قیامت سے قیامت تک‘ کی کہانی کے لیے باپ بیٹے میں ٹھن گئی .
(ڈیلی طالِب)
بالی وڈ کی کامیاب ترین فلموں میں سے ایک جس کی کہانی بدلنے کے لیے سخت کشمکش ہوئی مگر بالآخر بیٹے کے مقابلے پر باپ کی جیت ہوئی۔
ناصر حسین شروع سے کہتے رہے کہ فلم کے دو مختلف کلائمکس شوٹ کرنا لیکن بیٹے نے باپ کی بات کو سنی ان سنی کر دیا۔
متعدد کامیاب فلموں کے تجربہ کار ہدایت کار ناصر حسین نے’قیامت سے قیامت تک‘ کی کہانی، مکالمے اور سکرین پلے خود لکھے تھے۔ ’زمانے کو دکھانا ہے، ‘ ’منزل منزل‘ اور پھر ’زبردست‘ کی ناکامی نے جیسے انہیں اس نظریے پر مجبور کر دیا تھا اب وقت بدل گیا ہے، ان کی روایتی فلموں اور گھسے پٹے چہروں کی بالی وڈ میں کوئی جگہ نہیں، ا سی لیے انہوں نے بیٹے منصور خان کوبطور ہدایت کار آزمانے کا فیصلہ کیا۔
ناصر حسین کے ذہن کے کسی گوشے میں رومیو اینڈ جولیٹ کی رومانی داستان گھسی ہوئی تھی، جسے بیٹی نزہت خان اور بھتیجے عامر خان کے ساتھ بیٹھ کر انہوں نے ’قیامت سے قیامت تک‘ کی کہانی کو حتمی شکل دے کر اور نکھار دیا۔ فلم کا یہ نام بھی انہی کے ذہن کی پیداوار تھی۔
ہیرو کے لیے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو اپنے ہی بھتیجے عامر خان پر جا پڑی، جو کئی فلموں میں ان کے نائب رہے تھے اور ایک دو ناکام فلموں میں اداکاری بھی کر چکے تھے مگر قدم ابھی جمے نہیں تھے۔ ناصرحسین نے نئے نوجوان ہیروز کی تلاش میں اِدھر ادھر بھٹکنے کے بجائے عامر خان کو ہی ہیرو بنا کر پیش کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ وہی عامر خان تھے جنہوں نے بعد میں اپنی ہیروئن جوہی چاؤلہ کا آڈیشن یہ بتائے بغیر لیا کہ وہ ان کے دراصل ہیرو ہوں گے۔
منصور خان کو فلم کی کہانی سنائی گئی تو انہیں تو یہ پسند آ گئی جنہوں نے باقاعدہ اس پر کام کیا۔ یہ ایک ایسی داستان تھی، جس میں دو گھرانے ایک دوسرے کے خو ن کے پیاسے بن جاتے ہیں، قسمت کا کھیل یہ ہوتا ہے کہ انہی کی ایک نسل پیار کے بندھن میں بنتی ہے تو ایک بار پھر پرانی نفرت اور دشمنی کے زہر میں ہر رشتہ ڈوبنے لگتا ہے۔ ناصر حسین نے فلم کے کلائمکس دو لکھے تھے، ایک میں ہیرو اور ہیروئن کی موت ہوتی ہے تو دوسرے میں روایتی فلموں کی طرح ’ ہیپی اینڈنگ۔‘
اس کے پس پردہ ناصر حسین کا یہ خیال تھا کہ اگر تقسیم کاروں کو ایک کلائمکس پسند نہیں آیا تو وہ دوسرے کا اضافہ کرکے انہیں فلم خریدنے کے لیے قائل کر لیں گے۔
منصور خان کی سوچ والد کے برعکس کچھ تھی۔ ان کا خیال تھا کہ عام طور پر فلموں کا کلائمکس روایتی انداز کا ہی ہوتا ہے، اگر وہ ہیرو اور ہیروئن کی موت دکھاتے ہیں تو اس تخلیق میں اور جان پڑ جائے گی اور نفسیاتی طور پر ہیروئن اور ہیروئن سے ہمدردی اس قدر بڑھے گی کہ بار بار فلم بین سنیما گھروں کا رخ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اسی لیے انہوں نے والد کے اصرار کے باوجود صرف ہیرو اور ہیروئن کی موت کا ہی کلائمکس عکس بند کیا تھا۔
منصور خان اس بات سے بھی بخوبی واقف تھے کہ انہوں نے والد کی مرضی کے برخلاف موسیقاروں کے انتخاب میں بھی اپنی پسند کو اہمیت دی۔ ناصر حسین کی خواہش تھی کہ ان کی گذشتہ فلموں کی طرح دھنوں کے لیے راہل دیو برمن کا انتخاب کیا جائے، لیکن منصور خان نے نئے موسیقار جوڑی آنند ملند کو موقع دیا۔ اسی طرح گلوکاروں میں اڈت نرائن اور الکا یاگنک بھی کم و بیش نئے ہی تھے۔
دراصل منصور خان چاہتے تھے کہ جب ہیرو اور ہیرؤئن نئے ہیں، تو موسیقی کے شعبے میں بھی کچھ ایسے ہی تجربات کیے جائیں۔ البتہ منصور خان نے یہ ضرور کیا تھا کہ والد کی رائے کا احترام کرتے ہوئے نغمہ نگار مجروح سلطان پوری کو برقرار رکھا۔
منصور خان کی فلم جب بن کر تیار ہوئی تو ناصر حسین نے تقسیم کاروں کے لیے کئی ٹرائل رکھے لیکن اب کیا کہیں کہ ہر کسی کو فلم کے ہیرو، ہیروئن، کہانی اور ہدایت کاری تو پسند آتی لیکن کوئی بھی کلائمکس پر متفق نہیں تھا۔ کوئی ایک ماہ کا عرصہ بیت گیا لیکن ایک بھی فلم خرید کر لگانے پر تیار نہ ہوا۔
ناصر حسین کو لگا کہ جو بات ابتدا سے بیٹے کو سمجھا رہے تھے کہ دو کلائمکس عکس بند کرنا، اس کا خدشہ درست ظاہر ہوا۔ گو کہ کہانی ان کی لکھی ہوئی تھی لیکن کلائمکس میں ہیرو اور ہیروئن کی موت اور پھر تقسیم کاروں کی عدم دلچسپی نے انہیں مجبور کیا کہ وہ منصور خان کو کہیں کہ فلم کا اختتام تبدیل کر دیا جائے۔
بات منصور خان تک پہنچی تو انہوں نے بھی فیصلہ کر لیا۔ والد کو صاف صاف کہہ دیا کہ اگر آپ تقسیم کاروں کے مطالبے پر فلم کا کلائمکس تبدیل کرنے جا رہے ہیں تو ’قیامت سے قیامت تک‘ کی ہدایت کاری سے ان کا نام خارج کر دیں۔ منصور خان کا کہنا تھا کہ تبدیل شدہ فلم جو سنیما گھروں کی زینت بنے گی، درحقیقت وہ ان کی فلم نہیں ہو گی۔
نجانے منصور خان کے لہجے میں کہاں کا اعتماد تھا کہ ناصر حسین پل بھر کو ہل سے گئے۔ جبھی انہوں نے بیٹے کے جذبے، جوش اور اعتماد پر یقین رکھتے ہوئے فیصلہ کر لیا کہ اب چاہے کچھ بھی ہو، وہ منصور خان کے ہی کلائمکس کے ساتھ فلم خود ریلیز کریں گے۔ اس اعلان نے جیسے منصور خان ہی نہیں ’قیامت سے قیامت تک‘ کی سٹار کاسٹ میں ایک نئی حرارت بھر دی، جو یہ سوچے بیٹھی تھی کہ اب ان کی فلم کبھی سنیما گھروں تک نہیں پہنچ پائے گی۔
عامر خان اور دیگر ستارے رات میں’قیامت سے قیامت تک‘ کے تشہیری پوسٹر ممبئی کی دیواروں پر لگاتے، کبھی کسی آٹو رکشہ کے پیچھے تو کبھی کسی بس سٹینڈ پر۔ 29 اپریل 1988 کو جب فلم سنیما گھروں کی زینت بنی تو قیامت برپا کر دی۔ گیت ہی نہیں، کہانی اور منصور خان نے تہلکہ مچا دیا۔ عامر خان اور جوہی چاؤلہ راتوں رات سپر سٹارز بن چکے تھے۔
جس کلائمکس پر تقسیم کاروں کو اعتراض تھا، وہی فلم کی شہرت کی وجہ بن گیا۔ اگلے سال ہونے والے فلم فیئر ایوارڈز میں ’قیامت سے قیامت تک‘ کی 11 نامزدگیوں میں سے آٹھ میں اس نے میدان مار لیا۔ ان میں بہترین فلم، ہدایت کار، سکرین پلے، موسیقار اور گلوکار کے علاوہ سنیماٹوگرافر کے ساتھ ساتھ کا ایوارڈبھی شامل تھا جو کسی اور کو نہیں ناصر حسین کو ہی ملا جبکہ عامر اور جوہی کو بہترین نئے چہرے کے ایوارڈز ملے۔
’قیامت سے قیامت تک‘ کی کامیابی کا سفر یہیں تھما نہیں بلکہ بھارت کے قومی ایوارڈز میں بہترین فلم قرار دیا گیا جبکہ عامر خان کو خصوصی ایوارڈ ملا۔
عامر خان اور جوہی چاؤلہ کو ’قیامت سے قیامت تک‘ کے ذریعے ہی فلم نگری میں بلند مقام ملا۔ وہیں دلچسپ بات یہ ہے کہ فلم کی اسی کہانی پر بھارت کی علاقائی زبانوں کے علاوہ نیپال اور بنگلہ دیش میں بھی ری میک بنائے گئے۔
13مارچ 2002 کو دنیا سے رخصت ہونے والے ناصر حسین جب تک حیات رہے، وہ بیٹے منصور خان پر بلاشبہ فخر کرتے اور بعض دفعہ سوچا کرتے کہ اگر وہ تقسیم کاروں کے دباؤ میں آکر فلم کا طے شدہ کلائمکس تبدیل کر دیتے تو نجانے کیا ہوتا۔
- About the Author
- Latest Posts
Ghufran Karamat is a Senior Columunts who work With Daily talib