59

وسعت اللہ خان کا کالم: سانپ تو نکل گیا بھائی

وسعت اللہ خان کا کالم: سانپ تو نکل گیا بھائی

(ڈیلی طالِب)

(جولائی 2012: وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف، وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف)

بہاولپور سے 78 کلومیٹر پرے چنی گوٹھ قصبے میں ایک صاحب نے ایک شخص کو پکڑنے کا دعویٰ کیا جو قرآنِ پاک کے اوراق جلا رہا تھا۔ ان صاحب اور دیگر ساتھیوں نے اس شخص کو پولیس کے حوالے کر دیا۔ پولیس نے اسے لاک اپ میں بند کر کے پرچہ کاٹ دیا۔ یہ خبر پھیلتی چلی گئی۔

مقامی مساجد سے ’چلو چلو تھانے چلو‘ کے اعلانات ہونے لگے۔ لگ بھگ دو ہزار لوگوں نے تھانے کا گھیراؤ کر لیا جہاں 10 سپاہی موجود تھے۔

’مجرم کو حوالے کرو‘ کے نعرے لگنے لگے۔ پولیس نے تھوڑی بہت مزاحمت کی اور اس میں نو سپاہی زخمی ہوئے۔

مجمع اس شخص کو حوالات توڑ کے لے گیا اور مرکزی چوک میں بہیمانہ تشدد کے بعد زندہ جلا دیا گیا بعد میں معلوم ہوا کہ اس شخص کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا اور مجمع میں شامل بہت سے لوگ یہ بات جانتے تھے۔

پولیس نے 2000 لوگوں کے خلاف ایف آئی آر کاٹ دی ۔کچھ گرفتاریاں اور رہائیاں ہوئیں، مقدمات چلے، رپورٹ طلب کر لی گئی۔ یہ انسانیت نہیں درندگی ہے، مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا وغیرہ وغیرہ۔

(دسمبر 2012: وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف، وزیرِ اعلیٰ قائم علی شاہ)

دادو کے علاقے راجو ڈیرو کے گوٹھ سیتا کی ایک مسجد میں ایک اجنبی مسافر ٹھہرا۔ ایف آئی آر کے مطابق امام مسجد نے نمازِ فجر کے بعد قرانِ پاک کے کچھ جلے ہوئے صفحات دیکھے اور اس مسافر کو پولیس کے حوالے کر دیا۔ پولیس نے ایف آئی آر کاٹ کے حوالات میں بند کر دیا۔ پھر اسی مسجد سمیت دیگر مساجد سے اعلانات ہوئے، آس پاس کے گوٹھوں میں بھی اشتعال پھیل گیا۔ تھانے کا گھیراؤ ہوا، مٹھی بھر پولیس والوں سے ہاتھا پائی ہوئی۔ مشتعل مظاہرین نے نہ صرف تھانے کے اندر موجود ملزم کو زندہ جلا دیا بلکہ تھانہ بھی جلا دیا۔

پولیس نے 200 لوگوں کے خلاف ایف آئی آر کاٹ دی۔ کچھ گرفتاریاں اور رہائیاں ہوئیں، مقدمات چلے، رپورٹ طلب کر لی گئی۔ یہ انسانیت نہیں درندگی ہے۔ مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا وغیرہ وغیرہ۔

(نومبر 2014: وزیرِ اعظم نواز شریف، وزیرِ اعلیٰشہباز شریف)

لاہور سے 56 کلومیٹر پرے کوٹ رادھا کشن کے چک 59 میں مسجد سے اعلان ہوا قرآن کی مبینہ بے حرمتی ہو گئی۔ اینٹوں کے ایک بھٹے کے نزدیک جلے ہوئے اوراق ملے۔ بھٹہ مالک یوسف گجر اور اس کے ساتھیوں نے واجبات کے حساب کے لیے مسلسل تقاضا کرنے والے 34 سالہ مزدور شہزاد مسیح اور اس کی 24 سالہ ناخواندہ مزدور حاملہ بیوی شمع پر توہین کا الزام لگایا۔ دونوں کو بھٹے کے قریب کمرے میں بند کر دیا گیا۔

مساجد سے اعلانات شروع ہو گئے، ہجوم بنتا چلا گیا، بھٹے کے عملے نے فرنس کا ڈھکن اٹھا دیا اور دونوں میاں بیوی کو اس میں دھکیل دیا گیا۔ دونوں کے دو سے سات برس تک کے تین بچے تھے۔

پولیس نے 200 لوگوں کے خلاف ایف آئی آر کاٹ دی، ۔کچھ گرفتاریاں اور رہائیاں ہوئیں، مقدمات چلے رپورٹیں طلب ہوئیں۔ یہ انسانیت نہیں درندگی ہے۔ مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا وغیرہ وغیرہ۔

( اپریل 2017: وزیرِ اعظم نواز شریف، وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک)

مردان کی خان عبدالولی خان یونیورسٹی میں پڑھنے والا 23 سالہ طالبِ علم مشال خان کئی دنوں سے یونیورسٹی کے اندر جاری بدانتظامی کا ناقد بنا ہوا تھا۔ چنانچہ یونیورسٹی انتظامیہ کے چند اہلکاروں اور ان کے حامی طلبا نے مشال خان پر توہینِ مذہب کا الزام لگایا۔ مجمع اکھٹا کیا گیا اور ہاسٹل کے کمرے سے مشال خان کو باہر لا کر مار مار کے قتل کر دیا گیا۔

پولیس نے 58 لوگوں کے خلاف ایف آئی آر کاٹ دی۔ کچھ گرفتاریاں اور رہائیاں اور سزائیں ہوئیں، رپورٹیں طلب کی گئیں۔ یہ انسانیت نہیں درندگی ہے۔ مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا وغیرہ وغیرہ۔

میں نے آپ کے سامنے پچھلے دس برس میں ہجوم کے ہاتھوں مارے جانے کے چار واقعات رکھے۔ ان میں سے تین انسانوں کو زندہ جلایا گیا۔

ان واقعات میں مختلف المیعاد قید کی سزائیں تو سنائی گئیں مگر اکثریت کی ضمانت ہو گئی۔ آج تک کسی کو سزائے موت نہیں ہوئی۔ ایک کو موت کی سزا سنائی گئی تھی پھر اسے عمر قید میں بدل دیا گیا۔

ان واقعات کو ہمیشہ لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ یا چند لوگوں کی گمراہی قرار دیا گیا۔ ان تمام واقعات کے خلاف جو مذمتی مظاہرے اور دھرنے ہوئے وہ مقتولوں کے حق میں کم اور قاتلوں کے حق میں زیادہ ہوئے۔ قاتلوں کا بطور ہیرو اپنے علاقے اور عدالتی احاطوں میں سواگت ہوا اور انھیں عام آدمی سے لے کر پولیس والوں اور وکلا نے ہار پہنائے۔

حزبِ اختلاف کی ہر سرکردہ جماعت نے اس ذہنیت کو بڑھاوا دینے والوں کا بلا واسطہ و بالواسطہ ساتھ دیا۔ ان سے سیاسی و مذہبی ہم آہنگی ظاہر کی۔ ان کے جلسوں اور دھرنوں میں تقاریر فرمائیں۔ دو ٹوک موقف اختیار کرنے کے بجائے موقع پرستی کے آلاؤ پر ہاتھ تاپے جاتے رہے۔ جب اقتدار ملا تب بھی خفیہ و اعلانیہ سمجھوتے کیے۔

کسی نے آج تک پارلیمنٹ میں اس بابت قانون سازی کے لیے مطالبہ نہیں کیا کہ جھوٹا الزام لگانے والوں کو بھی وہی سزا ملنی چاہیے جو توہین کے مرتکب افراد کے لیے مخصوص ہے۔

اب یہ آگ آہستہ آہستہ پورے بدن میں پھیلتی جا رہی ہے اور ریاست بغلیں جھانک رہی ہے۔ الفاظ تھوتھے چنے میں بدل چکے ہیں۔ دنیا کسی مذمت، کسی پرفارمنس، کسی قدم پر ہرگز اعتبار کے لیے تیار نہیں۔

جو پھرتیاں اس آگ میں بھسم ہونے والے پہلے غیرملکی باشندے پریانتھا کمارا کی موت کے بعد ریاست دکھا رہی ہے اس سے آدھی پھرتیاں اگر ریاست اس طرح کے پہلے سانحے کے بعد دکھاتی تو آج ہر کوئی اک دوجے سے نگاہیں نہ چرا رہا ہوتا۔

یہ دیگ ہم نے اور ہمارے تمام منتخب و غیر منتخب اداروں، جماعتوں اور گروہوں نے بہت محنت سے تیار کی ہے۔ اب اس کے بٹنے کا وقت آگیا ہے اور ہجوم بڑھتا جا رہا ہے۔

یہ راستہ جنت کا ہے یا جہنم کا؟ باقی دنیا کو تو صاف نظر آ رہا ہے۔ مگر ہماری آنکھوں میں اترا برسوں پرانا موتیا اتنا بگڑ چکا ہے کہ شاید اس کا آپریشن بھی جان لیوا خطرے جیسا ہے۔

ہم اس کھائی کے دہانے پر اس لیے پہنچے ہیں کہ ریاست بنیادی سوالات اٹھانے والوں کی دشمن اور ہم خوفزدہ ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں