100

اردو میں سوائے محبت کے کچھ نہیں!

اردو میں سوائے محبت کے کچھ نہیں!
(ڈیلی طالِب نیوز)
اردو مشترکہ ہندوستانی تہذیب کی علمبردار ہے’، ‘اردو کی شیرینی غیر عاشق کو بھی عاشق بنا دیتی ہے’۔ ‘دکھ درد کو بہتر طریقے سے بیان کرنے کا ذریعہ اردو زبان ہے’، ‘لوگوں کو اردو پڑھا دو تو امن و امان خود بخود قائم ہو جائے گا’، ‘دہلی کو اردو کہتے تھے’، ‘اردو وہ زبان ہے جس میں سوائے محبت کچھ بھی نہیں۔

اردو کے متعلق یہ تمام باتیں جمعے کی شام دہلی میں منعقدہ جشنِ بہار مشاعرے میں سامنے آئیں۔

اردو کے نامور ادیب شمش الرحمان فاروقی کی صدارت میں ہندوستان کے علاوہ امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، متحدہ امارات اور جاپان کے شاعروں نے محفل مشاعرہ کی روایت کو قائم رکھا۔ شاید پہلی بار پاکستان سے اس مشاعرے میں کسی شاعر کی شرکت نہیں تھی۔

شمش الرحمٰن فاروقی نے کہا کہ ‘مشاعرہ ایک ایسی روایت ہے جو دنیا میں صرف اردو میں ہی پائی جاتی ہے، نہ تو اس طرح کی روایت عربی میں ہے اور نہ ہی کسی اور زبان میں۔

انھوں نے یہ بھی بتایا کہ مشاعرے میں ان دنوں جو آنا جانا لگا ہوتا ہے پہلے ویسا نہیں تھا۔ ‘پہلے جو جس پہلو بیٹھ گیا بس بیٹھ گیا۔ جسے جہاں جگہ ملی وہیں بیٹھ گیا۔

بالی وڈ کی معروف شخصیت جاوید اختر نے اپنے تازہ کلام سے لوگوں کو محظوظ کیا جس میں حالات حاضرہ پر تبصرہ تھا، ہواؤں اور لہروں پر پابندیاں لگانے اور گلشن کو یک رنگ بنانے کی کوششوں کا ذکر تھا جو بظاہر موجودہ حکومت کی جانب سے جاری کوششوں کی سمت صرف اشارہ تھا۔

Jashn e baharan festival

جشن بہار ٹرسٹ کی روح رواں کامنا پرشاد نے کہا کہ ‘اردو زبان نے ہمیشہ ناانصافی کے خلاف پرچم بلند کیا ہے۔ یہ گنگا اور جمنا کے دو کناروں کو جوڑنے والی زبان ہے۔’ لیکن اس کے ساتھ انھوں نے تاسف کا اظہار کیا کہ ‘آج شاعری میں نفرت کی بات ہو رہی ہے اور ہم اس ذہنیت کی پرزور مخالفت کرتے ہیں اور تمام محبان اردور کو اس مہم میں شامل ہونن کی دعوت دیتے ہیں۔

فلم اداکار اور رکن پارلیمان شتروگھن سنہا اور سابق وزیر اور شمال مشرقی ریاست منی پور کی گورنر نجمہ ہیب اللہ نے بھی اس موقعے پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

شتروگھن سنہا نے پاکستان کے اپنے دوروں کا ذکر کیا اور کہا کہ بلا شبہ دلوں کو جوڑنے والی کوئی زبان ہے تو وہ اردو ہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ فلموں میں اردو پوری طرح زندہ ہے اور اس کی پزیرائی بھی ہوتی ہے۔

جاپان کے شہر اوساکا سے آنے والے شاعر سو یامانے نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کس طرح ان کی یونیورسٹی میں بہت سے طلبہ بالی وڈ کی فلم دیکھنے کے بعد اردو زبان سیکھنے آتے ہیں۔

سپینش زبان کی پروفیسر اور شاعرہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کس طرح پاکستان سے تشریف لانے والی ایک گلوکارہ کے کلام نے ان میں اردو سے محبت پیدا کی یہاں تک کہ وہ شعر کہنے لگیں۔

مشاعرے کے ناظم منصور عثمانی نے کہا: ‘جہاں جہاں کوئی اردو زبان بولتا ہے ۔۔۔ وہاں وہاں میرا ہندوستان بولتا ہے۔

کینیڈا سے تشریف لانے والے شاعر اور پرفارمنگ آرٹسٹ جاوید دانش نے کہا کہ کس طرح اردو کی نئی بستیاں دنیا بھر میں آباد ہیں اور اب وہاں سے انھیں اردو کی سرزمین ہندوستان بلایا جا رہا ہے۔

مشاعرے میں پیش کیے جانے والے چند کلام آپ کی نذر ہیں، ملاحظہ فرمائیں:

نیا موسم تو بدلا ہے
مگر پیڑوں کی شاخوں پر
نئے پتوں کے آنے میں
ابھی کچھ دن لگیں گے (جاوید اختر)
اس نے بستر کی شکن مجھ کو بنانا چاہا
جس کو چادر کی طرح اوڑھ لیا تھا میں نے (شاہجہاں جعفری، کویت)
زندگی خیر کر طلب اپنی
میں ترا زہر پی جیتا ہوں (ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ، نیویارک)
دل لگا لیتے ہیں اہل دل وطن کوئی بھی ہو
پھول کو کھلنے سے مطلب ہے چمن کوئی بھی ہو (بصیر سلطان کاظمی، برطانیہ)
فقیری آج تک فطرت ہے میری
حویلی میں بظاہر رہ رہا ہوں (جاوید دانش، کینیڈا)
ملنے کے اشتیاق میں پاگل ہوا ہے تو
وعدہ نہیں ہے اس کا یہ حسن بیان ہے (سو یامانے، جاپان)
خامشی ٹوٹے گی آواز کا پتھر بھی تو ہو
جس قدر شور ہے اندر کبھی باہر بھی تو ہو (عزیز نبیل، دوحہ قطر)

50% LikesVS
50% Dislikes

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں