بغاوت ناکام، فوج قابو میں ہے: سوڈانی حکام.
(ڈیلی طالِب)
حکمراں فوجی و عوامی کونسل کے ممبر محمد الفکی سلیمان نے اپنے فیس بک پیغام میں لکھا ہے کہ ’سب قابو میں ہے۔ انقلاب فاتح ہے۔‘
سوڈانی حکام نے فوجیوں کے ایک گروپ کی طرف سے منگل کو بغاوت کی کوشش کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ ناکام ہوگئی ہے اور ملک پر حکمران کونسل اور فوج کا کنٹرول برقرار ہے۔
اس پیش رفت نے سوڈان کے جمہوریت کے راستے کی نزاکت کو واضح کیا ہے۔ فوجی بغاوت کے ذریعے عمر البشیر کی تین دہائیوں پر محیط طویل مدتی خود مختار حکومت کا تختہ الٹنے کے دو سال بعد یہ واقعہ پیش آیا ہے۔
سوڈان کے سرکاری ٹیلی ویژن نے عوام سے کہا ہے کہ وہ ’بغاوت کی کوشش کو ناکام‘ بنائیں لیکن مزید کوئی تفصیل فراہم نہیں کی۔
حکمراں فوجی و عوامی کونسل کے ممبر محمد الفکی سلیمان نے اپنے فیس بک پیغام میں لکھا ہے کہ ’سب قابو میں ہے۔ انقلاب فاتح ہے۔‘
ایک فوجی عہدیدار نے کہا کہ آرمرڈ کور سے غیر متعین تعداد میں فوجی اس کوشش کے پیچھے تھے اور انہوں نے کئی سرکاری اداروں پر قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں درمیان میں ہی روک دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کا مقصد فوجی ہیڈ کوارٹرز اور سرکاری ٹیلی ویژن پر قبضہ کرنا تھا۔
فوجی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر امریکی خبر رساں ادارے اے پی سے بات کی کیونکہ وہ میڈیا کو بریفنگ دینے کے مجاز نہیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ تین درجن سے زیادہ فوجیوں کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں اعلیٰ عہدے دار بھی شامل ہیں۔ انہوں نے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں لیکن بتایا کہ ایک مختصر فوجی بیان جاری کیا جائے گا۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی (ایس یو این اے) نے بریگیڈیئر الطاہر ابو حجہ کے حوالے سے بتایا ہے جو فوج کے سربراہ کے میڈیا کنسلٹنٹ ہیں کہ مسلح افواج نے ’بغاوت کی کوشش کو ناکام بنا دیا اور سب کچھ مکمل قابو میں ہے۔‘
سوڈان کے سرکاری خبر رساں ادارے نے کہا ہے کہ بغاوت کی کوشش میں حصہ لینے والے تمام فوجیوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے اور تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ تاہم مزید تفصیلات فراہم نہیں گئیں۔
سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں مرکزی سڑکوں اور چوراہوں کی ویڈیو انٹرنیٹ پر گردش کر رہی ہے جس میں فوج اور بکتر بند گاڑیوں کو ان جگہوں پر تعینات دکھایا گیا ہے۔ شہر میں فوجی ہیڈ کوارٹرز اور دیگر سرکاری عمارتوں پر بھی سیکورٹی بڑھا دی گئی ہے۔
خودمختار کونسل کے ایک رکن محمد حسن التشی نے بغاوت کی اس کوشش کو ’احمقانہ اور برا انتخاب‘ قرار دیا۔
انہوں نے ٹویٹر پر لکھا: ’فوجی بغاوت کے راستے نے ہمیں صرف ایک ناکام اور کمزور ملک دیا ہے۔ جمہوری اقتدار کی منتقلی اور ملک کے سیاسی مستقبل اور اتحاد کو محفوظ بنانے کا راستہ اب بھی موجود ہے۔‘
بعد میں سرکاری ٹی وی پر پڑھے جانے والے ایک بیان میں وزیر ثقافت اور اطلاعات حمزہ بالول نے کہا کہ فوج کے خرطوم میں آرمرڈ کور کیمپ ساؤتھ پر قابو پانے کے بعد سکیورٹی فورسز نے بغاوت کی کوشش کے پیچھے عوامی اور عسکری رہنماؤں کو گرفتار کیا ہے اور ان سے پوچھ گچھ کی جارہی ہے۔
بالول نے جو کہ حکومت کے ترجمان بھی ہیں کہا ہے کہ حکام دیگر ایسے لوگوں کا البشیر کی حکومت کی ’باقیات‘ ہونے کی وجہ سے پیچھا کر رہے ہیں جو کہ بغاوت کی سازش میں ملوث تھے۔ اس بارے میں بھی مزید تفصیلات نہیں بتائی گئی ہیں۔
وزیر اعظم عبداللہ ہمدوک نے بغاوت کی کوشش کے لیے البشیر کی حکومت کی باقیات کو مورد الزام ٹھہرایا ہے اور اسے سوڈان کے جمہوری طور پر منتقلی اقتدار کو کمزور کرنے کی کوشش قرار دیا۔
انہوں نے کابینہ کے ایک ہنگامی اجلاس کے دوران یہ بات کی جسے سرکاری ٹی وی پر نشر کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کوشش نے ’منتقلی اقتدار کے مکمل، واضح اور شفاف جائزے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔‘
سوڈان اس وقت سے جمہوری حکمرانی کے نازک راستے پر ہے جب سے فوج نے اپریل 2019 میں چار ماہ کے دوران بڑے پیمانے پر احتجاج کے بعد البشیر کو اقتدار سے ہٹایا تھا۔
کئی دہائیوں سے اسلام پسندوں کی حمایت یافتہ بشیر کی حکومت نے فوج اور دیگر سکیورٹی ایجنسیز کے اندر مخالف نظریات کو روکنے کے لیے کام کیا تھا۔ البشیر خود 1989 میں ایک اسلامی حمایت یافتہ فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار میں آئے تھے۔
ملک میں اب ایک مشترکہ عوامی اور فوجی حکومت ہے۔ عبوری حکومت باغی گروپس کے ساتھ جنگوں کو ختم کرنے کے لیے بڑھتے ہوئے دباؤ میں ہے کیونکہ وہ ملک کی تباہ حال معیشت کی بحالی، ناگزیر غیر ملکی امداد کے حصول اور وعدے کے مطابق جمہوریت کی فراہمی کے لیے کوشاں ہے۔
- About the Author
- Latest Posts
Ghufran Karamat is a Senior Columunts who work With Daily talib