افغانستان میں طالبان: افغان پائلٹ ادریس مومند جنھوں نے امریکی بلیک ہاک ہیلی کاپٹر طالبان کے حوالے کر دیا
(ڈیلی طالِب)
اس وقت کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی، ط ال ب ان کابل میں داخل ہو رہے تھے، کابل ایئرپورٹ پر ایک بے یقینی کی صورتحال تھی ایسے میں مجھے جو صحیح لگ رہا تھا وہ کر رہا تھا۔
یہ الفاظ اس افغان پائلٹ، ادریس مومند کے ہیں جن کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ ادریس مومند امریکی بلیک ہاک ہیلی کاپٹر اڑا کر کابل سے اپنے شہر کنڑ لے گئے تھے۔
افغانستان میں بدخشاں ایئرپورٹ کے ایک سابق کمانڈر اور پائلٹ نقیب اللہ ہمت نے نامعلوم مقام سے ٹیلیفون پر بتایا کہ جب کابل میں حالات کشیدہ ہوئے تو وہاں موجود سب لوگ پریشان تھے اور کسی کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کیا جائے۔
کابل سے ہیلی کاپٹر افغانستان کے دوسرے شہر کنڑ لے جانے کے بعد ادریس نے ہیلی کاپٹر افغان طالبان کے حکام کے حوالے کر دیا تھا۔
گذشتہ ہفتے افغان طالبان کی جانب سے ایک ٹویٹ سامنے آئی جس میں کہا گیا کہ ’ادریس مومند ایک افغان پائلٹ ہیں۔ کابل کی آزادی کے بعد وہ امریکی بلیک ہاک ہیلی کاپٹر اپنے ساتھ صوبہ کنڑ میں ایک محفوظ مقام پر لے گئے تھے اور اب وہ ہیلی کاپٹر طالبان کو واپس کر دیا گیا ہے۔‘
نقیب اللہ ہمت نے بتایا کہ ’بے یقینی کی صورتحال میں ادریس مومند ہیلی کاپٹر کنڑ لے گئے تھے جس پر انھیں تشویش لاحق تھی کہ کہیں اسے کوئی نقصان نہ پہنچا دے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس پر انھوں نے کنڑ کے ولی سے رابطہ کیا جنھوں نے ادریس مومند کو ڈیڑھ لاکھ افغانی رقم دی اور تین افراد ان کی حفاظت کے لیے بھی بھیجے۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ وہ اپنے ساتھ ہیلی کاپٹر کیسے لے گئے تھے تو انھوں بتایا کہ ’جس وقت حالات خراب ہو رہے تھے اس وقت دیگر پائلٹ بھی اپنے ساتھ طیارے لے گئے تھے۔ ان میں سے بیشتر ازبکستان لے گئے ہیں۔‘
نقیب اللہ ہمت نے بتایا کہ ’کابل میں جب حالات خراب ہوئے تو اس وقت ہر ایک پائلٹ نے کوشش کی کہ وہ خود بھی فرار ہو اور طیارہ بھی ساتھ لے جائے۔ اس دوران کابل ایئرپورٹ کا رن وے بند کر دیا گیا تھا اور تمام طیارے اپنی جگہ تین گھنٹوں تک رکے رہے تھے۔‘
’یہ ایسا وقت تھا کہ ہم لوگ ان طیاروں اور ہیلی کاپٹرز کو بچا سکتے تھے لیکن ایسا نہیں کر سکے۔‘
ان کا کہنا تھا ’ابھی اس بارے میں بات چیت ہو رہی تھی کہ اس وقت ان (ادریس مومند) کی ڈیوٹی لگی اور وہ طیارے میں قندھار اور پنجشیر چلے گئے۔ جب واپس آئے تو بیشتر طیارے لے جائے جا چکے تھے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’ان میں سے بیشتر طیارے ازبکستان لے جائے گئے ہیں۔ کابل میں جو طیارے موجود تھے ان میں روسی ساختہ ہیلی کاپٹر اور بلیک ہاک امریکی ہیلی کاپٹر کھڑے تھے لیکن انھوں نے دیکھا کہ بڑی تعداد میں ان طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کو نقصان پہنچایا گیا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ معلوم نہیں ہے کہ ان طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کو کس نے نقصان پہنچایا ہے، غیر ملکیوں نے یا اپنے ہی شہریوں نے، کیونکہ اس وقت ایئرپورٹ ان کے اختیار میں نہیں تھا۔‘
نقیب اللہ ہمت نے بتایا کہ ’ان میں کچھ طیارے اور ہیلی کاپٹر ایسے ہیں جن کی مرمت ہو سکتی ہے اور کچھ کو اتنا زیادہ نقصان پہنچا ہے جس کی شاید مرمت نہ ہو سکے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اب معلوم نہیں ہے کہ آگے کیا ہو گا کیونکہ بیشتر پائلٹ اور انجینیئر کابل سے جا چکے ہیں، کچھ امریکہ اور دبئی سمیت مختلف ممالک کو چلے گئے ہیں۔‘
نقیب اللہ ہمت نے بتایا کہ ’افغانستان کی ایئر فورس میں 1980 کے بعد سے تقریباً 400 طیارے اور ہیلی کاپٹر تھے اور یہ سب روسی ساختہ تھے ۔ اس کے بعد ملک میں روس کے حملے اور بعد میں خانہ جنگی کی وجہ سے یہ طیارے اور ہیلی کاپٹر ناکارہ ہو گئے تھے یہاں تک کہ 1992 کے بعد ان طیاروں کی اڑان کی صلاحیت نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی اور بیشتر تباہ ہو گئے تھے۔‘
’جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا اور طالبان کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو اس وقت چند ایک ہیلی کاپٹر بچے تھے۔ اتحادی اور نیٹو افواج نے 2007 میں افغانستان ایئر فورس کو فعال کرنے اور جدید طیارے اور ہیلی کاپٹر لانے کا سلسلہ شروع کیا۔‘
نقیب اللہ ہمت کے مطابق ’افغانستان میں 2021 میں کل 183 طیارے اور ملک بھر میں تقریباً 7000 ایئرمین تھے۔ اتحادی افواج نے اس میں مزید اضافہ کرنے کا پروگرام بھی بنایا تھا اور ایئرمین کی تعداد 8000 تک لے جانے کا منصوبہ تھا۔‘
ان کا کہا تھا کہ ’ایسی اطلاعات ہیں کہ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد 46 طیارے جن میں 22 ہیلی کاپٹر شامل ہیں، اس وقت ازبکستان میں موجود ہیں جبکہ فضائی عملہ اپنی پوزیشن چھوڑ چکا ہے جس کی وجہ سے افغان ایئر فورس اس وقت فعال نہیں ہے۔
- About the Author
- Latest Posts
Ghufran Karamat is a Senior Columunts who work With Daily talib