44

آئی ایس آئی کے سربراہ ندیم انجم: پاکستان میں آئی ایس آئی سربراہ کی تقرری موضوعِ بحث کب اور کیوں بننا شروع ہوئی؟

آئی ایس آئی کے سربراہ ندیم انجم: پاکستان میں آئی ایس آئی سربراہ کی تقرری موضوعِ بحث کب اور کیوں بننا شروع ہوئی؟

(ڈیلی طالِب)

دسمبر 1994 میں جب میں ایک مقامی اخبار کے ساتھ دفاع کے شعبے سے متعلق رپورٹر کے طورپر منسلک تھا تو مجھے ایک ذریعے نے یہ خبر دی کہ اس وقت کے آرمی چیف نے حکومت کو اپنے ایک پسندیدہ لیفٹیننٹ جنرل کا نام آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر تعیناتی کے لیے بھجوایا ہے۔

میں نے خبر بنائی جو اس اخبار کے آخری صفحے پر ایک کالم میں شائع ہوئی تھی۔ خبر میں اُن لیفٹیننٹ جنرل کا نام بھی شامل تھا جن کو پسند کی بنیاد پر نیا ڈی جی آئی ایس آئی لگانے کی حکومت کو تجویز دی گئی تھی۔

میں نے پوری احتیاط سے بار بار ان اطلاعات کی تصدیق کی۔ مجھے پورا یقین تھا کہ یہ اطلاع سو فیصد درست ہے۔

اس خبر کے شائع ہونے پر طوفان کھڑا ہو گیا۔ آئی ایس پی آر کے ڈپٹی چیف نے میرے مدیر کو فون کیا اور شکایت کی کہ یہ حساس معاملات ہیں اور فوج میں حساس تعیناتیوں کو ایسی قیاس آرائی پر مبنی خبروں کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔

جب میرے ایڈیٹر مجھے خبردار کر رہے تھے، اسی وقت مجھے ایک انٹیلیجنس اہلکار کا فون آیا جس نے مجھے بتایا کہ اُن کے باس (جن کا تعارف مقامی انٹیلیجنس کمانڈر کے طورپر کروایا گیا) مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔

اپنے ایڈیٹر سے اجازت لینے کے بعد میں انٹیلیجنس کمانڈر سے ملاقات کے لیے چلا گیا۔ مجھے ایک آرمی میس میں مدعو کیا گیا تھا جہاں وہ میرے ساتھ بڑی نرمی اور شائستگی سے پیش آئے۔

انٹیلیجنس کمانڈر نے اصرار کرتے ہوئے مجھ سے دریافت کیا کہ ’مجھے اپنا سورس (ذریعہ) بتائیں۔‘

جواب میں میں یہ ہی دہراتا رہا کہ میں اپنے ذریعے کے بارے میں صرف اپنے ایڈیٹر کو بتا سکتا ہوں، اُن کے سوا کسی کو نہیں بتا سکتا۔ چالیس منٹ تک یہ گفتگو چلتی رہی جس کے بعد میں میس سے واپس چلا آیا۔

میرے ذہن میں مسلسل یہ خیال کلبلانے لگا کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کو اپنے ادارے کے اندر کے معاملے کو عوامی بحث کا موضوع بنانا پسند نہیں آیا۔

اس واقعے کو لگ بھگ 25 سال گزر گئے ہیں اور آج ذرائع ابلاغ کا ماحول یکسر بدل چکا ہے اور بظاہر اسی طرح فوجی اسٹیبلشمنٹ کا بھی۔

آج کل ذرائع ابلاغ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی پر کھلم کھلا بحث مباحثہ کرتے ہیں بالکل ویسے جیسے کسی بھی بڑی سیاسی تعیناتی پر ہوتی ہے جبکہ سوشل میڈیا پر بھی رائے کا اظہار کیا جاتا ہے۔

نوّے کی دہائی وہ وقت تھا جب انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل کی تعیناتی معمول کی بات سمجھی جاتی تھی اور قومی اخبارات کو اس کی تشہیر سے سروکار نہیں ہوتا تھا۔

اخبار مشکل سے ایک کالم کی خبر دیتے اور غیر نُمایاں انداز میں ایسی خبر شائع کرتے تھے۔ سٹرٹیجک یا سیاسی تجزیہ نگاری پر مبنی تبصرے بھی اخبارات کی زینت نہیں بنتے تھے۔ خبر بھی دو پیراگراف پر مشتمل ہوا کرتی تھی، پہلے میں ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے پر تقرر پانے والے لیفٹیننٹ جنرل کا نام اور دوسرے پیراگراف میں ان کے قبل ازیں منصب کی کچھ تفصیل شامل ہوتی تھی۔

آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل کی تقرری کے سلسلے میں آج ذرائع ابلاغ میں پیدا ہونے والی قیاس آرائیوں کی بھرمار ملک کے طاقت کے ڈھانچے میں اس ادارے کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔

اس سے یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے بارے میں فوجی حلقوں میں ’جو ناخوب تھا، بتدریج وہی خوب ہوا‘۔

لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کی بطور ڈی جی آئی ایس آئی تقرری کی تصدیق کے بعد گذشتہ 48 گھنٹوں سے ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر اُنھیں ایک قومی ہیرو کے طور پر نمایاں کرنے کی مسلسل کوشش جاری ہے۔

فیس بک پر ایک پوسٹ میں ان کا تعارف ان الفاظ میں کروایا گیا کہ ’وہ ایک پروفیشنل ہیں، آرمی جوانوں میں بے حد مقبول اور غریب پرور ہیں۔‘ چاق و چوبند وردی میں ملبوس افسر کی تصویر بھی پوسٹ کے ہمراہ تھی۔

بھرپور کوشش ہوتی دکھائی دیتی ہے کہ قومی میڈیا میں اُنھیں ایک ناگزیر اور نہایت اہم شخصیت کے طور پر متعارف کروائے۔

میڈیا میں اس ’ہائی پروفائل‘ مہم کی ایک وجہ یہ ہے کہ سبکدوش ہونے والے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید سیاسی طور پر متنازع رہے۔

حزبِ اختلاف کی مرکزی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے نواز شریف کے اقتدار سے نکالے جانے اور سزائیں ملنے کا ملبہ فیض حمید پر ڈالا اور اُنھیں مُورد الزام ٹھہرایا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اقتدار سے محرومی کے ساتھ ساتھ عمران خان کو وزیراعظم بنوانے میں ان کے کردار کا بھی الزام عائد کیا ہے۔

ملک کے طاقت کے ڈھانچے میں آئی ایس آئی کے ڈی جی نے ایسی مرکزی حیثیت حاصل کر لی ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی ریٹائرمنٹ سے مہینوں قبل ہی نئے سربراہ کے بارے میں اسلام آباد کے میڈیا اور سیاسی حلقوں میں قیاس آرائیوں کی آندھیاں چلنے لگتی ہیں۔

تاریخ دان اور پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کے تجزیہ کار حسن عسکری کہتے ہیں کہ ’آئی ایس آئی اب ملک کی داخلی اور خارجی سلامتی کی صورتحال میں مرکزی اور کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ ستّر کے دور میں لوگوں کو صحیح طور پر یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ دراصل آئی ایس آئی ہے کیا؟ سنہ 1979 میں افغان جنگ میں پاکستان کے ملوث ہونے کے بعد اس نے یہ کردار آہستہ آہستہ سنبھالنا شروع کیا۔‘

ماہرین کے مطابق ملک میں ڈی جی آئی ایس آئی کی شخصیت اور اس منصب کی اہمیت میں اضافے کی بنیادی وجوہات میں فوج اور اس کی انٹیلیجنس ایجنسیوں کے ملک کے سیاسی منظر نامے پر اثر و نفوذ اور خارجہ پالیسی اُمور پر مکمل غلبہ ہے۔

حسن عسکری نے کہا کہ آئی ایس آئی نے امریکی سی آئی اے کے ساتھ مل کر افغان جہاد میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اُنھوں نے کہا کہ ’نائن الیون کے بعد آئی ایس آئی نے اضافی کردار اس وقت ادا کرنا شروع کیا جب امریکیوں نے دہشت گردی کے خلاف 2001 میں نام نہاد جنگ شروع کی۔‘

اُن کے مطابق ’اس جنگ میں ہر اول دستے کے کردار نے آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس آئی کے پروفائل کو مزید اجاگر کیا۔‘

سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور اقتدار کے بعد ذرائع ابلاغ اور سیاسی حلقوں میں آئی ایس آئی کی اہمیت اس وقت مزید بڑھ گئی جب اپوزیشن قوتوں نے (2002 سے 2008 کے دوران) مبینہ سیاسی انجینیئرنگ کے حوالے سے آئی ایس آئی پر کھلم کھلا الزامات لگانے شروع کیے۔

سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد کے گذشتہ پانچ سال میں آئی ایس آئی کے خلاف الزامات لگانے میں کہیں زیادہ شدت دیکھنے میں آئی ہے۔

حسن عسکری نے کہا کہ ’پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان کے بائیں بازو کے عناصر دونوں آئی ایس آئی کو نشانہ بناتے اور سیاسی مداخلت کے اس پر الزام لگاتے آئے ہیں۔‘

اُنھوں نے کہا کہ ’سوشل میڈیا کے آنے کے بعد یہ مہم مزید مضبوط ہوئی، اس لیے آج ہم ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے بارے میں روایتی اور سوشل میڈیا پر اتنا شور شرابہ دیکھتے ہیں۔‘

ان الزامات اور آئی ایس آئی کی سیاست میں مبینہ مداخلت کی اطلاعات پر ذرائع ابلاغ میں بڑے پیمانے پر بحث ہوئی ہے جس سے عوام کی نظروں میں اس ادارے کے کردار اور حیثیت سے متعلق اہمیت بڑھتی چلی گئی۔

آئی ایس آئی کے ڈی جی کی تعیناتی کے بارے میں قومی میڈیا میں خبریں آنے اور سٹرٹیجک و سیاسی تجزیہ نگاری کا سلسلہ 2011 میں اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا کی ہائی پروفائل ملازمت میں توسیع سے شروع ہوا تھا۔

یہ دعوے کیے گئے کہ جنرل پاشا کے بین الاقوامی سکیورٹی ایجنسیز بشمول امریکی سکیورٹی کے نظام کے ساتھ تال میل اور علیک سلیک کے نتیجے میں ان کی مدت ملازمت میں ایک سال کی توسیع ہوئی تاکہ وہ درپیش سلامتی کی صورتحال کو سنبھالنے کے قابل ہو سکیں۔

پاشا کی شخصیت و اہمیت میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب بری فوج کے اُس وقت کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ہمراہی میں دہشت گردی کے خلاف ایک انتہائی اہم مرحلے پر امریکی فوجی قیادت کے ساتھ اجلاسوں میں شریک ہوئے۔

آئی ایس آئی کی اہمیت میں مزید اضافے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پاکستان کے دوستوں اور دشمنوں نے خطے میں ہونے والی ہر ’اچھائی‘ اور ’برائی‘ کے لیے سرعام انٹیلیجنس سروس کو ذمہ دار ٹھہرانا شروع کر دیا۔

مثال کے طور پر لندن بم دھماکوں کے ملزمان کو پکڑنے کے آپریشن میں آئی ایس آئی پیش پیش تھی۔ یہ ملزمان بم دھماکوں کے بعد بھاگ کر پاکستان آ گئے تھے اور ان کی گرفتاری پر برطانوی حکومت نے عوامی سطح پر پاکستان کے ادارے کی کاوشوں کا اعتراف کیا تھا۔

حالیہ دنوں میں آئی ایس آئی کا کردار خطے کی خارجہ پالیسی میں زیادہ نمایاں ہو کر اس وقت بھی سامنے آیا جب اس نے طالبان اور افغان حکومت کے نمائندوں کو مری میں مذاکرات کی میز پر بٹھانے کی کاوشیں کیں۔

سول ملٹری تعلقات کے ایک اور ماہر تجزیہ کار سعید شفقت کہتے ہیں کہ گذشتہ چھ ماہ میں پاکستان، امریکہ، انڈیا، چین، ایران اور روس کے انٹیلیجنس سربراہوں میں کافی زیادہ رابطے ہوتے دیکھے گئے ہیں۔

سعید شفقت نے کہا کہ ’پاکستانی ذرائع ابلاغ میں کافی کچھ اس بارے میں آیا ہے اور اس لیے ہم میڈیا میں ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے بارے میں اتنا زور شور دیکھ رہے ہیں۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ ’بصورت دیگر جنرل فیض حمید کی تقرری اور نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی ایک معمول کی بات ہے۔‘

50% LikesVS
50% Dislikes

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں