72

عمران حکومت کا کھیل ختم؟

عمران حکومت کا کھیل ختم؟

(ڈیلی طالِب)

پی ٹی آئی کے وزرا، اراکین پارلیمنٹ اور پارٹی کے ارکان دم بخود ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کے سیاسی بادنما فارغ ہو گئے ہیں اور وہ بالکل بے بس ہو کر رہ گئے ہیں۔ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کشیدگی کے حوالے سے اچانک خود کو “نواز شریف والی صورتحال” میں پاتے ہیں

پی ٹی آئی کے وزرا، اراکین پارلیمنٹ اور پارٹی کے ارکان دم بخود ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کے سیاسی بادنما فارغ ہو گئے ہیں اور وہ بالکل بے بس ہو کر رہ گئے ہیں۔ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کشیدگی کے حوالے سے اچانک خود کو “نواز شریف والی صورتحال” میں پاتے ہیں

1۔ جب سے وزیراعظم عمران خان نے لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کو نئے ڈی جی آئی ایس آئی کے طور پر تعینات کرنے سے انکار کیا ہے، جیسا کہ آئی ایس پی آر نے 6 اکتوبر 2021 کو اعلان کیا تھا، پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات اس وقت سے بے مثال کشیدگی کا شکار ہیں۔ یہ کشیدگی اب آہستہ آہستہ ایک خوفناک محاذ آرائی میں بدل رہی ہے۔ یہ جلد یا بدیر حل ہو بھی جائے، جو نقصان ہونا تھا وہ ہو چکا ہے۔

2۔ محاذ آرائی نے فوج کی معمول کی تقرریوں کو بھی روک لگا دی ہے۔ اس کی بھی مثال نہیں ملتی۔ چونکہ وزیر اعظم نے لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کے ڈی جی آئی ایس آئی کا عہدہ سنبھالنے کے نوٹیفکیشن پر دستخط نہیں کیے، انہوں نے کور کمانڈر کراچی کا چارج نہیں چھوڑا۔ چونکہ انہوں نے چارج نہیں چھوڑا اس لئے لیفٹیننٹ جنرل محمد سعید کور کمانڈر کراچی کا چارج نہیں لے سکتے اور لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود کور کمانڈر پشاور کے عہدے کو نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے صدر کے طور پر جوائن کرنے کے لئے نہیں چھوڑ سکتے کیونکہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید ڈی جی آئی ایس آئی کے طور پر چارج نہیں چھوڑ سکتے۔ اور یہی چکر باقی سب کے لئے بھی ہے جنہیں 10 دن پہلے ان کے پوسٹنگ آرڈر ملے تھے۔ فوج میں اس طرح کام نہیں ہوتا۔

3۔ آیا وزیر اعظم آفس کو ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے لئے تین ناموں پر مشتمل سمری موصول ہوئی ہے یا نہیں، اس پر ابہام موجود ہے۔ حکومت کی طرف سے ایک پراسرار خاموشی ہے۔ بدھ کے روز وزرا نے تصدیق کی تھی کہ سمری موصول ہو چکی ہے اور ٹی وی چینلز کے ساتھ ساتھ اخبارات نے بھی کہانی چلائی۔ فوجی ذرائع نے بعد میں اس خبر کی تردید کی۔ ایک اور حیرت انگیز اقدام کے طور پر تینوں لیفٹیننٹ جرنیلوں کے نام اور تصاویر جنہیں مبینہ طور پر سمری میں سلیکشن کے لیے پیش کیا گیا تھا، ٹی وی سکرینوں پر چلائے گئے۔ اس سے اسٹیبلشمنٹ کے اندر بہت سے لوگ ناخوش ہیں۔ اب وزیر اعظم تینوں امیدواروں سے ملنا چاہتا ہیں تاکہ وہ دو تھری سٹار جرنیلوں کو مسترد کرتے ہوئے ایک کو منتخب کر سکیں۔ یہ بھی ادارے میں بہت سے لوگوں کے لئے ناپسندیدہ ہے۔

4۔ پی ٹی آئی کے وزرا، اراکین پارلیمنٹ اور پارٹی کے ارکان دم بخود ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کے سیاسی بادنما فارغ ہو گئے ہیں اور وہ بالکل بے بس ہو کر رہ گئے ہیں۔ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کشیدگی کے حوالے سے اچانک خود کو “نواز شریف والی صورتحال” میں پاتے ہیں اور یہ ان کے لئے اتنی ہی اجنبی ہے جتنا مریخ پر اترنا۔ صورتحال ماضی کے ان تمام مواقع کی خصوصیات کی حامل ہے جب حکومتیں اپنا زوال کا سفر شروع کرتی ہیں۔ “کیا یہ اختتام کی شروعات ہے؟” پی ٹی آئی کے ایک سینیٹر نے چند دن قبل پوچھا۔ شاید وہ اپنے ساتھیوں کی اکثریت کے خدشات کی عکاسی کر رہے تھے۔

5۔ چیزیں ایک عرصہ سے پسِ پردہ بڑھ رہی تھیں۔ ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ رواں سال جولائی میں آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے وزیر اعظم عمران خان سے کہا تھا کہ انہیں تقرریوں اور تبادلوں کی ضرورت ہے اور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو معمول کے مطابق آئی ایس آئی سے جانا پڑے گا۔ وزیراعظم نے اس وقت فیصلہ موخر کر دیا۔ آرمی چیف نے اگست اور ستمبر میں دوبارہ موضوع اٹھایا اور دونوں بار وزیراعظم نے کہا کہ وہ اس مسئلے پر جلد بات کریں گے۔ اکتوبر میں، جنرل باجوہ نے وزیر اعظم کو بتایا کہ وہ زیادہ انتظار نہیں کر سکتے کیونکہ تین لیفٹیننٹ جنرل ریٹائر ہو رہے ہیں اور انہیں تبادلوں کا حکم دینا ہے۔ اس کے بعد معاملات اگلے 10 روز میں جس نہج پر پہنچے وہ آپ کے سامنے ہے۔ تعطل برقرار ہے۔

6۔ دس دن پہلے تک پی ٹی آئی دوسری پانچ سالہ مدت کا خواب دیکھ رہی تھی۔ اب پارٹی میں بہت سے لوگ پریشان ہیں کہ وہ اگلے انتخابات تک کیسے چل سکتے ہیں۔

ان کے وجودی خدشات مندرجہ ذیل ہیں: )الف) ان کی اسمبلی میں بہت ہی نحیف اکثریت ان کے اتحادیوں مسلم لیگ ق، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اور ایم کیو ایم کی مرہونِ منت ہے اور اگر انہوں نے انہیں دھوکہ دیا تو کھیل ختم ہے؛ (ب) ان کے اپنے اراکین میں سے بہت سے وہ ہیں جو آزاد حیثیت میں جیتے اور اب صورتحال کی سن گن لیں گے؛ (ج) پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈرز کی ایک بڑی تعداد اسٹیبلشمنٹ کے حامی سیاستدانوں کی ہے اور اگر انہیں دونوں فریقوں میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے پر مجبور کیا گیا تو یہ کسی کو شک نہیں ہے کہ وہ کس طرف کا انتخاب کریں گے؛ (د) اسٹیبلشمنٹ کے ایک عہدیدار نے حال ہی میں تبصرہ کیا: “صرف ہمارے پیچھے ہٹنے کی دیر ہے”۔

7۔ یہ ٹوٹ پھوٹ اتنی جلدی متوقع نہیں تھی۔ اب جب کہ یہ ہو رہی ہے، اپوزیشن بھی واپس ڈرائنگ بورڈ پر چلی گئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اس مرحلے پر ممکنہ طور پر درج ذیل نتیجے اخذ کر رہی ہے: (الف) قومی اسمبلی یا پنجاب اسمبلی میں کوئی تبدیلی مسلم لیگ (ن) کے بغیر نہیں ہو سکتی؛ (ب) اسلام آباد میں پی ٹی آئی حکومت کو گرانا کوئی مشکل کام نہیں ہے اگر اسٹیبلشمنٹ پیچھے ہٹ جائے اور اپنی اہم حمایت واپس لے لے – زیادہ مشکل یہ ہے کہ اس پر اتفاق کیا جائے کہ اس کی جگہ کون لیتا ہے؛ (ج) مسلم لیگ (ن) اب اور 2023 کے انتخابات کے درمیان مرکز میں کسی بھی سیٹ اپ کا حصہ بننا پسند نہیں کرے گی، لیکن اگر عمران خان کو ہٹایا جاتا ہے تو وہ نئے اتحاد کی حمایت کر سکتی ہے؛ (د) اس کا مطلب ہے کہ مسلم لیگ (ن) اس حمایت کے لئے سخت سودے بازی کر سکتی ہے لیکن اتنی سخت نہیں کہ سارا کھیل ہی خراب ہو جائے کیونکہ اگر موجودہ سیٹ اپ جاتا ہے تو مسلم لیگ ن ایک بار پھر سب سے بڑی پلیئر ہوگی۔

8۔ وزیر اعظم خان بھی اپنے پتوں پر غور کر رہے ہوں گے: (الف) وہ پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیں اور اصرار کریں کہ وہ ڈی جی آئی ایس آئی کو اپنی شرائط پر تعینات کریں گے۔ اس سے ایک واضح اشارہ جائے گا کہ وہ باس ہیں، پھر چاہے اس کی جو بھی قیمت ہو؛ (ب) تنازعے کو مزید بڑھائیں اور پہلے سے اعلان کردہ شخص کے علاوہ کسی اور کو مقرر کر دیں؛ (ج) سب کو گھر بھیجیں اور قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر دیں؛ (د) اقتدار سے بے دخل ہو جائیں اور ایک اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے پر سیاست کریں۔

9۔ ان میں سے کوئی بھی اچھا آپشن نہیں ہے۔ کیونکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو سامنا ہے (الف) پارلیمنٹ میں کمزور عددی اکثریت اور ناقابلِ اعتبار اتحادیوں اور اراکین کا؛ (ب) ناقص گورننس اور کارکردگی کے بوجھ کا؛ (ج) تقسیم کی سیاست کے نتیجے میں سیاسی تنہائی کا؛ (د) نواز شریف کی موجودگی میں سیاسی میدان میں اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کے لئے مزید جگہ نہ ہونے کا۔

10۔ پی ٹی آئی کے ایک رکن نے اس ہفتے کہا “شاید نواز شریف شروع سے ٹھیک ہی کہہ رہے تھے۔” اسے ستم ظریفی ہی کہا جا سکتا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں