روس اقوام متحدہ اور افغانستان کے درمیان ثالث بن سکتا ہے: ذبیح اللہ.
(ڈیلی طالِب)
روسی ویب سائٹ آر آئی اے نووستی سے ایک انٹرویو میں ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ ’پابندیوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ روس ملک (افغانستان) کی تعمیر نو میں بھی مدد کر سکتا ہے۔‘
افغان طالبان کی کابینہ میں شامل نائب وزیر اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ پابندیوں میں کمی کے لیے روس اقوام متحدہ اور افغانستان کے درمیان ثالث بن سکتا ہے۔
روسی ویب سائٹ آر آئی اے نووستی سے ایک انٹرویو میں ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ ’پابندیوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ روس ملک (افغانستان) کی تعمیر نو میں بھی مدد کر سکتا ہے۔‘
ذبیح اللہ مجاہد نے انٹرویو میں مزید کہا کہ ’افغانستان کی نئی حکومت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں مثبت نتائج کی امید ہے۔‘
دوسری جانب اقوام متحدہ میں روس کے مستقل نمائندے واسیلی نبنزیا نے آر آئی اے کو اس سے قبل بتایا تھا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے عائد پابندیوں کو ہٹانے سے متعلق کوئی بات نہیں ہوئی ہے۔
تاہم ان کا یہ ضرور کہنا تھا کہ جلد یا دیر سے اس مسئلے کو حل ہونا ہے، لیکن ’یک دم‘ نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ افغانستان میں انسانی بنیادوں پر امداد پہنچانا ہے۔
افغان طالبان کے بانیوں میں سے ایک اور گروپ کی اسلامی قانون کی سخت تشریح نافذ کرنے والے ملا نور الدین ترابی نے کہا ہے کہ ان کی تحریک ایک بار پھر موت اور ہاتھ کاٹنے کی سزاؤں کا آغاز کرے گی تاہم اس مرتبہ شاید یہ سزائیں کھلے عام نہ دی جائیں۔
ملا ترابی نے کابل میں خبر رساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے ماضی میں طالبان کی جانب سے پھانسیوں پر غم و غصے کو مسترد کرتے ہوئے کہ یہ سزائیں کبھی کبھی سٹیڈیم میں ہجوم کے سامنے دی جاتیں۔
انہوں نے دنیا کو خبردار کیا کہ وہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ ’سب نے سٹیڈیم میں دی گئی سزاؤں پر تنقید کی لیکن ہم نے کبھی ان کے قوانین اور ان کی سزاؤں کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’کوئی ہمیں یہ نہ بتائے کہ ہمارے قوانین کیا ہونے چاہییں۔ ہم اسلام پر عمل کریں گے اور ہم قرآن کے مطابق اپنے قوانین بنائیں گے۔‘
جب سے طالبان نے 15 اگست کو کابل پر کنٹرول حاصل کر کے ملک کی حکومت سنبھالی ہے، افغان عوام اور دنیا دیکھ رہی ہے کہ آیا وہ 1990 کی دہائی کے آخر میں اپنی سخت حکمرانی کے انداز کو دوبارہ اپنائیں گے یا نہیں۔
ملا ترابی، جو اب اپنی عمر کی 60 کی دہائی کے اوائل میں ہیں، ماضی کی طالبان حکومت میں وزیر انصاف اور نام نہاد وزارت برائے تبلیغ اور برائی کی روک تھام کے نائب تھے۔
اس وقت دنیا نے طالبان کی کابل کے سپورٹس سٹیڈیم یا وسیع عید گاہ کی حدود میں اکثر سینکڑوں شہریوں کی موجودگی میں سزائیں دینے کی مذمت کی تھی۔
ملا ترابی نے کہا کہ اس بار علما کی بجائے ججز، جن میں خواتین بھی شامل ہوں گی، مقدمات کا فیصلہ کریں گے لیکن افغانستان کے قوانین کی بنیاد قرآن ہی ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ وہی پرانی سزائیں بحال کی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ ہاتھ کاٹنا سکیورٹی کے لیے بہت ضروری ہے اور یہ کہ کابینہ غور کر رہی ہے کہ عوامی سطح پر سزائیں دی جائیں یا نہیں تاہم اس حوالے سے ’پالیسی تیار کی جائے گی۔‘
امریکی وزیر خارجہ کی شاہ محمود قریشی سے ملاقات
امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے پاکستان، چین اور روس سے بات چیت کے بعد خیال ظاہر کیا ہے کہ دنیا طالبان پر دباؤ ڈالنے پر متحد ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق بلنکن نے جمعرات کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقعے پر اپنے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی کے علاوہ بدھ کو چین سمیت سلامتی کونسل کے چار دیگر ارکان کے وزرا سے بات چیت کی۔
بلنکن نے طالبان کے لیے امریکی ترجیحات کا اعادہ کیا جن میں افغانوں اور غیر ملکیوں کو ملک سے جانے کی اجازت، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کا احترام اور افغانستان کو دوبارہ القاعدہ جیسے شدت پسندوں کے ہاتھوں استعمال نہ ہونے دینا شامل ہے۔
محکمہ خارجہ نے کہا کہ بلنکن نے شاہ محمود قریشی کے ساتھ بات چیت میں ’سفارتی تعلقات کو مربوط کرنے کی اہمیت‘ کو اجاگر کیا۔
پاکستان نے طالبان کے ساتھ بات چیت اور افغان اثاثوں کو غیر منجمد کرنے کا مطالبہ کیا ہے لیکن شاہ محمود قریشی نے ہفتے کے شروع میں کہا تھا کہ طالبان کی نئی حکومت کو تسلیم کرنے کی کسی کو کوئی جلدی نہیں۔
شاہ محمود قریشی نے بلنکن کے ساتھ اپنی ملاقات کا آغاز کرتے ہوئے کہا: ’ہمیں اپنے مشترکہ مقصد کے حصول کے لیے اجتماعی طور پر کام کرنے کا راستہ تلاش کرنا ہوگا جو کہ امن اور استحکام کا راستہ ہے۔‘
- About the Author
- Latest Posts
Ghufran Karamat is a Senior Columunts who work With Daily talib