45

آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ انڈیا کے لیے ایک ڈراؤنا خواب کیوں ثابت ہوا؟

آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ انڈیا کے لیے ایک ڈراؤنا خواب کیوں ثابت ہوا؟

(ڈیلی طالِب)

متحدہ عرب امارات اور عمان میں کھیلا جانے والا آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ انڈیا کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوا ہے۔ ٹورنامنٹ جیتنے کا انڈیا کا خواب تو کیا ہی پورا ہوتا وہ سیمی فائنل سے پہلے ہی ٹورنامنٹ سے باہر ہو گیا۔ اس کے نتیجے میں پیر کو اپنے گروپ بی میں نمیبیا کے خلاف میچ بھی محض ایک رسمی میچ بن کر رہ گیا۔

انڈیا کی سیمی فائنل میں پہنچنے کی آخری امید اس وقت ٹوٹی جب اتوار کو نیوزی لینڈ نے افغانستان کو آٹھ وکٹوں سے شکست دی۔ اگر افغانستان کسی طرح نیوزی لینڈ کو شکست دیتا تو انڈیا کے ٹورنامنٹ میں رہنے کے امکانات ہوتے۔

ٹورنامنٹ میں پاکستان نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے پانچ میچ جیت کر 10 پوائنٹس اور نیوزی لینڈ نے آٹھ پوائنٹس کے ساتھ سیمی فائنل میں جگہ بنالی۔

انڈین کپتان وراٹ کوہلی، کوچ روی شاستری اور مینٹور مہندر سنگھ دھونی کی نگرانی اور روہت شرما، کے ایل راہول، رشبھ پنت، جسپریت بمراہ اور انتہائی تجربہ کار محمد شامی جیسے سٹار کھلاڑیوں سے بھری کاغذ پر مضبوط نظر آنے والی ٹیم میدان میں دوسری ٹیموں کے سامنے نہیں ٹک پائی۔

نمیبیا کے خلاف میچ سے پہلے ان کی حالت ایسی تھی ‘اب پچھتاوے کیا ہو جب چڑیاں چُک گئیں کھیت۔’

وہ ٹیم جس کے زیادہ تر کھلاڑی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ شروع ہونے سے پہلے انہی میدانوں پر آئی پی ایل کھیل رہے تھے جہاں ان کے ورلڈ کپ کے میچ کھیلے جانے تھے اور وہ وہاں کے ماحول سے سب سے زیادہ واقف تھے تو وہ اتنے بڑے امتحان میں کیسے ناکام ہوگئے۔

جس ٹیم کی چیمپئن بننے کی سب سے زیادہ امیدیں تھیں وہ صرف ابتدائی دو میچ ہارنے کے بعد کیسے شکست خوردہ نطر آنے لگی، اس سے متعلق سات وجوہات پر نظر ڈالتے ہیں۔

پاکستان کے خلاف ضرورت سے زیادہ خو اعتمادی لے ڈوبی

اس ورلڈ کپ میں اپنے پہلے ہی میچ میں جب انڈیا پاکستان کے خلاف میدان میں اترا، تو شاید ٹیم کے ذہن میں ماضی کے شاندار ریکارڈ کی یادیں تھیں۔ اس سے قبل پاکستان کو انڈیا کے ہاتھوں ون ڈے ورلڈ کپ میں سات بار اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پانچ بار شکست ہوچکی تھی۔

انڈیا کو لگا کہ ہر بار ورلڈ کپ جیتنے کا سلسلہ اس بار بھی ان کا سہارا بنے گا لیکن ایسا نہیں ہوا اور پاکستان نے پچھلا تمام سود چکاتے ہوئے انڈیا کو 10 وکٹوں سے شکست دی۔ انڈیا کی اوپننگ جوڑی کے ایل راہول اور روہت شرما کے تیسرے اوور میں آؤٹ ہوتے ہی انڈیا پر شکست کا خطرہ منڈلانے لگا تھا۔

بعد ازاں وراٹ کوہلی نے 57 رنز بنائے لیکن ٹیم کے 151 رنز کافی کم ثابت ہوئے کیونکہ پاکستان نے 10 وکٹوں سے فتح حاصل کی۔ اس کے ساتھ ہی انڈین بولنگ کا پول بھی کھل کر سامنے آگیا۔ یہ سکور اتنا کم بھی نہیں تھا کہ انڈین گیند باز تین چار وکٹیں بھی نہ لے پاتے۔

جبکہ ایسا معلوم ہوا کہ پاکستانی گیند بازوں نے میچ سے قبل نیٹ میں خوب پسینہ بہایا تھا۔ میچ میں تین وکٹیں لینے والے شاہین شاہ آفریدی نے بعد میں کہا کہ انھوں نے کچھ سوئنگ حاصل کرنے کے لیے بہت محنت کی جو بعد میں رنگ لائی۔

نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیم میں تبدیلی مہلک ثابت ہوئی

پاکستان کے ہاتھوں 10 وکٹوں سے ہارنے کے بعد انڈین ٹیم کے نیوزی لینڈ کے خلاف میچ میں ہاتھ پیر پھول گئے۔ انڈین تھنک ٹینک نے ٹیم میں تبدیلی کرتے ہوئے سوریہ کمار یادو کی جگہ ایشان کشن اور بھونیشور کمار کی جگہ شاردول ٹھاکر کو ٹیم میں شامل کیا۔

چلیں بات یہاں تک تو ٹھیک تھی لیکن جب ٹاس ہارنے کے بعد انڈین ٹیم کو پہلے بیٹنگ کی دعوت ملی تو بیٹنگ آرڈر دیکھ کر سب حیران رہ گئے کیونکہ روہت شرما کے بجائے ایشان کشن کے ایل راہول کے ساتھ اوپنر کے طور پر میدان میں اترے۔

یہ تبدیلی کچھ اچھی ثابت نہیں ہوئی کیونکہ ٹرینٹ بولٹ نے ایشان کشن کو مچل سینٹنر کے ہاتھوں جلد ہی کیچ کرا دیا۔ وہ آٹھ گیندوں پر صرف چار رنز بنا سکے۔ اس کے بعد روہت شرما میدان میں آئے لیکن وہ بھی 14 رنز بنانے کے بعد سپنر سوڈھی کا شکار ہوگئے۔

بیٹنگ آرڈر میں تبدیلی کا اثر یہ ہوا کہ تیسرے نمبر پر کھیلنے والے کپتان وراٹ کوہلی کو چوتھے نمبر پر کھیلنا پڑا اور وہ بھی بڑی اننگز کھیلنے میں ناکام رہے۔ ایسی تبدیلیاں تجرباتی بنیادوں پر اس وقت کی جاتی ہیں جب کوئی بھی ٹیم ٹورنامنٹ میں مکمل طور پر محفوظ محسوس کرتی ہے۔

تھنک ٹینک کا یہ اقدام ایک طرح سے انڈیا کے لیے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ثابت ہوا۔ انڈین ٹیم پورے میچ میں بے جان اور بے بس نظر آئی اور انتہائی تھکے ہوئے انداز اور جھکے ہوئے کندھوں کے ساتھ کھیلی، جسے بعد میں کپتان وراٹ کوہلی نے ایمانداری سے تسلیم کیا۔

انہوں نے کہا کہ ٹیم میں نیوزی لینڈ جیسا جذبہ اور جوش نہیں تھا اور ان کی باڈی لینگویج بھی ان کے مقابلے منفی تھی۔

دو میچ ہارنے کے بعد خطرے کی گھنٹی بجی اور سلیکشن پر سوال اٹھے

ایسا نہیں ہے کہ پاکستان اور نیوزی لینڈ سے ہارنے کے بعد ہی انڈین ٹیم کی سلیکشن پر سوالات اٹھے۔ درحقیقت چیتن شرما کی قیادت والی سلیکشن کمیٹی نے ورلڈ کپ کے لیے جو ٹیم منتخب کی تھی وہ پہلے سے ہی آدھی ادھوری ٹیم لگ رہی تھی اور ٹورنامنٹ میں ایک کے بعد دوسری ہار نے اس پر سچائی کی مہر لگا دی۔

نیوزی لینڈ کے خلاف ہارتے ہی انڈیا کے ٹورنامنٹ سے باہر ہونے کا خطرہ منڈلانے لگا تھا جس کی وجہ آئی پی ایل ٹیم میں آؤٹ آف فارم کھلاڑیوں کا انتخاب تھا، وہ بھی ایک دو نہیں بلکہ آدھا درجن۔

اگر ورلڈ کپ میں ٹیم کے انتخاب کی بنیاد چند روز قبل ختم ہونے والا آئی پی ایل تھا تو پھر بیٹنگ میں بے شمار رنز بنانے والے ریتوراج گائیکواڑ، شیکھر دھون اور شریاس آئیر کے ناموں پر بات تک کیوں نہیں کی گئی اور سپنر یوزویندر چہل اور پچھلے آئی پی ایل میں سب سے زیادہ وکٹ لینے والے ہرشل پٹیل، اویس خان کے علاوہ سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے اور فاسٹ بولر محمد سراج، جنہوں نے گزشتہ ایک سال سے بیرون ملک انڈیا کی جیت میں اہم کردار ادا کیا تھا، انھیں ٹیم میں شامل کیوں نہیں کیا گیا۔

اگر سوریہ کمار یادو، ایشان کشن اور ہاردک پانڈیا اس بار بری طرح ناکام رہے تو راہول چہر بھی اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکے۔ ٹیم کی حالت ایسی تھی کہ کپتان وراٹ کوہلی بھی سوچ رہے تھے کہ کس کو کھلانا ہے اور کس کو باہر رکھنا ہے۔

آر اشون کو دیر سے موقع اور خراب گیند باز

ٹورنامنٹ میں پاکستان کے خلاف ایک بھی وکٹ حاصل نہ کرنا اور نیوزی لینڈ کے خلاف صرف دو وکٹیں لینا پہلے ہی ظاہر کر چکا تھا کہ ٹیم کی بولنگ میں کچھ خاص دم نہیں ہے۔ فاسٹ بولر بھونیشور کمار پاکستان کے خلاف ناکام ثابت ہوئے۔

وہ 120 اور 130 کی رفتار سے بولِنگ کر رہے تھے جو شاید ٹی ٹوئنٹی جیسے بلے بازوں کے لیے بنائے گئے فارمیٹ میں مؤثر ہو۔ ہاردک پانڈیا نے پاکستان کے خلاف بولنگ نہیں کی جس سے ٹیم کا بولنگ کمبینیشن خراب ہو گیا جب کہ ورلڈ کپ سے قبل کہا جا رہا تھا کہ وہ بولنگ بھی کریں گے۔

نیوزی لینڈ کے خلاف ان سے دو اوور کروانا آنکھ میں دھول جھونکنے کے مترادف تھا۔ یہ صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ ان سے زبردستی بولِنگ کروائی جا رہی ہے۔ ایک شاندار سپنر اکشر پٹیل کو ٹیم میں شامل کیا گیا تھا لیکن بعد میں انھیں بھی ٹیم سے نکال کر شاردول ٹھاکر کو شامل کیا گیا۔ جہاں تک محمد شامی کا تعلق ہے تو وہ بھی فارم میں نظر نہیں آئے اور جب وہ فارم میں آئے تب تک سب کچھ ختم ہو چکا تھا۔

آخر کار جب ٹورنامنٹ سے بوریا بستر سمیٹنے کا وقت آیا تو آر اشون ٹیم میں نظر آئے۔ انہوں نے افغانستان کے خلاف چار اوورز میں 14 رنز کے عوض صرف دو اور افغانستان کے خلاف ایک وکٹ لے کر اپنی افادیت دکھائیے۔ وہ دیر آئے درست آئے جیسی کہاوت کو بھی صحیح ثابت نہیں کر سکے کیونکہ وہ پاکستان اور نیوزی لینڈ کے خلاف آخری گیارہ میں شامل نہیں تھے۔

جسپریت بمراہ نے بھی انڈیا کو کافی مایوس کیا کیونکہ پہلے دو میچوں میں نہ تو ان کے یارکر پر اثر تھے اور نہ ہی باؤنسر۔

بلے بازوں کی ناکامی لے ڈوبی

یہ درست ہے کہ اگر انڈیا کے ابتدائی میچ افغانستان، سکاٹ لینڈ یا نمیبیا کے خلاف ہوتے تو شاید انڈیا کے بلے باز کے ایل راہول، روہت شرما اور وراٹ کوہلی کے علاوہ رشبھ پنت اپنے کھاتے میں کچھ اچھی اننگز کے ساتھ باقی میچ کھیلتے لیکن پہلے پاکستان اور پھر نیوزی لینڈ کے ہاتھوں شکست ٹیم پر بھاری پڑی۔

پاکستان کے خلاف کے ایل راہول اور روہت شرما بڑی اننگز کھیلنے میں ناکام رہے جس سے مڈل آرڈر متاثر ہوا اور وہ دباؤ میں بکھر گیا۔

وراٹ کوہلی اور رشبھ پنت نے وکٹ پر زبردست رنز بنائے لیکن وہ رنز بنانے کی رفتار کو تیز نہ کر سکے۔ نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیم 110 رنز ہی بنا سکی۔

نتیجہ یہ نکلا کہ افغانستان اور سکاٹ لینڈ کے خلاف روہت شرما اور کے ایل راہول کی مضبوط اننگز بھی انڈیا کے کام نہ آسکی۔ دراصل اس ورلڈ کپ میں انڈیا کی ناکامی کی پہلی وجہ ٹیم کی کمزور بلے بازی تھی خاص طور پر پہلے دو میچوں میں۔

وراٹ کوہلی اور روی شاستری کے بارے میں فیصلے

سب کو معلوم تھا کہ اس ورلڈ کپ کے بعد انڈیا کے کوچنگ سٹاف میں تبدیلی کی جائے گی جس میں ہیڈ کوچ روی شاستری بھی شامل ہیں اور ٹورنامنٹ کے دوران ہی ان کی جگہ سابق کپتان راہول ڈراوڈ کے نام کا اعلان بھی کیا گیا۔

انگلینڈ میں کھیلی جانے والی کرکٹ سیریز کے دوران یہ بھی فیصلہ کیا گیا تھا کہ وراٹ کوہلی آخری بار ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں انڈیا کی کپتانی کرتے نظر آئیں گے۔

اس کے بعد وراٹ کوہلی نے بھی آئی پی ایل میں اپنی فرنچائز رائل چیلنجرز کی کپتانی چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔ اگر ان کی ٹیم آئی پی ایل جیتنے میں ناکام رہی تو انڈین ٹیم بھی انھیں ورلڈ کپ میں ٹائٹل جیتنے کا تحفہ دینے میں ناکام رہی۔

دبے لفظوں میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ٹیم کے زیادہ تر سینیئر کھلاڑی ان کے رویے سے دکھی ہیں۔ خود وراٹ کوہلی نے انگلینڈ میں دوسرا ٹیسٹ میچ ہارنے کے بعد کہا تھا کہ ٹیم کے کچھ کھلاڑی کھیل میں اپنی پوری طاقت یا صلاحیت کا استعمال نہیں کر رہے ہیں۔

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کوچ روی شاستری کو ہٹایا جانا اور وراٹ کوہلی کے ورلڈ کپ کے بعد کپتانی چھوڑنے کے فیصلے نے ٹیم میں منفی سوچ پیدا کر دی تھی۔ شاید اسی وجہ سے کوچ روی شاستری اور کپتان وراٹ کوہلی فیصلے کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھے۔ ٹیم کے انتخاب اور نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیم میں بڑی تبدیلیاں اس کی عکاسی کرتی ہیں۔

ٹیم پر آئی پی ایل کی ٹھکاوٹ حاوی

انڈین ٹیم کے اہم کھلاڑی اور فاسٹ بولر جسپریت بمراہ نے ورلڈ کپ کے دوران پریس کانفرنس میں کہا کہ طویل عرصے سے بائیو ببل میں رہنے کی وجہ سے ٹیم ذہنی طور پر تھکن کا شکار ہے۔

گیند بازوں کو تو چھوڑیں بلے باز تک تھکے ہوئے نظر آئے اور آئی پی ایل کے دوران ہی اس کی جھلک نظر آ رہی تھی۔ سوریا کمار یادیو، ایشان کشن، روہت شرما، آر اشون، ہاردک پانڈیا، بھونیشور کمار اور راہول چاہر متحدہ عرب امارات میں آئی پی ایل کے دوسرے مرحلے میں اپنی جگہ بنانے میں ناکام رہے اور اسی فارم اور فٹنس کے ساتھ انھوں نے ورلڈ کپ کھیلا۔

تھکے ہارے جسم اور ذہن کے ساتھ ورلڈ کپ جیسا اہم ٹورنامنٹ صرف معجزوں پر جیتا جاتا ہے اور وہ بھی اس وقت جب ٹیم اپنے نہیں بلکہ افغانستان کے نتیجے پر انحصار کرنے کی صورت حال تک پہنچ گئی ہو۔

اس ورلڈ کپ میں تو انڈیا کا کھیل ختم ہو چکا ہے لیکن اتفاق سے اگلا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ بھی ایسے ہی حالات کے درمیان کھیلا جائے گا جب پہلے آئی پی ایل اور پھر ورلڈ کپ ہوگا۔ کیا پھر بی سی سی آئی اپنے کھلاڑیوں کو آئی پی ایل سے دور رکھ کر تر و تازہ ہو کر کھیلنے کا موقع دے گا جیسا کہ انگلینڈ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے کھلاڑیوں نے کیا ہے۔

اس ورلڈ کپ میں سیمی فائنل سے پہلے ہی انڈیا کا باہر ہونا آئی سی سی کے کسی بھی ٹورنامنٹ کو جیتنے کا کپتان وراٹ کوہلی کا خواب ایک بار پھر توٹ گیا ہے۔

وہ 2017 میں آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں پاکستان سے اور 2019 کے آئی سی سی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ سے ہار گئے تھے۔ اسے قسمت کی ستم ظریفی سمجھیں کہ اب بھی پاکستان اور نیوزی لینڈ نے ان کے خواب کو چکنا چور کیا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں