83

سپریم کورٹ کے خواتین کے وراثت میں حصے کے مقدمے میں ریمارکس: ’خواتین کو وراثت میں حق اپنی زندگی میں ہی لینا ہو گا‘

سپریم کورٹ کے خواتین کے وراثت میں حصے کے مقدمے میں ریمارکس: ’خواتین کو وراثت میں حق اپنی زندگی میں ہی لینا ہو گا‘.

(ڈیلی طالِب)

پاکستان میں خواتین کو وراثت میں حق نہ ملنا ایک بہت بڑا سماجی مسئلہ ہے اور ایسے ہزاروں مقدمات ملک بھر کی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں جہاں پر خواتین وراثت میں اپنے حصہ لینے کے لیے عدالتوں میں پہنچتی ہیں۔

حال ہی میں پاکستان کی عدالت عظمیٰ کی طرف سے خواتین کو وراثت میں حصہ لینے سے متعلق ایک درخواست کو مسترد کیے جانے کے بعد نئی بحث شروع ہو گئی ہے کہ اگر کوئی خاتون وفات پا جائے تو اس کی اولاد کو اپنے نانا کی جائیداد میں کوئی حصہ نہیں ملے گا۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ خواتین کو وراثت میں حق اپنی زندگی میں ہی لینا ہو گا۔

بینچ کے سربراہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’اگر خواتین اپنی زندگی میں اپنا حق نہ لیں تو ان کی اولاد دعویٰ نہیں کر سکتی۔‘

حق وراثت کا مقدمہ ہے کیا؟

سپریم کورٹ کے جج کی طرف سے جس مقدمے پر یہ ریمارکس سامنے آئے کہ عورت کو اپنی زندگی میں ہی اپنی والد کی وارثت میں حصہ لے لینا چاہیے اور اگر کوئی خاتون اپنی زندگی میں ہی حصہ نہ لے تو اس کی وفات کے بعد اس کی اولاد اپنے نانا کی وراثت میں حصے کا دعوی نہیں کر سکتی، اس کا معاملہ کچھ یوں ہے کہ سپریم کورٹ میں پشاور کی دو خواتین، جو کہ آپس میں بہنیں تھیں، کے بچوں نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں ایپل دائر کی۔

اس اپیل میں کہا گیا تھا کہ ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا ہے اور ان کی والدہ کو اپنے باپ کی جائیداد میں سے کوئی حصہ نہیں ملا تھا اب وہ اپنے نانا سے اپنی والدہ کا حصہ لینا چاہتے ہیں لیکن عدالت عالیہ نے ان کے نانا کی جائیداد میں حصہ لینے کا دعوی مسترد کر دیا۔

واضح رہے کہ پشاور کے رہائشی عیسیٰ خان نے قیام پاکستان سے پہلے سنہ 1935 میں اپنی جائیداد اپنے بیٹے عبدالرحمان کو منتقل کر دی تھی اور مذکورہ شخص نے اپنی دونوں بیٹیوں کو اپنی جائیداد میں حصہ نہیں دیا تھا۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ عیسیٰ خان کی ان دونوں بیٹیوں نے اپنی زندگی میں بھی اپنے باپ کی وراثت کو چیلنج نہیں کیا تھا اور ان میں ایک بہن کا سنہ 1980 جبکہ دوسری بہن کا انتقال سنہ 1984 میں ہوا تھا۔ ان دونوں بہنوں کی اولاد نے سنہ 2004 میں اپنے نانا کی وراثت میں حق کا دعوی دائر کیا تھا۔

پشاور کی ایک مقامی عدالت نے بچوں کے حق میں فیصلہ دیا تھا تاہم اس فیصلے کے خلاف عیسیٰ خان کے بیٹے عبدالرحمن کی اولاد نے پشاور ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی تھی جسے پشاور ہائی کورٹ نے منظور کرتے ہوئے مقامی عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

پشاور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف ان دونوں بہنوں کی اولاد نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

اس اپیل کو مسترد کیے جانے کے بارے میں ابھی سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ تو سامنے نہیں آیا لیکن اس اپیل کی سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ قانون وراثت خواتین کے حق کو تحفظ فراہم کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ خواتین خود اپنے حق سے دستبردار ہوں یا دعویٰ نہ کریں تو پھر کیا ہو گا۔

قانونی ماہرین اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟

قانون ماہرین کا کہنا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے برعکس وراثت کے قانون میں یہ لکھا ہوا ہے کہ اگر کوئی خاتون اپنی والد کی جائیداد سے حصہ ملنے سے پہلے ہی وفات پا جائے تو اس کے بچے اپنے نانا کی جائیداد میں سے حصہ لینے کے اہل ہیں۔

سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے پاکستان کے سابق چیف جسٹس افضل ظلہ کا فیصلہ بھی موجود ہے جس میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ اگر کوئی بہن اپنے والد کی جائیداد کے حصے میں سے دستبردار ہوتی ہے تو پھر بھی عدالت کو اس دستبرداری کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ اس فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ ایسا بہت کم دیکھنے کو ملا ہے جس میں کسی بھائی نے وراثت میں دستبردار ہو کر اپنا حق اپنی بہن کو دیا ہو۔

عرفان قادر کا کہنا ہے کہ ’سنہ 1960 کے وراثت کے قانون کے مطابق اگر کوئی خاتون اپنے باپ کی زندگی میں ہی وفات پا جاتی ہے اور اس کی اولاد زندہ ہے تو وہ اپنے نانا کی جائیداد میں اپنا حصہ لینے کا حق رکھتی ہے۔‘

وکیل حنا جیلانی کا کہنا ہے کہ ان کی نظر میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا ہے اس میں وراثت کے قانون کو نہیں چھیڑا گیا بلکہ شاید انھوں نے اس بنیاد پر اس اپیل کو مسترد کیا ہے کہ یہ معاملہ قیام پاکستان سے پہلے کا ہے جبکہ وراثت کا قانون سنہ 1960 میں بنا تھا۔

واضح رہے کہ قومی اسمبلی سے خواتین کو وراثت میں سے ان کے جائز حق کے تحفظ کا قانون منظور ہو چکا ہے اور اس قانون کا مقصد خواتین کے وارثت میں حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے جو ماضی میں فراڈ یا مختلف حیلے بہانوں سے غصب کیے جاتے رہے ہیں۔

عالم دین علامہ طاہر اشرفی کی رائے اس سے مختلف ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی عورت اپنی زندگی میں اپنے والد کی وارثت سے حصہ نہیں لے سکی تو اس کی وفات کے بعد ان کے بچے اپنے نانا کی جائیداد میں حصہ لینے کے حق دار نہیں ہیں۔

انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ شریعت سے مطابقت رکھتا ہے۔

’ایسے فیصلے خواتین کی حوصلہ شکنی ہیں‘

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں خواتین کا وراثت میں اپنا حصہ مانگنے کو ہی بڑا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس طرح کے فیصلے سے ان افراد کی حوصلہ افزائی ہو گی جو پہلے ہی سے اپنی بہنوں کو جائیداد میں سے حصہ دینے کے حق میں نہیں۔

فرزانہ باری کا کہنا تھا کہ یہاں پر تو یہ روایت ہے کہ بھائی جائیداد میں سے اپنی بہنوں کوحصہ نہ دینے کے لیے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں۔

’کبھی اپنی بہنوں سے بھائیوں کے حق میں اپنا حصہ گفٹ کروا لیتے ہیں اور کبھی فراڈ کے ذریعے ان کی جائیداد کا حصہ ہتھیا لیتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اگر عورت وراثت میں سے اپنا حصہ مانگے تو اس کو معاشرے میں خود غرض کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔‘

فرزانہ باری کا کہنا تھا کہ خواتین کے گروپس میں اس عدالتی فیصلے کے بارے میں آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں اور کسی مرحلے پر آ کر وہ عدالت عظمیٰ سے اس فیصلے کے بارے میں غور کرنے کی استدعا کریں گی۔

انھوں نے کہا کہ ایک طرف تو حکومت اہم عہدوں پر خواتین کو تعینات کر کے ان کو بااختیار بنانے کی کوشش کرتی ہے تو دوسری طرف اس طرح کے فیصلے خواتین کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں