوش تھے اور دستخط کرتے وقت بھی دونوں نے خوشی سے دستخط کیے تھے۔‘
تقریب کی طوالت کے حوالے سے نکاح خواں کا کہنا تھا کہ ’نکاح کے لیے تین بجے کا وقت مقرر کیا گیا تھا جبکہ نکاح کا خطبہ 10 سے 15 منٹ میں مکمل ہو گیا تھا۔ مہمانوں کی تواضع کے لیے بھی کھانے کا انتظام تھا۔‘
ملالہ یوسفزئی کا نکاح پڑھانے والے امام قیام الدین کے مطابق نکاح کے بعد انہیں بھی تحفے میں مٹھائی کا ٹوکرا پیش کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ملالہ یوسفزئی اور ان کے اہل خانہ کے لیے دعا گو ہیں۔
ملالہ یوسفزئی کے نکاح خواں کے مطابق انہوں نے ملالہ اور ان کے شوہر عصر ملک کو اردو میں تفسیر قرآن کا تحفہ دیا جب کہ ملالہ کی والدہ کے لیے پشتو زبان میں تفسیر قرآن تحفے میں دی۔
ان کے مطابق وہ کئی سال سے برطانیہ کے شہر برمنگھم میں مقیم ہیں جہاں وہ ایک اسلامک سینٹر کے ڈائریکٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
’35 سال تک غیر شادی شدہ رہنا چاہتی تھی‘
برطانوی جریدے ووگ میں شائع مضمون میں ملالہ کا کہنا تھا کہ ان کو اپنے شوہر عصر ملک میں ایک بہترین ساتھی اور دوست ملا ہے۔
انہوں نے کہا، ’میرے پاس اب بھی خواتین کو درپیش چیلنجز کے تمام جوابات نہیں ہیں۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ میں شادی میں دوستی، محبت اور برابری سے لطف اندوز ہو سکتی ہوں۔‘
اپنے رشتے کی ابتدا سے متعلق ملالہ کا کہنا تھا کہ 2018 کے موسم گرما میں وہ عصر سے آکسفورڈ میں ملیں، جب ان کے ہونے والے شوہر اپنے دوستوں کو ملنے آئے تھے۔
اپنے شوہر کے بارے میں ملالہ نے بتایا، ’انہوں نے کرکٹ میں کام کیا، اس لیے مجھے فوری طور پر ان کے ساتھ بہت سی باتیں کرنی تھیں۔ انہیں میری حس مزاح پسند تھی۔ ہم بہترین دوست بن گئے۔‘
ملالہ نے مضمون کے آغاز میں کافی وقت اپنے ماضی کے اس بیان کی وضاحت میں گزارا جس میں انہوں نے شادی کی مخالفت کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ہمیشہ سے شادی کی حامی نہیں تھیں اور 35 سال کی عمر تک غیرشادی شدہ رہنا چاہتی تھیں۔ اور ان خیالات کا اظہار انہوں نے بارہا انٹرویوز میں اور لوگوں کے پوچھنے پر کیا۔
انہوں نے کہا، ’میں شادی کے خلاف نہیں تھی، لیکن میں اس رواج کے بارے میں محتاط تھی۔ میں نے اس رواج کی پدرشاہی جڑوں پر سوال اٹھایا۔‘
ملالہ نے کہا کہ شادی کے بعد خواتین سے سمجھوتہ کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔ ’مجھے اپنی انسانیت، اپنی آزادی، اپنا عورت ہونے کا شرف، کھونے کا خوف تھا۔ میرا حل یہ تھا کہ میں شادی سے بالکل دور رہوں۔‘
ملالہ نے خود اپنے ہاتھوں پر مہندی لگائی
اپنی شادی کی تقریب سے متعلق کہ وہ ایک محدود پیمانے پر ہونے والا ایونٹ تھا۔
ملالہ نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا، ’میری والدہ اور ان کی سہیلی نے میری شادی کے کپڑے لاہور سے خریدے تھے۔ عصر کی والدہ اور بہن نے مجھے وہ زیور دیے جو میں نے پہنے تھے۔ میرے والد نے کھانے اور سجاوٹ کا اہتمام کیا تھا۔‘
ملالہ نے اپنے ایک اور ہنر کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا، ’سکول اور آکسفورڈ سے میری تین بہترین دوستوں نے کام سے چھٹی لے کر تقریب میں شرکت کی۔ میں نے خود اپنے ہاتھوں پر مہندی لگائی، اور مجھ پر بعد میں یہ انکشاف ہوا کہ اپنے خاندان اور دوستوں میں سے میں واحد تھی جسے یہ ہنر آتا تھا!‘
خوشی اور غم میں ساتھ ساتھ رہے
عصر سے تعلق کے بارے میں ملالہ کا کہنا تھا پہلی ملاقات کے کچھ عرصے کے بعد دونوں کو محسوس ہوا کہ ان کے پاس مشترکہ اقدار ہیں اور وہ ایک دوسرے کی صحبت سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور ہم خوشی اور مایوسی کے لمحات میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہے۔
ملالہ نے کہا کہ وقت کے اتار چڑھاؤ کے باوجود وہ ایک دوسرے سے بات کرتے رہے۔
بقول ان کے، ’جب الفاظ ناکام ہو گئے، میں نے اسے اپنے زائچے کی مطابقت سے متعلق ایک لنک بھیجا۔‘ جس پر ملالہ کو امید تھی، ’کہ ستارے ہمارے تعلق کو مضبوط کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔‘
’مجھے اپنی انسانیت کھونے کا خوف تھا‘
ملالہ نے کہا کہ شادی کے بعد خواتین سے سمجھوتہ کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔ ’مجھے اپنی انسانیت، اپنی آزادی، اپنا عورت ہونے کا شرف کھونے کا خوف تھا۔ میرا حل یہ تھا کہ میں شادی سے بالکل دور رہوں۔‘
ملالہ نے کہا پاکستان کے شمالی علاقوں میں پرورش پانے والی لڑکیوں کو یہ سکھایا جاتا تھا کہ شادی ایک آزاد زندگی کا متبادل ہے، اور اگر آپ کو زندگی میں کچھ نہیں مل رہا یا آپ پڑھائی نہیں کر سکتیں تو ’شادی کر لیں۔‘
اپنے 2020 جولائی میں ووگ کو دیے جانے والے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے ملالہ نے کہا جب مجھ سے شادی سے متعلق پوچھا گیا تو مجھے میرے سامنے وہ ’سیاہ حقیقت‘ آ گئی جس سے میری (پاکستانی) بہنیں گزرتی ہیں۔
انہوں نے کہا، ’مجھے شادی کا خیال مشکل لگا۔ میں نے وہ کہا جو مجھے ہمیشہ سے لگا کہ شاید شادی میرے لیے نہیں ہے۔‘
- About the Author
- Latest Posts
Ghufran Karamat is a Senior Columunts who work With Daily talib