70

افغانستان اور ایران: ’پاکستان سے دوریاں لیکن انڈیا سے قربتیں‘، افغانستان کے معاملے پر تہران کہاں کھڑا ہے؟

افغانستان اور ایران: ’پاکستان سے دوریاں لیکن انڈیا سے قربتیں‘، افغانستان کے معاملے پر تہران کہاں کھڑا ہے؟

(ڈیلی طالِب)
چند ہفتوں قبل جب طالبان نے ملک میں مزاحمت کے آخری قلعے پنجشیر پر فیصلہ کن کارروائی کا آغاز کیا تو افغانستان کے ایک ہمسایہ ملک کی جانب سے ایک غیر متوقع بیان سامنے آیا۔

طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد سے افغانستان کے حلقوں میں موجود پاکستان مخالف جذبات کھل کر سامنے آنے لگے اور پنجشیر میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔

مزاحمتی رہنماؤں کے غیر مصدقہ دعوؤں پر مبنی انڈین میڈیا کی ایک خبر میں الزام لگایا گیا کہ پاکستانی ڈرون پنجشیر میں مزاحمت کاروں پر حملے کر رہے ہیں۔

یہ خبر دنیا کے کئی میڈیا چینلز پر چلائی گئی تاہم پاکستانی فوج نے اس کی تردید کی اور کہا کہ ایسا ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ ’پاکستانی افواج کے پاس طویل فاصلے تک مار کرنے والی ڈرون ٹیکنالوجی نہیں ہے۔‘

اسی خبر کو بنیاد بناتے ہوئے ایرانی اخبار تہران ٹائمز نے بھی دعوی کیا کہ پنجشیر میں پاکستانی فوجی اسلحہ طالبان کی حمایت میں استعمال ہو رہا ہے۔

اس کے بعد ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے افغانستان کے صوبے پنجشیر میں طالبان مخالف مزاحمتی اتحاد پر مبینہ فضائی حملوں کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان حملوں کی اور ان میں ‘غیر ملکی مداخلت’ کی شدید مذمت کرتے ہیں۔

پاکستان کا نام لیے بغیر سعید خطیب زادہ نے کہا ‘افغانستان کی تاریخ یہ ظاہر کرتی ہے کہ براہ راست اور بالواسطہ نوعیت کی کوئی مداخلت ان جارحیت کرنے والوں کی شکست پر ختم ہوتی ہے اور افغان عوام اپنی آزادی کے خواہاں ہیں اور یہاں کی جانے والی کوئی بھی مداخلت یقینی طور پر ناکام ہو گی۔’

پھر چند ہی روز بعد اعلان ہوا کہ ایرانی وزیر خارجہ اگلے ماہ انڈیا کا دورہ کریں گے۔

واضح رہے کہ انڈیا کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو افغانستان میں طالبان کے قبضے سے شدید متاثر ہوئے ہیں اور وہ طالبان کی کھلم کھلا مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔

دوسری جانب پاکستان کی آئی ایس آئی کے سربراہ کے دورہ کابل سے اس سوچ کو بھی تقویت ملی ہے کہ پاکستانی فوج کا طالبان پر اثر و رسوخ برقرار ہے۔

لیکن آخر ایسا کیا ہوا ہے جس کی وجہ سے تہران کا نئی دہلی کی جانب جھکاؤ بڑھتا جا رہا ہے اور دونوں افغانستان کے معاملے پر ایک ہی زبان بولنے لگے ہیں۔

یاد رہے کہ ستمبر کی پانچ تاریخ کو، جب ایرانی وزیر خارجہ نے پاکستان کا نام لیے بغیر اس پر افغانستان میں مداخلت کا الزام لگایا، پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے مشرق وسطی کے تین اہم ترین ممالک، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کی قیادت سے ٹیلی فونک رابطے قائم کیے اور افغانستان میں طالبان کی حکومت اور خطے کی صورتحال پر گفتگو کی۔

تعجب کی بات یہ تھی کہ افغانستان کا ہمسایہ ملک ایران اس فہرست میں شامل نہیں تھا۔

ایسے نازک وقت میں جب پاکستان دیگر ساتھی مسلم ممالک سے افغانستان میں مشترکہ حکومت اور معاشی مدد کے حوالے سے بات چیت کر رہا ہے اور پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اگست کے آخر میں ایران کا بھی دورہ کیا اور ستمبر کے پہلے ہفتے میں دوبارہ اپنے ایرانی ہم منصب سے فون پر بات کی۔

اس کے باوجود ایران ایسے وقت میں انڈین میڈیا پر چلنے والی غیر مصدقہ خبروں کا باضابطہ، سرکاری طور پر حوالہ دیتے ہوئے پاکستان مخالف بیانات دے رہا ہے۔

ایران اور پاکستان کے درمیان افغانستان کے معاملے پر دوریوں کی وجہ کیا ہے؟

اس صورتحال کو سمجھنے کے لیے ضروری یہ ہے کہ گذشتہ چند ہفتوں میں ہونے والے واقعات پر نظر دوڑائی جائے۔

جب 15 اگست کو افغان صدر ملک چھوڑ کر چلے گئے اور کابل پر طالبان نے بغیر کوئی گولی چلائے قبضہ کر لیا تھا، اس موقع پر ایران کی حکومت نے بظاہر ایک غیر جانبدار موقف اختیار کیا لیکن جب آہستہ آہستہ نئی افغان حکومت میں کابینہ کے اراکین کے ناموں پر بات چیت شروع ہوئی تو ایران نے اس بات پر مسلسل زور دیا کہ حکومت سازی میں خواتین اور ہزارہ شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والوں کو جگہ دی جائے۔

تاہم جب سات ستمبر کو طالبان نے اپنی قائم مقام کابینہ کا اعلان کیا تو اس 33 رکنی کابینہ میں نہ کوئی ہزارہ برادری کا فرد تھا اور نہ ہی خواتین، اور اس سے بھی بڑھ کر ایران کو سب سے بڑا دھچکہ اس صورت میں لگا جب وہ طالبان رہنما، جیسے قیوم ذاکر، داؤد مزمل، صدر ابراہیم وغیرہ جن کے بارے میں سمجھا جاتا تھا کہ وہ ایران کے قریب ہیں، انھیں بھی اس کابینہ میں کوئی جگہ نہ مل سکی۔

اور اسی بنا پر چند ماہرین کا سمجھنا ہے کہ ایران کو لگتا ہے کہ پاکستان نے طالبان پر اپنے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے ایران نواز طالبان رہنماؤں کو طاقت کے سرچشمہ سے دور رکھا ہے تاکہ نئی افغان حکومت میں ایرانی کردار کو کم سے کم رکھا جائے۔

دوسری جانب ایران کے حکومتی حلقوں میں اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ طالبان کے پہلے دور حکومت کے دوران مخالفت اور ہزارہ شیعہ برادری کی اس بار کی کابینہ میں نمائندگی نہ ہونے کے باوجود افغان طالبان سے تعلقات رکھنا ضروری ہے۔

اگست 1998 میں ایرانی سفارت خانے پر حملہ

یہاں یہ ذکر کرنا نہایت ضروری ہو گا کہ طالبان کے پہلے دور حکومت کے دوران اگست 1998 میں مزار شریف میں شمالی اتحاد اور طالبان حکومت کے مابین جاری جھڑپوں کے دوران وہاں موجود ایرانی سفارت خانے پر ایک حملے میں کم از کم 11 ایرانی سفارت کاروں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔

اس واقعے کے بعد ایران نے افغانستان پر جنگ مسلط کرنے کی دھمکی بھی دی تھی اور بڑی تعداد میں فوجی دستے سرحد پر متعین کر دیے تھے۔

اس کے بعد ایران نے انڈیا اور روس کے ساتھ مل کر شمالی اتحاد کا پوری طرح ساتھ بھی دیا تھا اور پھر نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکہ کو طالبان کے بارے میں معلومات بھی فراہم کی تھیں۔

واشنگٹن ڈی سی میں تھنک ٹینک نیو لائنز انسٹٹیوٹ فار سٹریٹجی اینڈ پالیسی کے ڈائریکٹر کامران بخاری نے اس حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ایران کی جانب سے امریکہ کی مدد کرنے کا فیصلہ اس نکتے پر تھا کہ شاید اس کے باعث ایران پر عائد پابندیاں ہٹ جائیں گی لیکن یہ نہ ہوا اور 2005 کے بعد سے ایران نے طالبان سے روابط قائم کرنے شروع کر دیے۔

‘ایرانی حکمت عملی دو نکات پر مبنی تھی۔ قلیل مدتی حکمت عملی تھی کہ امریکہ کو نقصان پہنچایا جائے۔ اور طویل مدتی طور پر یہ کہ جب امریکہ خطے سے چلا جائے گا تو طالبان کے پاس صرف پاکستان کا آپشن نہیں ہو گا بلکہ ایران کا بھی ہو گا، کیونکہ وہ پاکستان کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا اتحادی سمجھتے ہیں۔’

کامران بخاری کے مطابق ایران غالباً پاکستان کو براہ راست ایک خطرہ نہیں سمجھتا لیکن اسے لگتا ہے کہ وہ ان دونوں ممالک کے اتنا قریب ہے کہ وہ یقیناً ان کے کہنے پر ایران کے خلاف کام کرے گا۔

’پنجشیر کا معاملہ اتنا بڑا نہیں جتنا بنایا جا رہا ہے‘

جب ایران میں متعین رہنے والے سابق پاکستانی سفیر آصف درانی سے ایران کی وزارت خارجہ کے بیان کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ کہ پنجشیر کا معاملہ اتنا گھمبیر نہیں ہے جتنا بنایا جا رہا ہے۔

‘پنجشیر کوئی اتنا بڑا مسئلہ ہے نہیں اور لوگ سمجھتے ہیں اس بات کو۔ ایک طرف پورا ملک قبضہ کر لیا طالبان نے لیکن ایران خاموش رہا، اور پنجشیر پر شور مچ رہا ہے؟ یہ رد عمل صرف ملک میں مخصوص حلقے کے لیے دکھایا جا رہا ہے۔’

عمران خان کی جانب سے ایران سے رابطے قائم نہ کرنے کے بارے میں سوال پر آصف درانی نے کہا کہ پاکستان نے حالیہ دنوں میں متعدد بار ایران سے مختلف پلیٹ فارمز پر گفتگو کی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر ایران کو پاکستان سے شکایت ہوتی، تو نہ وہ خطے کے مختلف ممالک کے وزرائے خارجہ کے ورچوئل اجلاس میں شرکت کرتا اور نہ ہی مختلف ممالک کے انٹیلیجنس سربراہان کے اجلاس میں ہوتا۔

‘اگر ایسا ہی تھا تو پھر ایرانی صدر دوشنبے میں عمران خان سے کیوں ملے، اور ان سے پنجشیر کے معاملے پر کیوں بات نہیں کی؟’

سابق سفیر آصف درانی کے مطابق ماضی میں ایران یقیناً طالبان کے خلاف تھا لیکن 2005 کے بعد سے روابط قائم کر لیے تھے اور اب معاملات تبدیل ہو چکے ہیں۔

‘اب پہلے والا وقت نہیں ہے۔ امریکہ کے جانے کے بعد افغانستان کے پڑوسی ممالک ایک صفحے پر ہیں۔’

تو افغانستان میں طالبان کی موجودگی میں پاکستان اور ایران کی حکمت عملی کیسے ایک دوسرے سے مختلف ہو گی۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے کامران بخاری نے کہا کہ ایران پاکستان کے درمیان مرکزی فرق ان کی ’مربوط حکمت عملی‘ یعنی سٹریٹجک اور ’حکمت عملی پورا کرنے کے اقدامات‘ یعنی ٹیکٹکس کے حوالے سے ہے۔

’ایران بڑا حقیقت پسند ملک ہے۔ وہ چیزوں کو طویل مدتی حکمت عملی کی نظر سے پرکھتا ہے اور اس حوالے سے فیصلے کرتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی سوچ یہ ہے کہ بس ایک حکمت عملی بن گئی ہے تو وہ جیسے پتھر پر لکیر کی مانند ہے اور کچھ بھی ہو جائے اسی پر کاربند رہنا ہے۔‘

کامران بخاری نے پاکستان کی جانب سے افغانستان میں ‘سٹریٹجک ڈیپتھ’ کی حکمت عملی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے افغانستان میں سٹریٹجک ڈیپتھ حاصل تو شاید کر لی لیکن کس قیمت پر۔‘

انھوں نے کہا کہ ‘اس حکمت عملی نے صرف ہمیں ہی نقصان پہنچایا ہے۔ اور وہ اس لیے کہ ہم نے جن پراکسیز پر بھروسہ کیا انھوں نے پلٹ کر ہماری ہی شناخت اور ریاست کو چیلنج کیا۔

’جبکہ ایرانی پراکسی بنانے اور ان سے تعلقات نبھانے کے ماہر ہیں اور مشرق وسطی اور جہاں جہاں ان کی پراکسیز ہیں، ایک نے بھی پلٹ کر ان سے غداری نہیں کی۔‘

افغانستان کے پسِ منظر میں ایران اور انڈیا کے روابط
تو جہاں ایک جانب پاکستان اور ایران کے تعلقات پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، وہیں دوسری جانب اس حوالے سے خطے کا ایک اور اہم ملک انڈیا مستقبل کے لیے ایران سے اپنے روابط کو مزید پختہ کرنے کے لیے اقدامات اٹھا رہا ہے۔

ایران کے نئے صدر ابراہیم رئیسی کی تقریب حلف برداری میں انڈین وزیر خارجہ کی شرکت سے لے کر اس ماہ ایرانی وزیر خارجہ کے انڈیا کے متوقع دورے تک یہ نظر آ رہا ہے کہ انڈیا اور ایران افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد مشاورت میں اضافہ کر رہے ہیں۔

اور اس کی شاید ایک بڑی وجہ انڈیا کی جانب سے افغانستان کی پچھلی حکومت کو نہ صرف بڑی امداد دینا ہے بلکہ ملک میں تین سے چار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا بھی ہے، جو کہ اب طالبان کی آمد کے بعد انڈیا کو ضائع ہوتی نظر آ رہی ہے۔

جب سابق سفیر آصف درانی سے انڈیا کی بابت سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ انڈیا صرف رائی کا پہاڑ بنانا چاہتا ہے۔

‘ان کو بس چیزوں کو بڑا دکھانے کا شوق ہے اور یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے۔ انڈیا افغانستان میں بلاشبہ اوچھا کردار ادا کر رہا تھا۔ ہم نے کبھی بھی افغانستان کی سرزمین کو انڈیا کے خلاف استعمال نہیں کیا جبکہ انڈیا نے بالکل ایسا کیا۔’

انڈین دفاعی امور کے ماہر اور ‘سوسائٹی فار پالیسی سٹڈیز’ کے ڈائریکٹر ادے بھاسکر س کا کہنا تھا کہ ’انڈیا نے افغان طالبان تک اپنی مایوسی کا پیغام پہنچا دیا ہے کہ وہ طالبان کی جانب سے خواتین کی تعلیم پر روک تھام اور اس نوعیت کے اقدامات لیں گے تو ان سے بات چیت کرنا آسان نہیں ہو گا، اور ساتھ ساتھ طالبان کے اندرونی اختلافات بھی حالات کو پیچیدہ کر دیں گے۔‘

نیولائنز کے ڈائریکٹر کامران بخاری بھی کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں انڈیا کی پوزیشن کمزور ہے۔

‘انڈیا نے وہاں بہت سرمایہ کاری کی ہے لیکن اس وقت وہاں امریکہ تھا اور انڈیا کو سکیورٹی کے اعتبار سے کوئی پریشانی نہیں تھی۔ لیکن اب معاملات تبدیل ہو گئے ہیں اور انڈیا دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت پیچھے ہے اس لیے وہ ایران پر اتنا انحصار کر رہا ہے تاکہ وہ افغانستان کے معاملات میں شامل ہو سکے، اور ایسا پہلی بار نہیں ہو گا۔

افغانستان کے معاملے پر ایران، پاکستان اور انڈیا ایک صفحے پر آ سکتے ہیں؟
تو کیا مستقبل میں کوئی امید کی کرن ہے جس میں پاکستان، ایران اور انڈیا افغانستان کے معاملے پر ایک ساتھ مل بیٹھ سکیں؟

سابق سفیر آصف درانی نے بتایا کہ وہ یہ نہیں کہیں گی کہ یہ ممکن نہیں ہے، لیکن ایسا صرف اس وقت ممکن ہو سکے گا جب پاکستان اور انڈیا کے آپس کے تعلقات میں بہتری آئے اور صرف اس کے بعد ہی دیگر مسائل پر بات کی جا سکے گی۔

ادھر ادے بھاسکر کا اس بارے میں کہنا تھا کہ تمام غیر ملکی ثالث یقیناً یہ چاہیں گے کہ افغانستان میں دہشت گردی نہ ہو اور وہ ایک غیر جانب دار ملک بن کر سامنے آئے لیکن انھیں نہیں لگتا کہ یہ اس وقت ہو سکے گا۔

کامران بخاری نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ وہ اس امید کو ناممکن نہیں کہیں گے لیکن ایسا ہونا فی الوقت انھیں ممکن نظر نہیں آتا۔

‘سب سے پہلی بات تو یہ کہ پاکستان انڈیا کو اس معاملے میں شامل ہی نہیں کرنا چاہے گا۔ پھر یہ کہ انڈیا کے پاس اپنی منوانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔

’تیسرا یہ کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ایران کو اس معاملے میں پڑنے سے روکنا چاہتے ہیں۔ اور آخری بات یہ کہ ایران ایسی خواہش رکھنے کے باوجود پاکستان پر اعتماد نہیں کرتا، اور اسی لیے یہ دونوں ممالک ابھی تک ساتھ مشاورت نہیں کر سکے ہیں۔‘

50% LikesVS
50% Dislikes

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں