47

خرم پرویز: حقوِقِ انسانی کے سرگرم کشمیری کارکن ’دہشت گردوں کی مدد‘ کے الزام میں گرفتار

خرم پرویز: حقوِقِ انسانی کے سرگرم کشمیری کارکن ’دہشت گردوں کی مدد‘ کے الزام میں گرفتار

(ڈیلی طالِب)

انڈیا میں انسدادِ دہشت گردی کے ادارے نے کشمیر میں حقوقِ انسانی کے لیے کام کرنے والے کارکن خرم پرویز کو گرفتار کر لیا ہے۔

خرم پرویز کو انسدادِ دہشت گردی کے جس قانون کے تحت حراست میں لیا گیا ہے اس میں ضمانت ملنا تقریباً ناممکن ہے۔

نیشنل انویسٹیگیشن ایجنسی نے خرم پرویز کے دفتر اور رہائش گاہ پر چھاپے مارے اور ان پر ’دہشت گردوں کی مالی معاونت‘ اور ’سازش رچنے‘ کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

خرم پرویز کی جانب سے تاحال اس بارے میں کوئی بیان یا ردعمل سامنے نہیں آیا ہے تاہم ان کی رہائی کے لیے عالمی سطح پر مطالبات سامنے آئے ہیں۔

انسانی حقوق کے کارکنوں نے سوشل میڈیا پر اس گرفتاری کو ’حقوقِ انسانی کا دفاع کرنے والوں کو خاموش کروانے اور سزا دینے کی کوشش‘ قرار دیا ہے۔

خرم پرویز کا شمار انڈیا میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے ناقدین میں ہوتا ہے اور ان کے گروپ ’جموں کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی‘ نے کشمیر میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے حقوِق انسانی کی خلاف ورزی پر متعدد رپورٹس شائع کی ہیں۔

وہ کشمیر اور ایشیا میں جبراً لاپتہ کیے جانے والے افراد کے بارے میں قائم کی گئی ایک تنظیم کے سربراہ بھی ہیں۔

سنہ 2016 میں بھی حکام نے انھیں سوئٹزر لینڈ میں منعقدہ اقوامِ متحدہ کی حقوقِ انسانی کی کونسل کے اجلاس میں شرکت کی اجازت نہ دیتے ہوئے متنازع پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا تھا۔

انھیں 76 دن تک حراست میں رکھنے کے بعد حقوقِ انسانی کی عالمی تنظیموں کے دباؤ پر رہا کیا گیا تھا۔

پیر کو این آئی اے نے سرینگر میں خرم کے گھر اور دفتر پر چھاپے مارے اور انھیں تفتیش کے لیے ساتھ لے گئے اور شام کو انھیں گرفتار کر لیا گیا۔

پولیس نے ان کے خلاف مقدمے میں جو دفعات شامل کی ہیں ان میں ’مجرمانہ سازش‘، ’حکومت کے خلاف جنگ چھیڑنے‘ اور ’دہشت گردی اور دہشت گرد تنظیموں کے لیے فنڈ جمع کرنے‘ کے الزامات شامل ہیں۔

اقوامِ متحدہ کی نمائندہ برائے تحفظ حقوقِ انسانی میری لالر کا کہنا ہے کہ خرم پرویز کی حراست کی خبریں تشویشناک ہیں۔ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں انھوں نے کہا کہ ’وہ کوئی دہشت گرد نہیں بلکہ حقوقِ انسانی کا محافظ ہے۔‘

خرم پرویز کی گرفتاری ایک ایسے وقت عمل میں آئی ہے جب کشمیر میں حال ہی میں پولیس مقابلے میں دو شہریوں کی ہلاکت کے بعد حالات کشیدہ ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ یہ دونوں شہری شدت پسندوں سے فائرنگ کے تبادلے کے دوران مارے گئے جبکہ ان ہلاک شدگان کے لواحقین نے پولیس کے موقف کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ انھیں انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا گیا اور جان بوجھ کر ہلاک کیا گیا۔

خرم پرویز کون ہیں؟

نامہ نگار بی بی سی ریاض مسرور کے مطابق خُرم سرینگر ایک آسودہ حال خاندان سے رکھتے ہیں جنھوں نے 20 سال قبل کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں ڈگری حاصل کی اور مختصر عرصے تک صحافت کرنے کے بعد انسانی حقوق کے دفاع میں سرگرم ہو گئے۔

سنہ 2004 کے انتخابات کے دوران خرم نے انتخابات کے مشاہدے کے لیے پورے کشمیر میں رضاکاروں کو بھیجا اور خود بھی ایک ٹیم کی قیادت کی۔ شمالی کشمیر کے کپوارہ ضلع میں اسی دورے کے دوران ایک سڑک پر بارودی دھماکہ ہوا جس میں اُن کی ایک رضاکار آسیہ جیلانی ہلاک ہو گئیں جبکہ خود خرم اپنی ٹانگ کھو بیٹھے۔ خرم کی اہلیہ حکومت کے شعبہ سماجی بہبود میں افسر ہیں۔ اُن کے دو بچے ہیں۔

خُرم انسانی حقوق کے حوالے سے کشمیر ہی نہیں بلکہ یورپ اور امریکہ میں بھی سرگرم رہے ہیں۔ وہ لاپتہ افراد کی عالمی تنظیم کے ساتھ بھی وابستہ ہیں جس کی وساطت سے انھوں نے کشمیر میں مبینہ طور پر آٹھ ہزار لاپتہ افراد کے لیے کئی سال تک مہم چلائی۔

انھوں نے اقوام متحدہ کے کئی ذیلی اداروں کے ساتھ بھی کام کیا اور سی سی ایس کے ذریعہ شائع شدہ انسانی حقوق کی صورتحال پر مبنی کئی رپورٹوں کو عالمی سطح پر مشتہر کرایا۔ خُرم نے کشمیر میں لاپتہ افراد کے لواحقین خاص طور پر اُن کی بیواؤں کو بھی ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا۔

خرم کی مہم کے دوران انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں لاپتہ افراد کی بیواؤں کو ’آدھی بیوہ‘ کا نام دیا گیا۔ خرم نے مذہبی رہنماؤں اور انجمنوں میں اِن ’آدھی بیوہ‘ خواتین کی دوبارہ شادی کے لیے بھی مہم چلائی، کیونکہ دہائیوں بعد بھی جب لاپتہ افراد کا پتہ نہ ملا تو انھیں مردہ قرار دینا مذہبی تنازع کا باعث بن رہا تھا۔

خرم نے سی سی ایس اتحاد کے ذریعہ کشمیر اور پونچھ میں ہزاروں مبینہ گمنام قبروں کا بھی انکشاف کیا جس پر اُس وقت کے مقامی کمیشن برائے انسانی حقوق نے حکومت سے جواب بھی طلب کیا۔

خرم تفتیش کے دوران جسمانی ایذا کے خلاف عالمی الائنس کے ساتھ بھی جُڑے ہیں۔ الائنس نے اپنے ردعمل میں بتایا ہے کہ خرم کی گرفتاری سے لگتا ہے کہ انڈیا شہریوں کے لیے اظہار رائے کے لیے موجود گنجائش کو ختم کر رہا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں