جب ہدایت کار نے اپنے چھ سالہ نواسے ریتیک روشن کی صلاحیتیں بھانپ لیں
(ڈیلی طالِب)
ہدایت کار جے اوم پرکاش کے ساتھ چھ سال کا نواسا ضد کر کے سیٹ پر آیا تھا۔ نانا کی جان سمجھے جانے والے ’ڈگو‘ کی سمجھ میں تو کچھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے، لیکن وہ بڑی دلچسپی سے فلم کی عکس بندی دیکھ رہا تھا۔
جے اوم پرکاش کسی تعارف کے محتاج نہیں تھے، جہاں وہ بہترین اور باکمال ہدایت کار تسلیم کیے جاتے، وہیں انہوں نے اس عرصے کے دوران کئی تخلیقات کے لیے بطور پروڈیوسر اپنی خدمات سرانجام دیں، جن میں سب سے نمایاں گلزار کی فلم ’آندھی‘ تھی۔ اس کے علاوہ ’آئی ملن کی بیلا،‘ ’آئے دن بہار کے،‘ ’آیا ساون جھوم کے‘ اور ’آنکھوں آنکھوں میں‘ بھی قابل ذکر ہیں۔ جے اوم پرکاش کی بیشتر فلموں کے نام انگریزی حروف تہجی ’اے‘ سے شروع ہوتے تھے کیونکہ ان کا خیال تھا یہ ان کے لیے خوش قسمتی کی علامت ہے۔
جے اوم پرکاش کی خوبی یہ تھی کہ اگر انہیں کسی فلم کا سکرپٹ پسند آ جاتا تو وہ پروڈیوس کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی ہدایت کاری بھی دیتے تھے۔ انہی میں سے ایک 1980 میں نمائش پذیر ہونے والی ’آشا‘ بھی تھی، جس میں جتندر اور رینا رائے مرکزی کرداروں میں تھے۔ سٹوڈیو سے باہر نکل کر ایک گیت ’جانے ہم سڑک کے لوگوں سے‘ کی عکس بندی کھلی فضا میں کی جا رہی تھی۔ اس مدھر اور رسیلے گیت کو جے اوم پرکاش کے پسندیدہ گلوکارہ محمد رفیع نے گنگنایا تھا، جبکہ دھن اس وقت کی ہٹ مشین موسیقار جوڑی لکشمی کانت پیارے لال کی تھی۔
جے اوم پرکاش کے نواسے کی سمجھ میں تو کچھ نہیں آ رہا تھا لیکن وہ نانا کی ان ہدایات کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا، جو وہ اپنے یونٹ سٹاف کو دے رہے تھے۔ اس گیت میں جتیندر کو ایک چھوٹے سے ڈھابے کے باہر رقص کرتے ہوئے عکس بند کرنے تھے، جبکہ ان کے ساتھ دیگر رقاص بھی تھے۔ جے اوم پرکاش نے سب کو اپنی اپنی پوزیشن سمجھائیں اور کیمرے کے پیچھے سینیماٹو گرافر کے ساتھ جا کر کھڑے ہو گئے۔ ساؤنڈ سسٹم پر گیت بجا، جس پر جتیندر نے لب ہلانے کے ساتھ ساتھ رقص بھی کرنا شروع کیا۔
گیت کا ایک فریم تو دو تین منٹ میں عکس بند ہو گیا۔ اب کیمرا کہیں اور فکس کیا گیا اور پھر سے ساؤنڈ سسٹم پر گیت گونجنے لگا۔ اسی دوران نانا جے اوم پرکاش کو نواسے ڈگو کا خیال آیا تو انہوں نے دیکھا کہ وہ دور کھڑا موسیقی پر تھرک رہا تھا۔ نانا اسے دیکھ کر مسکرائے۔ اب ان کی نگاہیں منظر کے بجائے نواسے پر ٹکی ہوئی تھیں، جو دنیا جہاں سے بے خبر رقص کر رہا تھا۔
گیت کے دوران وقفہ آیا تو جے اوم پرکاش اپنے لاڈلے ڈگو کے پاس گئے اور بولے، ’بیٹا کیا تمہیں یہ گانا پسند ہے؟‘
جواب ہاں میں ملا۔ جے اوم پرکاش اب اور زیادہ مسکرائے، ان کا ذہن کچھ اور سوچ رہا تھا۔ وہ ایک بار پھر کیمرے کے عقب میں کھڑے تھے۔ اب اور زیادہ توجہ کے ساتھ نواسے کو رقص کرتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ پھر انہوں نے کیمرا مین اور جتیندر کو بتایا کہ جب وہ رقص کر رہے ہوں گے تو وہ نواسے کا چند سکینڈز کا ایک منظر اس کے علم میں لائے بغیر ریکارڈ کریں گے۔ جتیندر نے بھی رضا مندی ظاہر کی اور ایک بار پھر گیت گونجا تو طے شدہ پلان کے تحت وہ ناچتے جھومتے بچے سے ذرا آگے آ کر رقص کرنے لگے، لیکن کیمرا مین نے پوری توجہ اور مہارت سے جے اوم پرکاش کے تھرکتے ہوئے نواسے کو بھی کیمرے کی آنکھ میں قید کر لیا۔
اب جیسے ہی گیت بجنا بند ہوتا، ڈگو جیسے اداس ہو جاتا۔ جے اوم پرکاش کا ارادہ تھا کہ وہ ایک منظر صرف اپنے ناچتے ہوئے نواسے کا ریکارڈ کریں لیکن اس بار بھی اسے لاعلم رکھتے ہوئے یہ کام انجام دینا چاہتے تھے۔ انہیں ڈر تھا کہ کہیں کیمرا دیکھ کر نواسا کنفیوز نہ ہو جائے اور رقص کے وہ سٹیپ بھی بھول جائے، جو جے اوم پرکاش کو خوش کر گئے تھے۔
اور پھر ویسا ہی ہوا، جیسا جے اوم پرکاش چاہتے تھے۔ نانا کو یہ رقص اس قدر پسند آیا کہ چند سکینڈز کا یہ رقص گیت میں لازمی شامل کیا گیا۔ فلم ریلیز ہوئی تو بڑی میوزیکل ہٹ ثابت ہوئی لیکن کسی نے بھی اس بچے کے رقص کو نوٹ نہیں کیا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جتیندر نے جے اوم پرکاش کے نواسے کی تعریف ضرور کی اور جب نواسے نے خود کو بڑے پردے پر ناچتے دیکھا تو وہ نانا کی ہوشیاری پر کھکھلا کر ہنسا۔ اسے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ اس کا یہ رقص بھی فلم میں شامل تھا۔
جے اوم پرکاش نے جب اگلے سال فلم ’آس پاس‘ بنائی تو اس کے گیت ’شہر میں چرچا ہے‘ میں دھرمیندر اور ہیما مالنی کے ساتھ نواسے ڈگو کو پھر سے ایک منظر میں کچھ سکینڈوں کے لیے نچوایا لیکن اس بار ڈگو کو علم تھا۔
اس فلم کے کوئی 19سال بعد یہی بچہ اب ڈگو کے بجائے ریتیک روشن کے نام سے جانا جاتا ہے، جو شہرہ آفاق موسیقار روشن کا پوتا بھی ہے۔
یہی ریتیک روشن، جو والد راکیش روشن کی کئی فلموں کا اسسٹنٹ رہا، وہ اب ہیرو بن کر ’کہو نا پیار ہے‘ میں جلوہ گر ہوا۔ ریتیک روشن کی اداکاری تو تھی ہی فطرت سے قریب تر، وہیں ان کے رقص کی بھی چاروں طرف دھوم مچ گئی۔ یہ ایک ایسی اضافی خوبی تھی جو اس دور کے سپر سٹار شاہ رخ خان اور سلمان خان کی شہرت کو بھی دھندلا گئی۔
سات اگست 2019 کو دنیا سے منہ موڑنے والے جے اوم پرکاش کا کہنا تھا کہ جب نواسے کو بطور ہیرو پہلی ہی فلم میں بہترین اداکار کا وصول کرتے ہوئے دیکھا تو خود پر فخر محسوس کیا، جن کی جوہر شناس نگاہوں نے ریتیک روشن کی صلاحیتوں کو ان کی چھ سال کی عمر میں بھانپ لیا تھا۔
یہ نانا ہی تھے جنہوں نے ریتیک روشن عرف ڈگو کی یہ خوبی پہلے ہی دریافت کر لی تھی۔
اب ان کا ڈگو بالی وڈ کا سپر سٹار ہے، جس کے نام پر فلمیں فروخت ہوتی ہیں۔ ریتیک روشن کا رقص ہی کچھ ایسا رہا ہے جس کو دیگر اداکار چھو بھی نہیں پاتے اور ان کی یہی خاصیت انہیں بالی وڈ میں اب تک مختلف اور منفرد بنائے ہوئے ہے۔
- About the Author
- Latest Posts
Ghufran Karamat is a Senior Columunts who work With Daily talib