59

’پری زاد‘ کی کہانی میں کیا موڑ آنے والا ہے؟

’پری زاد‘ کی کہانی میں کیا موڑ آنے والا ہے؟

(ڈیلی طالِب)

’پری زاد‘ صنفی طور پر ایک المیے پر مبنی ایک کہانی ہے، جو روایتی محبت کی مثلث کے گرد گھومتے ڈراموں سے کافی مختلف ہے۔

پاکستانی ڈراما سیریل ’پری زاد‘ روایتی محبت کی مثلث کے گرد گھومتے ڈراموں سے کافی مختلف ہے، جس میں معاشرے میں موجود خلوص، محبت، صلہ رحمی یہاں تک کہ خوبصورتی سے متعلق بھی عمومی رویوں پر سوال اٹھاتے ہوئے انہیں موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔

اس ڈرامے کا مرکزی کردار ’پری زاد‘ احمد علی اکبر نے ادا کیا ہے، جو اچھوتے کردار ادا کرنے کی وجہ سے کافی شہرت حاصل کرچکے ہیں۔

یہ ایک باضمیر مرد کا کردار ہے، جس کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہے۔ وہ رحم دل بھی ہے اور مخلص بھی، جو مشکل وقت میں ہر کسی کی مدد ضرور کرتا ہے، جس کی وجہ سے اس کے بہت سے دوست بھی ہیں اور دشمن بھی ہیں۔

اس کردار کا ماضی دلچسپ ہے۔ اس کی ماں نے اس کا نام اس کی سیاہی مائل رنگت کے باوجود ’پری زاد‘ رکھا، اگرچہ والد نے منع کیا اور محلے اور خاندان کی خواتین نے طنزیہ جملے بھی کسے، تاہم اس کی ماں نے پرواہ نہ کی۔

’پری زاد‘ کو اپنے نام اور رنگ و روپ میں تضاد کی وجہ سے، بچپن ہی سے لوگوں کی مختلف قسم کی باتیں سننے کو ملیں، جس کی بدولت وہ ایک نہایت حساس طبیعت کا مالک بن گیا جو اپنی تنہائی شاعری سے دور کرتا ہے۔

’پری زاد‘ کے والدین اس کے بچپن ہی میں انتقال کرگئے تھے، بھائیوں اور بھابیوں سے اسے محبت نہ مل سکی اور نہ انہوں نے اس کی کفالت کی ذمہ داری لی، اس لیے وہ اخراجات پورے کرنے کے لیے ٹیوشن پڑھاتا ہے اور بھائیوں اور بھابیوں کو خرچہ بھی دیتا ہے۔

اس ڈرامے کی کہانی کا محور ’پری زاد‘ ضرور ہے، مگر اس میں رنگ اس کی زندگی میں آنے والی خواتین بنتی ہیں، جو اس کی سادہ طبیعت کی وجہ سے اس پر بھروسہ کرنے لگتی ہیں۔ ان میں ہر عورت کی اپنی ایک الگ کہانی ہے، لیکن ان تمام خواتین میں یہ قدر مشترک ہے کہ وہ تمام کی تمام کسی معاشرتی جبر کا شکار ہیں اور آزاد ہونا چاہتی ہیں۔

’پری زاد‘ کو اصل میں سچی اور پر خلوص محبت کی تلاش ہے، جو اسے اپنے خاندان سے نہ مل سکی، اس کی زندگی میں کئی خواتین آئیں بھی اور اس کی سادہ طبیعت کے باعث اس کی دوست بھی بنتی رہیں، لیکن تلاش جاری رہی۔

ادھر اسے جو خواتین ملیں وہ تمام کی تمام پنجرے میں قید ایک پرندے کی طرح تھیں، جو اڑنا چاہتی ہیں مگر کسی کے پَر کتر دیے گئے ہیں اور کسی کو اس کی فطرت اور ذات کی نفی کرکے زندہ رہنا پڑ رہا ہے۔

’پری زاد‘ کی زندگی میں آنے والی پہلی لڑکی ناہید (عشنا شاہ) تھی جسے وہ اردو پڑھاتا تھا اور شعر و شاعری کے دوران ہی اس سے محبت کر بیٹھتا ہے مگر وہ اسی محلے کے ایک خوش شکل اور خوش حال شخص سے شادی کرلیتی ہے۔

دوسری بار اس کی زندگی میں صائمہ عرف ببلی آتی ہے جو اس سے شادی پر راضی بھی ہوجاتی ہے۔ صائمہ مردانہ حلیے کی حامل لڑکی ہے جو لڑکوں جیسے حرکتیں کرتی ہے، اسی لیے اس کے والدین اس کی شادی کے لیے پریشان رہتے ہیں۔

ایسے میں ’پری زاد‘ اس کی نفسیاتی الجھن کو سمجھتے ہوئے اس کی دل جوئی کرتا ہے اور یوں ببلی اس سے شادی کے لیے راضی تو ہوجاتی ہے مگر صرف ایک رات پہلے وہ گھر چھوڑ کر کراچی بھاگ جاتی ہے اور یوں اس کا شادی کا خواب ادھورا رہ جاتا ہے۔

یونیورسٹی میں ’پری زاد‘ کی ملاقات ایک خوشحال گھرانے کی لڑکی لبنیٰ (مشال خان) سے ہوتی ہے، جو ابتدا میں اسے ناپسند کرتی ہے تاہم بعد میں اس کی سادہ اور کھری طبیعت کی وجہ سے اس کی دوست بن جاتی ہے۔ یہاں ’پری زاد‘ اسے محبت سمجھ بیٹھتا ہے اور اسی دوران لبنیٰ کی شادی ایک امیر شخص سے طے ہوجاتی ہے، اس روز اس پر عیاں ہوتا ہے کہ لبنیٰ ایک طوائف گھرانے سے ہے، جس کا اس کی ماں نے ایک بھاری بولی پر نکاح کیا ہے۔

یوں ’پری زاد‘ کو محسوس ہوا کہ دولت سے دنیا کی ہر چیز حتیٰ کہ محبت بھی خریدی جاسکتی ہے، اس طرح وہ اعلیٰ تعلیم اور شاعری کو ادھورا چھوڑ کر دولت کمانے کی جدوجہد میں لگ جاتا ہے۔

دولت کی خواہش پری زاد کو کراچی لے آتی ہے، جہاں وہ ایک کھرب پتی بزنس مین بہزاد کریم (نعمان اعجاز) کے یہاں ملازمت کرتا ہے اور یہاں اس کا کام اس کی کم عمر بیوی لیلیٰ صبا (عروہ حسین) کی رکھوالی کرنا ہے۔ پری زاد لیلیٰ کے شب و روز کی مصروفیات کی مکمل رپورٹ بہزاد کو دیتا ہے۔

جبکہ لیلیٰ ’پری زاد‘ کی سادگی کا فائدہ اٹھاتی ہے اور اسے اپنا رازدان بنا کر پرانے محبوب سے ملنے جاتی ہے۔ پکڑے جانے پر ’پری زاد‘ الزام اپنے سر لینے کی کوشش کرتا ہے لیکن بہزاد اپنی چہیتی بیوی کو اس کے عاشق کے ساتھ ہی قتل کردیتا ہے۔

اب پری زاد کی اگلی منزل کیا ہوگی، یہ دیکھنا باقی ہے، اس کی زندگی میں اب کون سی لڑکی آئے گی یہ دیکھنا ہوگا۔ یہ تو ہمیں معلوم ہے کہ اگلی لڑکی کا کردار یمنیٰ زیدی ادا کر رہی ہیں، لیکن کردار ابھی ڈرامے میں نہیں آیا۔

’پری زاد‘ صنفی طور پر ایک المیے پر مبنی ہے، کہانی کا بہاؤ اور ہدایات اتنی دلچسپ ہیں کہ دیکھنے والا اکتانے کی بجائے موضوع کی حساسیت میں کھو جاتا ہے اور اسے اپنے آس پاس کے لوگ ہی اس ڈرامے کے کردار نظر آنے لگتے ہیں۔

منگل کی شب ہم ٹی وی پر نشر ہونے والے ڈرامہ سیریل ’پری زاد‘ کے مصنف اور ڈرامہ نگار ہاشم ندیم ہیں، جو اس سے قبل ’رقصِ بسمل‘ اور ’خدا اور محبت‘ جیسے ڈرامے لکھ چکے ہیں۔ اس ڈرامے کی ہدایات شہزاد کشمیری نے دی ہیں جو اس سے پہلے شہرہ آفاق ڈراما سیریل ’ہمسفر‘ کی ہدایات بھی دے چکے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں