66

پری زاد کے احمد علی اکبر: ’میں کہاں اور تم کہاں، ہمارا بھی بھلا کوئی جوڑ ہے.

پری زاد کے احمد علی اکبر: ’میں کہاں اور تم کہاں، ہمارا بھی بھلا کوئی جوڑ ہے.

(ڈیلی طالِب)
’کافی عرصے بعد ایک بہترین ڈرامہ دیکھنے کو ملا ہے۔‘ یہ جملہ آج کل سوشل میڈیا پر ایک نجی ٹی وی پر نشر ہونے والے ڈرامہ سیریئل ‘پری زاد’ کے لیے بہت سے ناظرین کی جانب سے استعمال کیا جا رہا ہے۔

ڈرامہ پری ذاد ہاشم ندیم کے ناول پر مبنی ہے اور اس ڈرامے کا مرکزی کردار، پری زاد اداکار احمد علی اکبر نبھا رہے ہیں۔ اس کردار پر مداحوں کی طرف سے ان کو خاصی پذیرائی مل رہی ہے۔

اس ڈرامے کی کہانی اور کرداروں کے بارے میں بات کرتے ہوئے صحافی کا کہنا ہے کہ یہ ایسا ڈرامہ ہے جس میں ہمارے معاشرے کے ان پہلوؤں اور افراد کی ذات کی عکاسی کی گئی ہے جنھیں ہمارے ارد گرد کے لوگ آسانی سے قبول نہیں کرتے۔ جیسا کہ اس ڈارمے کا مرکزی کردار پری زاد جو احمد علی نبھا رہے ہیں، وہ ایسا بچہ ہے جو پیدا ہوا تو اس کا رنگ سانولا تھا لیکن اس کی ماں اس کا نام پری زاد رکھتی ہے۔ اس کی شخصیت ایسی ہے جو اپنے آپ میں رہنے والا اور شرمیلی طبیعت کا مالک ہے۔ وہ کسی سے غیر ضروری بات کرتا ہے اور نا ہی زیادہ لوگوں میں گھلتا ملتا ہے۔ جبکہ دوسری جانب اسے سانولا رنگ ہونے کے وجہ سے ارد گرد کے لوگوں کی طرف سے تلخ باتیں اور رویے کا بھی سامنا ہے۔ جیسا کہ جس لڑکی کو وہ خاموشی سے پسند کرتا ہے وہ بھی باتوں باتوں میں اسے یہ کہتی اور احساس دلاتی ہے کہ میں کہا اور تم کہاں۔ ہمارا بھی بھلا کوئی جوڑ ہے۔

پری زاد کے کردار کے علاوہ احمد علی کی اداکاری کو بھی لوگوں کی طرف سے بے حد پسند کیا جا رہا ہے۔ براق شبیر نے اس ڈرامے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جس باریکی، مہارت اور خوبصورتی سے احمد علی اس کردار کو نبھا رہے ہیں وہ منفرد اور اپنی مثال آپ ہے۔

براق شبیر نے معاشرے میں سانولے رنگ کے بارے میں پائے جانے والے خیالات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ سانولے رنگ کو معاشرے میں بدصورتی سے جوڑا جاتا ہے۔ اس لیے میرے خیال میں یہ احمد علی کے لیے ایک الگ تجربہ ہوگا۔

انھوں نے مزید کرداروں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اسی طرح اگر اس ڈرامے میں صبور علی کے کردار کو دیکھیں تو وہ ایک ایسی لڑکی ہے جو لڑکوں کی طرح رہنا پسند کرتی ہے اور ان کے ساتھ گلی میں کھیلتی اور باقی کام کرتی ہے۔ جبکہ اس کے ماں باپ کا یہ خیال ہے کہ کیونکہ ہماری بیٹی میں لڑکیوں والی نزاکت نہیں ہے اور یہ لڑکوں کی طرح ہے اس لیے ہمیں اسے کسی ماہر نفسیات کو دکھانے کی ضرورت ہے۔ یہ وہی پہلو اور مسائل ہیں جو عموماً ہمارے ارد گرد نظر آتے ہیں۔ کسی بھی لڑکی کو لڑکوں کی طرح رہنے کا اختیار نہیں ہے اور اگر کوئی اس طرح کا رویہ رکھتی ہے تو لوگوں کا خیال یہی ہوتا ہے کہ یہ ٹھیک نہیں ہے۔

‘یہ ڈرامہ آگے چل کر مزید تبدیل ہوگا’
اس ڈرامے کا مرکزی کردار نبھانے والے اداکار احمد علی نے کہا کہ میں فی الحال تو اس ڈرامے اور کردار کے بارے میں زیادہ کچھ تو نہیں کہہ سکتا کیونکہ میں انتظار کر رہا ہوں کہ یہ ڈرامہ ختم ہو تو لوگ خود پری ذاد کے بارے میں رائے قائم کریں۔ اب تک آپ نے دیکھا ہوگا کہ کیسے اس کردار کی کہانی شروع ہوئی اور یہ ایک انتہائی دلچسپ کردار ہے۔ پہلے پری زاد کو اتنا پسند نہیں کیا جا رہا تھا لیکن جیسے جیسے ڈرامہ آگے بڑھ رہا ہے اس کردار کو بھی پسند کیا جانے لگا ہے۔ اس لیے میں ابھی ڈرامے اور اس کردار پر زیادہ تبصرہ نہیں کرنا چاہتا۔ آپ دیکھیں گے کہ آگے جا کر ڈرامہ مزید تبدیل ہوگا۔

سوشل میڈیا پر ردعمل
اب تک اس ڈرامے کی 7 قسطیں نشر کی جا چکی ہیں۔ ہر قسط کے نشر ہونے کے بعد سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے اس ڈرامے پر تبصرے کیے جا تے ہیں۔ کئی صارفین کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ ہم اپنی انڈسٹری میں ایسے لوگوں کو اداکاری کا موقع کیوں نہیں دیتے جن کا رنگ سانولا ہے۔

فیسبک صارف ذیشان علی نے لکھا کہ میں حیران ہوں کہ ہماری انڈسٹری میں کاسٹنگ ڈائریکٹر کو ایک بھی اداکار ایسا نہیں ملا جو سیاہ رنگ کا ہو۔ انھوں نے ایسے اداکار کا انتخاب کیا جس کا رنگ انھیں سیاہ کرنا پڑا۔

جبکہ عدیم نے ڈارمے اور احمد کی اداکاری کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ سچ میں یہ ڈرامہ قابل تعریف ہے اور احمد نے بہت شاندار کام کیا ہے اور اداکاری کی ہے۔ جس سے انھوں نے اچھی اداکاری کے پیمانے کو مزید اونچا کر دیا ہے۔

محمد عبدالوہاب نے لکھا کہ احمد علی نے پری زاد کے کردار کو ایسے نبھایا ہے کہ وہ اس کردار میں کھو گیا ہے اور یہی اس کی کامیابی ہے۔ یہاں ڈائریکٹر بھی تعریف کا مستحق ہے کیونکہ اس نے ہر منٹ کی تفصیل پر سنجیدگی سے توجہ دی ہے جس میں اس کی ڈریسنگ، اس کے ڈائیلاگ، اس میں اعتماد کا فقدان، اس کی دبی ہوئی طبیعت، اس کی ایمانداری ، اس کے آداب ، اس کی وضاحت، اس کی دیانت، اس کی شرافت، اس کی شائستگی، اس کے تعلقات وغیرہ۔ ہر چیز اس کے ارد گرد اچھی طرح سے فٹ بیٹھتی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں