64

’طالبان کی مدد کا الزام بھارتی پروپیگنڈا ہے، کیا پاکستان نے افغان فوج کو لڑنے سے منع کیا؟‘

’طالبان کی مدد کا الزام بھارتی پروپیگنڈا ہے، کیا پاکستان نے افغان فوج کو لڑنے سے منع کیا؟‘ .

(ڈیلی طالِب)
دوشبنے: وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امن و استحکام کی واحد صورت ایک مشترکہ حکومت ہے۔

روسی ٹی وی کو انٹرویو میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کہا طالبان نے 20 برسوں میں بہت کچھ سیکھا ہے اور وہ تبدیل ہوئے ہیں، افغانستان میں افراتفری اور انسانی بحران سے اس کے تمام ہمسائے متاثر ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں افغان سرزمین سے دہشت گردی کا بھی خطرہ ہے، تین دہشت گرد گروہ پہلے ہی افغان سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کرا رہے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ بھارت پروپیگنڈا کر رہاہے، پاکستان کیسے اس جنگ میں مدد فراہم کر سکتا تھا۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیا پاکستان نے افغان فوج کو لڑنے سے منع کیا تھا؟

وزیراعظم عمران خان نے یہ بھی کہا کہ طالبان حکومت کو تسلیم کیا جانا بہت اہم قدم ہوگا۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ افغانستان تاریخی دو راہے پر کھڑا ہے، اب وہ استحکام کی جانب بڑھے گا یا افراتفری، انسانی بحران اور پناہ گزینوں کا ایسا بڑا مسئلہ پیدا ہوگا جس سے سب ہی ہمسائے متاثر ہوں گے۔

آر ٹی عربی سروس کو دیے گئے انٹرویو میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ دہشتگردی کا خطرہ بھی موجود ہے، طالبان کی کامیابی کے بعد پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا مہم شروع کر دی گئی، افغانستان میں امن و استحکام کی واحد صورت ایک جامع حکومت کی تشکیل ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا سربراہ اجلاس اس لحاظ سے اہم ہے کیونکہ اس میں افغانستان کے تقریباً تمام ہمسایہ ملک شریک ہیں، پورے خطے کیلئے اس وقت افغانستان سب سے اہم موضوع ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان اس وقت ایک تاریخی دوراہے پر کھڑا ہے جو یا تو چالیس سال کی جنگی صورتحال کے بعد استحکام کی طرف بڑھے گا یا پھر یہاں سے غلط سمت میں چلا گیا تو اس سے افراتفری، انسانی بحران، پناہ گزینوں کا ایک بڑا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے، جو ایک بڑے مسئلے کی صورت اختیار کر سکتا ہے جس سے تمام ہمسایہ ممالک متاثر ہوں گے۔

پاکستان کی طرف سے طالبان کی مدد کے الزام پر وزیراعظم کا جواب

پاکستان کی طرف سے طالبان کی مدد کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اگر تصور کر لیا جائے کہ پاکستان نے طالبان کی امریکا کے خلاف مدد کی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پاکستان، امریکا اور تمام یورپی ملکوں سے طاقتور ہے اور یہ کہ پاکستان ایک ہلکے ہتھیاروں سے لیس ملیشیا کے ساتھ جس کی تعدادساٹھ، پینسٹھ، ستر ہزار ہے اور وہ بہترین ہتھیاروں سے لیس تین لاکھ فوجیوں پر مشتمل فوج کو شکست دینے میں کامیاب ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے بدقسمتی سے ہمارے خلاف ایک پروپیگنڈا مہم شروع کی گئی ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ افغان حکومت کی جانب سے اپنی نااہلی، کرپشن اور افغانستان میں مؤثر گورننس نہ کرسکنے کی صلاحیت سے توجہ ہٹانے کیلئے یہ پروپیگنڈا شروع کیا گیا، اس حکومت کو افغانوں کی اکثریت کٹھ پتلی حکومت سمجھتی رہی ہے کیونکہ اس حکومت کی افغانوں کی نظر میں کوئی عزت نہیں تھی۔

تین لاکھ افغان فوج نے لڑائی ہی نہیں کی، کیا پاکستان نے انہیں لڑنے سے منع کیا تھا؟

وزیراعظم نے کہا کہ اس پروپیگنڈے کا دوسرا کردار بھارت ہے جس نے اشرف غنی کی افغان حکومت پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کی۔ یہ پروپیگنڈا ان کی جانب سے جاری ہے مگر اس کی کوئی منطق نہیں ہے، پاکستان کے 22 کروڑ عوام کیلئے پاکستان کا کل بجٹ 50 ارب ڈالر ہے، ہمارا ملک کیسے اس جنگ میں مدد فراہم کر سکتا تھا جو امریکا پر حاوی ہو گئی۔

انہوں نے کہا کہ اس جنگ میں امریکا نے بیس سالوں میں دو ہزار ارب ڈالر سے زائد جھونک دیے۔ یہ محض پراپیگنڈا ہے کیونکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ تین لاکھ افغان فوج نے لڑائی ہی نہیں کی، کیا پاکستان نے انہیں لڑنے سے منع کیا تھا؟

وزیراعظم نے کہا کہ اگر آپ یہ وجوہات جانناچاہتے ہیں کہ کیوں بیس سال بعد طالبان فتح یاب ہوئے اور امریکا کو شکست ہو گئی تو اس کے لیے آپ کو ایک تفصیلی تجزیہ کرنا ہوگا کہ کیوں دنیا کی بہادر ترین اقوام میں سے ایک قوم یعنی افغانوں کی فوج نے بغیر لڑے ہتھیار ڈال دیے۔

’طالبان حکومت کو تسلیم کیے جانے سے متعلق ہمسایہ ممالک سے مل کر کام کررہے ہیں‘

ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان عالمی برادری کا حصہ ہے، افغانستان میں موجودہ طالبان حکومت کو تسلیم کیا جانا بہت اہم قدم ہو گا، ہم افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں، ہم ایک ایسی پالیسی تشکیل دے رہے ہیں کہ افغان حکومت کو کیا کرنا چاہیے کہ ہم سب ان کی حکومت کو تسلیم کرلیں۔

انہوں نے کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ افغانستان میں ایک جامع حکومت قائم ہو کیونکہ افغانستان ایک ایسا ملک ہے جہاں بہت زیادہ تنوع ہے، وہاں پشتون، ازبک اور ہزارہ جیسی قومیں آباد ہیں، افغانستان کے مفاد اور افغانستان میں طویل المدت استحکام کیلئے ہم سب یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہاں ایک شمولیتی حکومت ہونی چاہیے جو افغانستان کو متحد کرے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہم اس حوالے سے یہ مؤقف رکھتے ہیں اور اسی پر افغانستان کے تمام ہمسایوں کے ساتھ بات کرکے کوئی پالیسی تشکیل دیں گے۔

افغانستان میں اقلیتی گروہوں کو نمائندگی دینے سے متعلق سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ طالبان نے ایک ایسی زبردست جدوجہدکی جیسی کہ شاید ہی کسی نے کی ہو کیونکہ بیس سال تک انہوں نے انسانی تاریخ کے مہلک ترین جنگی اسلحے کا مقابلہ کیا ہے۔

ہماری دلچسپی کا محور یہ ہے کہ سعودیہ اور ایران کے درمیان باہمی مفاہمت ہو

پاکستا ن کے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات سے متعلق سوال کے جواب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ایران ہمارا ہمسایہ ملک ہے، ہمسایہ ممالک کے ساتھ جتنا مہذب تعلق ہوگا وہ تجارت اور پورے خطے کے مفاد میں ہوگا، سعودی عرب پاکستان کا قریب ترین اتحادی اور ایک ایسا دوست رہا ہے جس نے ہمیشہ ہر ضرورت کی گھڑی میں ہماری مدد کی ہے، اس لیے ہماری دلچسپی کا محور یہ ہے کہ ان دونوں ممالک کے درمیان باہمی مفاہمت ہو، ان دونو ں ملکوں کے درمیان تنازع نہ صرف پاکستان بلکہ ترقی پذیر ممالک کیلئے بھی ایک تباہ کن امر ہے۔

وزیراعظم نے مزید کہا کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان کسی بھی تنازع کا اثر تیل کی قیمتوں پر پڑے گا کیونکہ پہلے ہی کورونا وبا اور سپلائی کی کمی کی وجہ سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں اور مہنگائی ترقی پذیر ممالک کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں