83

جرمنی نہ جاپان: کون سا ملک دنیا کی بہترین گاڑیاں بنا رہا ہے؟

جرمنی نہ جاپان: کون سا ملک دنیا کی بہترین گاڑیاں بنا رہا ہے؟

(ڈیلی طالِب)
نہ امریکہ نہ جرمنی نہ جاپان، اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ اور سب سے عمدہ گاڑیاں ایک اور ملک بنا رہا ہے۔

پورپ کے باسیوں اور دیگر مغربی قوموں نے ایک صدی سے زائد عرصے تک بہترین گاڑیاں تیار کرنے کے میدان میں راج کیا۔ چاہے یہ ووکس ویگن گاڑی کا دروازہ بند کرنے کی مزے دار آواز کی بات ہو یا اٹلی کی ’فراری‘ کے حسن کا تذکرہ، یہ برانڈز اپنی مثال آپ اور اپنے تیار کرنے والوں کے لیے نہایت منافع بخش رہے ہیں۔

اس کے علاوہ جب ہم مضبوطی کی بات کرتے ہیں تو جرمن اور بعد میں جاپانی سب سے آگے نظر آتے ہیں۔ لیکن اگر یہ کمپنیاں اپنے سابقہ کارناموں پر مطمئن ہو کر بیٹھی رہیں تو بہت جلد ایک بڑی اور حیران کن تبدیلی ان کے سروں پر آن کھڑی ہو گی۔

چین نے برق رفتاری سے ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ یہ مت سمجھیے کہ وہ مستقبل میں زیادہ گاڑیاں بنائیں گے، وہ پہلے ہی دنیا میں سب سے زیادہ گاڑیاں بنانے والا ملک ہے۔ سالانہ سب سے زیادہ کاریں تیار کرنے کی صنعت میں امریکیوں سے آگے نکلے انہیں ایک دہائی سے زائد وقت گزر چکا ہے۔

مگر 2008 میں یہ سنگ میل عبور کرنے کے باوجود ابھی تک چینی گاڑیاں معمولی مغربی گاڑیوں کی نقل کے سوا کچھ نہیں تھیں۔

صرف مقدار ہی نہیں، معیار کے لیے لحاظ سے بھی چین سب سے آگے ہے۔ میرا خیال ہے دنیا میں اس وقت بہترین گاڑیاں چین تیار کر رہا ہے اور وہ اس صنعت میں پر سب پر بالادستی حاصل کرنے کے راستے پر گامزن ہے۔ یہ کیسے ممکن ہو گا اور کیا مغرب اس صنعت میں دوبارہ غلبہ حاصل کر پائے گا؟

بیجنگ کو کیسے برتری حاصل ہے؟
19ویں صدی کے اختتام کے ساتھ ہی گاڑیوں کا بہترین صنعتی مرکز یورپ سے امریکہ منتقل ہو گیا جہاں ڈیٹروئٹ شہر گاڑیاں تیار کرنے کے معاملے میں دنیا کا مرکز بن گیا۔

1980 اور 1990 کی دہائیوں میں جاپان اور جنوبی کوریا کی اڑان کے بعد یورپ ایک بار پھر آگے نکلا جہاں ووکس ویگن اور ٹیونا کے درمیان نمبر ون بننے کے لیے رسہ کشی جاری رہی۔

ہر براعظم اپنا الگ رنگ بکھیرتا چلا گیا، حفاظتی انتظامات کے حوالے سے یورپ، تعداد کے اعتبار سے امریکہ اور سستی گاڑیاں تیار کرنے کے حوالے سے جاپان نے جدت پسندانہ اقدامات اٹھائے۔

مثال کے طور جرمنی کی کمپنی پورشے جب 1990 کی دہائی میں بدترین کاروباری مشکلات کا شکار تھی، اس وقت اسے ٹیوٹا کے مینوفیکچرنگ سسٹم نے بچایا۔

چین نے ان مختلف ادوار میں گاڑیاں تیار کرنے کی اپنی صنعتی صلاحیتوں میں اضافہ کیا۔ اس نے ابتدائی طور پر 1950 کی دہائی میں باقاعدہ اجازت نامے کے تحت روسی ساختہ گاڑیاں بنانا شروع کیں جو مختلف قسم کی خدمات انجام دیتی تھیں (ٹریکٹر، ویگنیں، ایمبولنس وغیرہ)۔

جس کے بعد 1980 کی دہائی میں کہیں جا کر ریاست کی ملکیتی کمپنیاں جنرل موٹرز اور ووکس ویگن کے ساتھ مل کر مشترکہ کوششوں سے ایسی گاڑیاں تیار کرنے کے قابل ہوئیں۔

اس کے نتیجے میں بہت بہتر اور نفیس گاڑیاں تیار ہوئیں اور بہت جلد چین کی سڑکوں پر بھی یورپ کی طرح گاڑیوں کی بھرمار نظر آنے لگی۔

لیکن اگر چین کو دنیا میں گاڑیاں بنانے والا نمبر ون ملک بننا ہے تو اب یہ مزید بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔ گاڑیاں تیار کرنے والے کسی بھی ملک کا مقصد ایسی گاڑیاں تیار کرنا ہوتا ہے جو معیار میں عمدہ، ممکنہ حد تک سستی اور بیک وقت اپنے نظام اور ساخت میں جدت پسندانہ اقدامات کی وجہ سے مالکان کے لیے خوشی کا باعث ہو۔

گاڑی کے معیار کی بات کرتے ہوئے اس میں مضبوطی اور پائیداری کے ساتھ ساتھ کچھ اور چیزیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ تیار ہونے کے بعد وہ کتنی خوبصورت دکھائی دے رہی ہے، گاڑی کے رنگ میں کس حد تک باریک بینی سے کام لیا گیا ہے، اس کے مختلف ٹکڑے کتنی اچھی طرح ہم آہنگی کے ساتھ ایک دوسرے سے جڑتے ہیں اور حتیٰ کہ جیسا ووکس ویگن نے اسے شہرت بخشی کہ جب آپ جب گاڑی کا دروازہ بند کرتے ہیں تو کیسی آواز آتی ہے۔

مضبوطی کے اعتبار سے جاپانی اور کورین گاڑیاں لاجواب ہیں جبکہ بڑے پیمانے پر تیار کردہ جرمنوں کی گاڑیاں خوبصورتی میں لاثانی ہیں اور رولز روئس اور بینٹلے جیسے ناموں کی وجہ سے زیادہ آرام دہ گاڑیاں بنانے میں برطانیہ کا کوئی مقابلہ نہیں (یہ الگ بات کہ یہ دونوں کمپنیاں جرمنوں کی ملکیت ہیں)۔

حالیہ عرصے کے دوران اس فن میں پختگی حاصل کرنے کے بعد چین اب دونوں محاذوں پر دنیا کے لیے خطرہ ہے: کسی بھی نئی قوم کی طرح جو بڑے پیمانے پر گاڑیاں تیار کرنے کا ہنر سیکھتی ہے وہ ان تیکنیکی تجربات اور باقی چیزوں سے فائدہ اٹھاتی ہے جو اس شعبے میں پہلے ہی ہو چکے ہوتے ہیں۔

اس وقت جو ملک اس فن میں نمایاں ہیں انہیں بہت نچلی سطح سے کام شروع کرنا پڑا، بے شمار رقم اور تجربات کرنے کے بعد یہ فوائد ہاتھ آئے۔

اس کی ایک مثال دیکھیے کہ امریکہ میں گاڑیاں تیار کرنے والے کئی کارخانے 1950 کی دہائی میں نصب ہوئے تھے یا اس سے بھی پہلے لگے تھے۔

چین کم قیمت گاڑیاں تیار کرنے کے صحیح مقام پر ہے۔ یہ ایسا ملک ہے جو اب بھی مزدوروں کو یورپ اور امریکہ کے مقابلے پر کم معاوضہ ادا کرتا ہے اور اس کے پاس دسیوں لاکھ باصلاحیت کارکن ہیں جو گاڑیاں تیار کرنے کی مضبوط قومی صنعت میں اپنی صلاحیتیں دکھا رہے ہیں۔

سستی گاڑیاں تیار کرنے کے لیے باصلاحیت کارکن ناگزیر ہیں کیونکہ وہ ایسی گاڑیاں بناتے ہیں جنہیں بہت کم ترامیم یا تبدیلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔

تجارتی راستوں کے حوالے سے بھی چین زبردست مقام پر واقع ہے کیونکہ دنیا کی سب سے بڑی سمندری بندرگاہ شنگھائی میں موجود ہے اور بہت سی فیکٹریاں اس سے نزدیک پڑتی ہیں۔

یہیں پر دنیا کی بڑی فیکٹریوں میں سے ایک یعنی ٹیسلا کی ’گیگا فیکٹری‘ بھی ہے جو روزانہ کی بنیاد پر دوہزار گاڑیاں تیار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ کیوں کہ گاڑی تیار ہو کر سمندری رستے کے ذریعے تھوڑے وقت میں صارفین تک پہنچ جاتی ہے اور تیار کنندگان کو معاوضہ بہت جلد مل جاتا ہے اس لیے یہ خود بخود سستی پڑتی ہے۔

چین کا مختلف اجزا اور پرزوں کی ترسیل کا نظام بھی بہت زبردست ہے جس میں پہلے ہی بہت بڑے پیمانے پر دوسرے ممالک کو گاڑیوں کے پرزے برآمد کرتا ہے۔ یہ سب مل کر اتنی بڑی اقتصادی سرگرمی بنتی ہے جو دنیا میں کہیں اور موجود نہیں اور جسے کسی اور ملک کے لیے دہرانا بھی مشکل نظر آتا ہے۔

چین کے نمبر ون بننے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔

بلاشبہ گذشتہ دہائیوں میں چین کی تیار کردہ کچھ گاڑیاں اپنی ساخت اور کارکردگی ہے حوالے سے مغربی ممالک کے صارفین کی توقعات پر پورا نہ اتر سکیں اس لیے اتنی بڑی تعداد میں نہیں فروخت ہوئیں کہ وہاں کی اسٹیبلشمنٹ کی نیندیں حرام ہو جاتیں۔

اس کے باوجود صورت حال بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔ پولسٹر (جو وولوو کی ملکیت ہے) جیسی نئی کمپنیاں حفاظتی نقطۂ نظر، خوبصورتی، ساخت اور کارکردگی کے اعتبار سے ایسی گاڑیاں تیار کر رہی ہیں جن کا مغرب کے صارفین مطالبہ کرتے ہیں۔

پولسٹر 2 کی الیکڑک سپورٹ یوٹیلیٹی وہیکل (ایس یو وی) کی فروخت کئی بار سویڈن اور ناروے میں ٹیسلا ماڈل 3 سے آگے نکل گئی، اگرچہ بحیثیت مجموعی ٹیسلا 3 فروخت کے اعتبار سے آگے ہے۔

ایسی گاڑیاں جو مغرب اور چین دونوں جگہ پر بن رہی ہیں ان کے موازنے سے بہت ساری باتیں واضح ہوتی ہیں۔ ٹیسلا ماڈل 3 اور ماڈل وائی امریکہ اور چین دونوں جگہ پر الگ الگ تیار کی گئے لیکن یورپی مالکان کے مطابق چین کا ورژن بہتر ہے۔

میں نے سنا ہے کہ ان کے تمام اہم پینل گیپ خوب کسے ہوئے ہیں اور بار بار موٹر مکینک کی دکان کے چکر نہیں لگانے پڑتے۔

پولسٹر اور ٹیسلا دونوں جدید ترین سہولیات سے مالا مال اور مکمل طور پر الیکٹرک گاڑیاں ہیں۔ ان دونوں کے ڈیزائن مغرب میں بنتے ہیں، یہی صورت حال پوری طرح الیکٹرک بی ایم ڈبلیو کے آئی ایکس 3 ماڈل کی ہے جو چین میں تیار کر کے واپس مغرب کو برآمد کر دیا جاتا ہے۔

دیگر چیزوں کے علاؤہ پولسٹر اور ٹیسلا کی طرح آئی ایکس 3 بھی ای وی بیٹریوں کے معاملے میں چین کے برآمدگی کے بہترین نظام کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔

اس سب کے باوجود چین کی ڈیزائن اور تیار کردہ گاڑیاں اپنی ساخت میں اگر برابر نہیں تو پیچھے بھی نہیں اور اب یورپی منڈیوں میں اپنا سکہ رائج کرنا شروع کر دیا ہے۔

ایکس پنگ (Xpeng) ایک نئی چینی کمپنی ہے جو صرف الیکڑک گاڑیاں تیار کر رہی ہے۔ چین میں اچھا ردعمل ملنے کے بعد یہ یورپ کا رخ کر رہی ہے جہاں یہ شروعات ناروے میں اپنے جی 3 ماڈل سے کرے گی۔

پہلے سے موجود اس شعبے کے ماہرین اس گاڑی کے متعلق اچھی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ جبکہ نیو (Nio) الیکٹرک گاڑیاں تیار کرنے والی ایک اور چینی کمپنی ہے جو اس شعبے میں عالمی سطح پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی ہے۔

مکمل طور پر چین کی تیار کردہ گاڑیوں ابھی اپنے ابتدائی دور میں ہیں اور ہمیشہ یہ امکان ہوتا ہے کہ جغرافیائی سیاست کارکردگی کو متاثر کر دے، لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اب چین کی کار انڈسٹری کا راستہ کوئی نہیں روک سکے گا۔

گاڑیوں کی صنعت میں اگلا انقلاب پیٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں کا الیکٹرک گاڑیوں سے تبدیل ہونا ہے۔ یہ سب چین کے مفاد میں ہے اور وہ اس انقلاب کی قیادت کر سکتا ہے اور اس طرح بالآخر دنیا میں بہترین گاڑیاں تیار کرنے کا مرکز بن سکتا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں