نوجوت سنگھ سدھو ایک بار پھر تنقید کی ذد میں: ’کیا سدھو کے عمران خان کو بھائی کہنے پر تنقید کرنے والے بھول گئے کہ کس نے نواز شریف کی والدہ کے پاؤں چھوئے تھے‘
(ڈیلی طالَب)
کرکٹ کے میدان سے سیاست کی دنیا میں آنے والے انڈیا کے سکھ رہنما نوجوت سنگھ سدھو اور تنازعات کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔
سب سے پہلے انھوں نے سنہ 1996 میں اس وقت ایک طوفان برپا کر دیا تھا جب وہ انگلینڈ کا دورہ کرنے والی انڈین کرکٹ ٹیم کے کپتان اظہر الدین سے جھگڑے کے بعد دورہ ادھورا چھوڑ کر واپس انڈیا چلے آئے تھے۔
لیکن ابھی وہ پاکستان کے سابق کرکٹر اور موجودہ وزیر اعظم عمران خان کو مبینہ طور پر ’بڑا بھائی‘ کہنے کے لیے سخت تنقید کی زد میں ہیں اور انڈیا میں سماجی رابطوں کی سائٹس پر ’عمران خان‘ اور ’سدھو‘ دونوں کا نام ٹرینڈ کر رہا ہے۔
نوجوت سنگھ سدھو انڈیا کی ریاست پنجاب میں کانگریس پارٹی کے صدر ہیں اور اپنے حالیہ کرتارپور دورے میں ان کا عمران خان کو مبینہ طور پر ’بڑا بھائی‘ کہنا بہت سے لوگوں کو ہضم نہیں ہوا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل سنہ 2018 میں جب سدھو عمران خان کی تقریب حلف برداری میں پہنچے تھے تو بھی ان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
اس حلف برداری کی تقریب کے دوران پہلے سدھو کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے صدر مسعود خان کے ساتھ بیٹھنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گيا اور پھر پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل باجوہ سے بغل گیر ہونے اور مسکراہٹوں کے ساتھ جملوں کے تبادلے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
اگرچہ پاکستان میں نوجوت سنگھ سدھو کی آمد کا خیر مقدم کیا گیا لیکن انڈیا میں انھیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گيا تھا۔
خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق کرتارپور کے حالیے دورے میں سدھو نے مبینہ طور پر یہ کہا کہ انڈیا میں حزب اختلاف کی جماعتیں ہندوتوا میں دولت اسلامیہ اور بوکو حرام جیسی شدت پسند تنظیموں کی شباہت دیکھتی ہیں جبکہ عمران خان میں ’بھائی جان‘ دیکھتی ہیں۔
انڈیا میں کئی صارفین سدھو کے اس بیان پر سیخ پا ہیں لیکن ایسے صارفین کی تعداد بھی کم نہیں جو سدھو کا ساتھ دے رہے ہیں اور ان کی حمایت میں بول رہے ہیں۔
سویڈن میں مقیم ’کنفلکٹ سٹڈیز‘ کے پروفیسر اشوک سوائیں نے سدھو پر تنقید کرنے والوں سے براہ راست سوال کرتے ہوئے لکھا: ’جو لوگ سدھو کی جانب سے عمران خان کو بھائی کہنے پر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں کیا وہ بھول گئے کہ کس نے نواز شریف کی والدہ کا پاؤں چھو کر ان سے دعائیں لی تھیں؟‘
واضح طور پر شوک سوائیں کا اشارہ انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب ہے، جب وہ نواز شریف سے ملنے کے لیے اچانک پاکستان پہنچ گئے تھے۔
صارف ساجد حسین نے لکھا کہ ’انڈین میڈیا نفرت پھیلا رہا ہے۔ ورنہ کون نہیں جانتا کہ عمران خان اور سدھو اسی طرح دوست رہے ہیں جیسے شعیب اختر اور ہربھجن سنگھ ہیں۔‘
ہردیپ سنگھ نامی صارف نے لکھا کہ ’عمران خان انڈیا کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ کشمیر کے مسئلے کے مستقل حل کے لیے وہ انڈیا کا واحد موقع ہیں۔ ایک بار ان کا دور ختم ہو گیا تو یہ موقع بھی ہمیشہ کے لیے جاتا رہے گا۔‘
بی جے پی کے رکن امت مالویہ کی جانب سے سدھو پر ایک پوسٹ کا جواب دیتے ہوئے امرتسر سے رکن پارلیمان گرجیت سنگھ اوجلا نے لکھا کہ ’نوجوت سنگھ سدھو عمران خان کے پرانے دوست ہیں جو اب پاکستان کے وزیر اعظم بنے ہیں لیکن جب بھی وہ دونوں ملتے ہیں تو آپ کے پیٹ میں چوہے کیوں کودنے لگتے ہیں۔‘
سابق کرکٹر اور دہلی سے بی جے پی کے منتخب رکن پارلیمان گوتم گمبھیر نے سدھو کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کے بیان کو ’نفرت انگیز‘ اور انھیں ’بغیر ریڑھ کی ہڈی‘ کا کہا۔
دوسری جانب بی جے پی کے ریاستی ترجمان گورو گویل نے لکھا کہ ’نوجوت سنگھ سدھو کو فوری طور پر پاکستان منتقل کر دینا چاہیے تاکہ وہ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ رہ سکیں۔ میں ان کی منتقلی کے سارے خرچ برداشت کروں گا۔‘
اس وقت عمران خان نے کہا تھا کہ انھیں خوشی ہے کہ کرتارپور سرحد کھول کر سکھوں کے دل خوشیوں سے بھر دیے ہیں۔
- About the Author
- Latest Posts
Ghufran Karamat is a Senior Columunts who work With Daily talib