اسد الدین اویسی کی رہائش پر توڑ پھوڑ: ‘اگر ایک مسلمان رکنِ پارلیمان کا گھر محفوظ نہیں ہے تو کون محفوظ ہے؟‘
انڈیا میں حیدرآباد سے رکن پارلیمان اور مسلمانوں کے نامور رہنما اسدالدین اویسی کی دارالحکومت دہلی میں واقع رہائش گاہ پر کچھ شرپسند ہندوؤں نے ہنگامہ کیا اور توڑ پھوڑ کی جس کے بعد سوشل میڈیا پر سوال پوچھا جا رہا کہ اگر ایک مسلمان ایم پی کا گھر محفوظ نہیں ہے تو کون محفوظ ہے؟
اس سلسلے میں پانچ افراد کو حر است میں لیا گیا ہے اور ان سے تفتیش کی جا رہی ہے۔
خبررساں ادارے کے مطابق یہ واقعہ منگل کی شام آل انڈیا اتحادالمسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی کے اشوک روڈ پر واقع رہائش گاہ پر پیش آیا۔
خبر کے مطابق پولیس نے ہندو سینا کے پانچ اراکین کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔
جبکہ اسدالدین اویسی نے کہا ہے کہ ان لوگوں کو ریڈیکلائز کرنے کی ذمہ دار بھارتیہ جنتا پارٹی ہے۔
انہوں نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘لوگوں کو ریڈیکلائز کرنے کے لیے بی جے پی کو ذمہ دار ٹھہرانا چاہیے۔ اگر ایک ایم پی کے گھر پر اس طرح توڑ پھوڑ ہوتی ہے تو اس سے کیا پیغام جاتا ہے؟’
اس کے بعد اے آئی ایم آئی ایم کے کارکنوں نے دہلی پولیس کے دفتر پر مظاہرہ کیا اور مجرموں کو جیل بھیجنے کا مطالبہ کرتے رہے۔
انڈین رپورٹ کے مطابق انتہائی سکیورٹی والے علاقے میں ہندو سینا کے کارکنون نے اسدالدین اویسی کے سرکاری گھر پر توڑ پھوڑ کی، ان کے نام کی تختی کو توڑ دیا، دروازے اور کھڑکیوں کو نقصان پہنچایا اور گھر میں کلہاڑی پھینکی اور انھیں ’جہادی‘ کہا۔
نئی دہلی کے ڈی سی پی دیپک یادو نے بتایا کہ پانچ افراد کو موقع سے گرفتار کیا گیا ہے۔ اور ان سے تفتیش کی جا رہی ہے ان کا تعلق شمال مشرقی دہلی کے منڈولی علاقے سے ہے۔
واضح رہے کہ شمالی مشرقی دہلی وہی علاقہ ہے جہاں سنہ 2020 کے اوئل میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے اور درجنوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
دی نیوز منٹ کی نائب مدیر پوجا پرسننا نے لکھا ’اسدالدین اویسی کی دہلی میں رہائش گاہ پر مبینہ طور پر ہندو سینا نے حملہ کیا۔ ان کے صدر للت کمار نے کہا کہ وہ اسدالدین اویسی کو ’اپنی ریلیوں میں ہندوؤں کے خلاف بولنے‘ کے لیے سبق سکھانا چاہتے تھے۔ قومی دارالحکومت میں ایک ایم پی کے گھر پر حملہ۔ اب ہم یہاں پہنچ گئے ہیں۔’
سلیم سارنگ نامی ایک ٹوئٹر صارف نے لکھا: ’عام انتخابات سے قبل پلوامہ حملہ، اتر پردیش کے انتخابات سے قبل اویسی کے گھر پر حملہ۔ کیا یہ محض اتفاق ہے یا پھر مسلم ووٹرز کو گمراہ کرنے کی دانستہ سازش؟’
جبکہ عام آدمی پارٹی کے رہنما نے لکھا ہے کہ ’اترپردیش میں انتخابات سے قبل اب مشہور اسلامی سکالر مولانا کلیم صدیقی صاحب کو گرفتار کیا گیا ہے۔ مسلمانوں پر ظلم بڑھتا جا رہا ہے۔ ان معاملوں پر سیکولر پارٹیوں کی خاموشی بی جے پی کو اور مضبوطی فراہم کر رہی ہے۔ یو پی انتخابات کے لیے آخر بی جے پی کتنا گرے گی؟’
اسدالدین اویسی نے بھی ٹوئٹر پر یکے بعد دیگرے اس واقعے کی تفصیلات شیئر کیں۔ انہوں نے ہندی اور انگریزی دونوں زبانوں میں ٹوئٹس کیں۔ انہوں نے لکھا: ’آج کچھ انتہاپسند غنڈوں نے میرے دلی کے مکان پر توڑ پھوڑ کی۔ ان کی بزدلی کے چرچے تو ویسے ہی عام ہیں۔ ہمیشہ کی طرح، ان کی بہادری صرف بھیڑ میں ہی دکھائی دیتی ہے۔ ایسے وقت کا انتخاب کیا جب میں گھر پر نہیں تھا۔ غنڈوں کے ہاتھوں میں کلہاڑیاں اور لکڑیاں تھیں۔ گھر پر پتھر بازی بھی کی گئی‘۔
کمیونسٹ رہنما سیتارام یچوری نے لکھا کہ ’انڈیا کے دارالحکومت کی یہ حالت ہو گئی ہے۔ دہلی کے سب سے محفوظ علاقے میں ایک ایم پی کے گھر پر اس طرح حملہ ہو سکتا ہے؟ اس چھوٹ کا کون ذمہ دار ہے؟ بھیڑ کو توڑ پھوڑ کی اجازت دینا جمہوریت کی بربادی ہے۔ اس کا خاتمہ ہونا چاہیے‘۔
اویسی نے ایک دوسری ٹوئٹ میں لکھا: ’وزیر اعظم کی رہائش میرے گھر سے صرف آٹھ منٹ کے فاصلے پر ہے۔ میں نے بار بار پولیس کو بتایا کہ میرے مکان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اگر ایک رکن پارلیمان کا گھر محفوظ نہیں تو باقی شہریوں کو امت شاہ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔’
انہوں نے مزید لکھا: ’دنیا کو سخت گیریت سے لڑنے کا سبق پڑھانے والے پی ایم او انڈیا بتائيں کہ میرے گھر کو نشانہ بنانے والوں کو کس نے سخت گیر بنایا؟ اگر ان کٹر پنتھیوں (سخت گیروں) کو لگتا ہے کہ ہم ان سے ڈر کر چپ بیٹھ جائيں گے تو وہ مجلس کو نہیں جانتے۔ انصاف کے لیے ہماری لڑائی ہمیشہ جاری رہے گی۔ انشاءاللہ۔‘
بہت سے صارف نے لکھا کہ یہ ایک پروگرام کے تحت کیا جانے والا حملہ تھا۔ نکھل ریٹرنز نامی ایک صارف نے لکھا۔ جب پارلیمان میں اویسی حلف لے رہے تھے و بی جے پی کے اراکین نے ‘جے ایس آر’ (جے شری رام) کے نعرے سے ان کا مذاق اڑایا۔ ہر دوسرے دن ٹی وی اینکر اویسی کے خلاف خوفناک زبان کا استعمال کرتے ہیں، اب ہندوتوا کے دہشت گردوں نے ان کے گھر کو کھلی چھوٹ کے طور پر نشانہ بنایا ہے۔ ایک لوک سبھا ایم پی کے ایسے حالات ہیں تو سوچیے کہ عام مسلمانوں کی کیا حالت ہوگی۔’
ایم زینب کے نامی ایک صارف نے لکھا کہ’سنہ 2002 میں گجرات میں کانگریس پارٹی کے ایم پی احسان جعفری کو ہندو بھیڑ نے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا۔ انہوں نے نائب وزیر اعظم مسٹر اڈوانی تک سے مدد مانگی لیکن سب جانتے ہیں کیا ہوا۔ اویسی کے گھر پر حملہ ایک جمہوری ملک کے لیے اب کوئی نہیں بات نہیں ہے۔’
اس میں زینب نے ڈیموکریٹ کی غلط سپیلنگ لکھ کر انڈیا میں جمہوریت کو مذاق بنائے جانے کی جانب اشارہ کیا ہے۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اویسی کو بی جے پی کی بی ٹیم کہا جاتا ہے اور اترپردیش میں ہونے والے انتخابات کے پیش نظر یہ ثابت کرنے کے لیے کہ اویسی ان کی بی ٹیم نہیں ہے یہ حملہ کیا گیا ہے۔ جبکہ سخت گیر ہندو یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ انھیں سبق سکھانے کے لیے یہ کیا گیا ہے۔
ایک صارف نے یہ تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا: ‘انکل سب سمجھتا ہے کہ اترپردیش کا الیکشن ہے۔
بہر حال بہت سے لوگوں دہلی کے ایسے سخت سکیورٹی والے علاقے میں حملے پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں اور دہلی میں پولیس کے کاموں پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
سابق وزیر کابینہ اور ایوان بالا کے رکن سبرامنیم سوامی نے لکھا کہ آج اویسی کے گھر پر حملہ ہوا تو میڈیا اسے دکھا رہی ہے جب ان کے گھر پر حملہ ہوا تھا تو کوئی نہیں دکھا رہا تھا۔
- About the Author
- Latest Posts
Ghufran Karamat is a Senior Columunts who work With Daily talib