64

ارنب گوسوامی کو کابل کے سرینا ہوٹل میں آئی ایس آئی اہلکاروں کی موجودگی کا ’غلط دعویٰ‘ مہنگا پڑ گیا.

ارنب گوسوامی کو کابل کے سرینا ہوٹل میں آئی ایس آئی اہلکاروں کی موجودگی کا ’غلط دعویٰ‘ مہنگا پڑ گیا.

(ڈیلی طالِب)

اگر یہ کہا جائے کہ ارنب گوسوامی انڈیا کے سب سے متنازع ٹی وی اینکر ہیں تو مبالغہ آرائی نہیں ہوگی۔

ریپبلک ٹی وی سے منسلک اینکر پرسن اپنی شعلہ بیانی کے لیے مشہور تو ہیں ہی لیکن اکثر اوقات ان کے شو میں مچنے والا واویلا سوشل میڈیا صارفین کے لیے تنقید و مزاح کا مواد فراہم کرتا ہے۔

حال ہی میں ان کی ایک نئی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں انھیں اپنے ذرائع کی ’غلط‘ خبر پر شرمندگی اٹھانی پڑی۔

یہ واقعہ ہے 15 ستمبر کا، جب ارنب نے اپنے پروگرام ’دی ڈیبیٹ‘ میں دعویٰ کیا کہ ان کے پاس ایک ’ایکسکلوسیو خبر‘ ہے۔

اس شو پر انھوں نے پاکستان کا مؤقف جاننے کے لیے حکمران جماعت تحریک انصاف کے بانی رکن اور ترجمان عبدالصمد یعقوب کو مدعو کر رکھا تھا تاہم انھیں بولنے کا کم ہی موقع ملا۔

ارنب گوسوامی نے اپنے اس پروگرام میں دعویٰ کیا کہ ان کے پاس باوثوق ذرائع سے اطلاعات ہیں کہ پاکستان کی آئی ایس آئی کے اہلکار کابل کے سرینا ہوٹل کی پانچویں منزل پر رکے ہوئے ہیں۔

اس انکشاف کے بعد انھوں نے متعدد بار اپنے دعوؤں کو دھرایا اور پاکستانی مہمان کو زیر تاب لانے کے لیے انھیں چیلنج بھی کیا: ’میرے ذرائع کی فکر نہ کریں۔۔۔ اگر آپ چاہیں تو میں ان کے کمرہ نمبر بھی بتا سکتا ہوں۔۔۔ انھوں نے کھانے میں کیا کھایا، یہ بھی بتا سکتا ہوں۔‘

اس روز تو بات آئی گئی ہو گئی، تاہم اگلے پروگرام پر عبدالصمد یعقوب واپس آئے اور ارنب کے دعوؤں کو دہرایا۔ ’آپ نے یہی کہا تھا نہ کہ آئی ایس آئئ کے اہلکار سرینا ہوٹل کی پانچویں منزل پر رکے ہیں؟ میرے ذرائع کے مطابق کابل کے سرینا ہوٹل کی صرف دو منزلیں ہیں۔ تیسری، چوتھی اور پانچویں منزل ہیں ہی نہیں۔‘

یہ سن کر ایک لمحے کے لیے ارنب کا رنگ ماند پڑا اور چہرے پر شکن نمودار ہوئی۔ پھر ان کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آئی اور انھوں نے بات ٹالنے کی کوشش کی۔

لیکن جو ہونا تھا وہ ہو چکا تھا اور ان دونوں پروگراموں سے لیے گئے ویڈیو کلپ جنگل کی آگ کی طرح سوشل میڈیا پر پھیلے۔

کہتے ہیں کہ صحافی کی قابلیت کا دارومدار اپنے ذرائع پر ہوتا ہے، جس کے ذرائع زیادہ قابل اعتماد ہوں وہ ہی کامیاب صحافی بن سکتا ہے۔

تاہم اس بار ایسے لگتا ہے کہ ارنب کے ذرائع نے انھیں دھوکہ دے دیا۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ ارنب گوسوامی کی شوخی، بے ربط شور شرابا اور جانبدار کوریج ہی اصل خطرہ ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ ان کے ٹی وی چینل کے ناظرین کو غلط اطلاعات، تفرقہ بازی، اشتعال انگیر نظریات پہنچنے کے ساتھ ساتھ ہندو قوم پرست جماعت بے جے پی کا پروپیگنڈا پہنچایا جا رہا ہے۔ مگر اب بھی بہت سے صارفین کے خیال میں ارنب ہنسی اور قہقوں کا بڑا سبب ہیں۔

سوشل میڈیا پر ردعمل

اگرچہ یہ غلطی ارنب سے زیادہ ان کے کسی پروڈیوسر یا نامہ نگار کی تھی جس نے اپنے باس کو معلومات دینے سے قبل ان کی تصدیق نہیں کی تھی تاہم سوشل میڈیا پر صارفین نے ارنب کو شرمندہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا اور کئی دلچسپ اور مزاحیہ تبصرے دیکھنے کو ملے۔

عاطف متین نامی صارف نے تو ارنب کو مشکل سے نکالنے کے لیے فوری طور پر یہ نوید سنائی کہ ارنب کے دعوے کے بعد سرینا ہوٹل نے پانچویں منزل کی تعمیر بھی شروع کر دی ہے۔

مگر جنھیں ارنب کی فکر ہے وہ کسی بھی طور ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں اور ان کے دعوے کو ہر صورت سچ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

ایک صارف نے تو ہوٹل سے قدرے اوپر تیسری اور چوتھی منزل کی پرواہ کیے بغیر ہوا میں ہی پانچویں منزل تعمیر کر کے ارنب کے ناقدین کو منھ توڑ جواب دینے کی کوشش کی اور ارنب کو یہ بھی بتایا کہ ’یہ رہا آئی ایس آئی کا پانچواں فلور۔‘

ایک صارف طلعت کاشف نے اموجی کے ساتھ اپنی بات کی وضاحت کچھ یوں کی کہ ’ہر کوئی ارنب اور اس کے انٹیلیجنس ذرائع پر ہنس رہا ہے مگر میں اس کے لہجے کی وجہ سے ہنسی نہیں روک پا رہی ہوں۔‘

علی رضا محفوظ نامی صارف نے بالی وڈ کی فلم ’گینگز آف واسے پور‘ سے انڈین اداکار نوازالدین صدیقی کی وہ تصویر شیئر کی جس میں وہ سگار سلگا کر اس کے نشے میں دھت رہنا پسند کرتے ہیں اور کچھ سننا پسند نہیں کرتے۔ اس تصویر کے ساتھ علی رضا نے کہا کہ ’یہ انٹیلیجنس ذرائع ہیں ارنب گوسوامی کے۔‘

ارنب کا دفاع کرنے والے بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے اور حالات جیسے بھی ہوں، وہ اپنے پسندیدہ اینکر سے محبت کا اظہار کرنا نہیں بھولتے۔

ہمت وردانی نامی صارف نے اس ٹرینڈ پر ضرور حصہ لیا مگر صرف ارنب کو ٹی آر پی کیس سے بری ہونے پر مبارکباد دی اور ان کے نئے دعوے کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں کیا۔

اس مشکل صورتحال میں ادتے نامی صارف نے اور تو کچھ نہیں کہا سوائے ارنب کے ساتھ اپنی محبت کے اظہار کے۔ وہ ارنب کی مسکراہٹ کو اپنا سب کچھ قرار دینے پر تلے ہوئے نظر آتے ہیں۔

ارنب کا متنازع اور جھگڑالو انداز
ارنب گوسوامی یقینی طور پر اس طرح کی کوریج کو اپنانے والے پہلے شخص نہیں ہیں لیکن انھوں نے اس میں پہلے سے کہیں زیادہ غصیلہ اور جارحانہ انداز اپنایا ہے۔ ان کا سخت لہجہ اکثر انڈین معاشرے میں حساس مذہبی تفریق پیدا کرتا ہے۔

مثال کے طور پر گذشتہ برس اپریل میں انھوں نے غلط طور پر ایک مسلم تبلیغی جماعت پر کورونا لاک ڈاؤن کے احکامات کو پامال کرنے کا الزام عائد کیا تھا اور انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی سے مطالبہ کیا تھا کہ ‘اس جماعت کے رہنماؤں کو جیلوں میں ڈال دیا جائے۔’

انڈیا میں کورونا وبا کے ابتدائی دنوں میں اس تبلیغی گروہ نے دہلی میں ایک اجتماع کیا تھا جس کے بعد ملک بھر میں ایک ہزار کورونا متاثرین کا تعلق اس اجتماع سے جوڑا گیا تھا۔ جبکہ اس اجتماع کے منتظمین کا اصرار تھا کہ اس اجتماع کا انعقاد حکومت کے لاک ڈاؤن نافذ کرنے سے قبل کیا گیا تھا۔ انڈیا کی بہت سی عدالتوں نے بھی اس دعوی کو تسلیم کیا ہے۔

لیکن ریپبلک ٹی وی سمیت دیگر بہت سے ٹی چینلز کی جانب سے اس متعلق غلط خبریں اور پروگرام نشر کیے جانے کے باعث انڈیا کے سوشل میڈیا پر اسلاموفوبیا کے متعلق ردعمل کو ہوا ملی۔

ارنب گوسوامی نے اپنے جھگڑالو انداز میں کیے پروگراموں میں سے ایک میں کہا تھا ‘ آپ کو چاہے اچھا لگے یا برا لیکن آج (کورونا کے وبا) جن مشکل حالات سے یہ قوم گزر رہی ہے اگر اس کا کوئی ایک مجرم یا قصوار وار ہے تو وہ تبلیغی جماعت ہے۔’

اس کے بعد جولائی میں ریپبلک ٹی وی نے اپنی توجہ بالی وڈ اداکار سشانت سنگھ کی موت پر مرکوز کر لی، پولیس نے ان کی موت کو خودکشی قرار دیا تھا۔ لیکن سشانت سنگھ کے اہلخانہ نے ان کی گرل فرینڈ ریا چکرورتی کے خلاف پولیس کو درخواست دے دی جس میں انھوں نے ریا چکرورتی پر سشانت سنگھ کو خودکشی کی ترغیب دینے کا الزام عائد کیا۔

تاہم ریا چکرورتی نے ان الزامات کی تردید کی ہے لیکن ان الزامات نے انڈین میڈیا پر ایک زن بیزار اور سخت نفرت آمیز کوریج کی لہر کو جنم دیا۔ ریپبلک ٹی وی نے سشانت سنگھ کو خودکشی پر ترغیب دینے کے الزامات پر ریا چکرورتی کے خلاف ایک مہم چلاتے ہوئے انھیں گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا اور ٹی وی سکرین پر ‘اریسٹ ریا ناؤ’ یعنی ‘ریا کو فوراً گرفتار کرو’ کے ہیش ٹیگ بھی چلائے۔

ارنب گوسوامی کون ہیں؟

ارنب گوسوامی انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد فوج میں آفسر تھے۔ انھوں نے دہلی یونیورسٹی سے گریجوئیشن مکمل کی اور ماسٹرز کے لیے برطانیہ کی اکسفورڈ یونیورسٹی کے لیے سکالرشپ حاصل کی۔

انھوں نے اپنے صحافتی کیرئیر کا آغاز کولکتہ (سابقہ کلکتہ) کے روزنامہ دی ٹیلی گراف اخبار سے کیا۔ بعدازاں انھوں نے انڈیا کے پہلے نجی نیوز چینلز میں سے ایک این ڈی ٹی وی میں ملازمت اختیار کر لی۔ ان کے پرانے ساتھی انھیں ایک متوازن اینکر کے طور پر یاد کرتے ہیں جو اچھے انداز میں مباحثہ کرواتے تھے۔

وہ جو آج سکرین پر ہیں، اس سلسلے کی شروعات سنہ 2006 میں ہوئی جب انھوں نے ٹائمز ناؤ چینل میں شمولیت اختیار کی جس نے انھیں اپنے سب سے مرکزی چہرے کے طور پر پیش کیا۔

انھوں نے اس وقت انڈیا کے متوسط طبقے کی نبض پر ہاتھ رکھا جو اس وقت کی حکمران جماعت کانگرس پر ممبئی حملوں میں سکیورٹی ناکامیوں اور کرپشن سکینڈلز پر سخت نالاں تھی۔ وہ بہت جلد ہی انڈیا کے ہر گھر میں مقبول ہو گئے۔

ارنب گوسوامی سنہ 2017 میں ریپبلک ٹی وی نیٹ ورک کی بنیاد رکھنے کے بعد مزید سخت اور جانبدار بن گئے۔ سنہ 2019 میں انھوں نے ہندی زبان میں بھی ایک چینل لانچ کیا اور اپنے مقبولیت کو شہروں سے دیہاتوں تک بڑھا دیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں