ہر ایک سے بات لیکن ناراض بلوچوں کو نہ کیوں؟
(ڈیلی طالِب)
صوبے بچوں کی طرح ہوتے ہیں۔ جب والدین کسی ایک بچے کو کوئی چیز خرید کر دیتے ہیں تو دوسرے بچے فوراً یا تو وہی یا اس جیسی چیز کی فرمائش کرتے ہیں۔ ماں باپ کے سامنے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔
والدین جو بھی بہانہ کریں بچوں کا ایک ہی جواب ہوتا ہے: آپ مجھ سے اتنا پیار نہیں کرتے جتنے بھائی یا بہن سے کرتے ہیں۔ بڑے اگر ایسی شکایت کریں تو والدین اسے emotional blackmail کا نام دیتے ہیں لیکن بچے اسے امتیازی سلوک ہی کہتے ہیں اور بعض اوقات اس رویے کو لے کر والدین سے باغی ہو جاتے ہیں۔
ریاست بھی ماں کی طرح ہوتی ہے۔ ہماری حکومت نے کئی سالوں سے یہی رویہ اپنایا ہوا ہے کہ ملک کے ایک خطے میں تو ’ملک دشمن عناصر‘ سے مذاکرات ہوتے ہیں، کالعدم تنظیموں کے رہنماؤں کو رہا کیا جاتا ہے اور ان پر حکومت کا دست شفقت بار بار دیکھنے میں آتا ہے لیکن بلوچستان جیسے چھوٹے صوبے میں وہی پالیسی نہیں اپنائی جاتی۔
صوبے میں جاری شورش کو اب 20 سال ہونے کو ہیں لیکن اس تمام عرصے میں اسلام آباد نے پاکستانی طالبان کے ساتھ کئی مرتبہ مذاکرات کیے اور انہیں تمام ملک دشمن کارروائیوں کے باجود ایک اور موقع دیا لیکن بلوچستان میں اسلام آباد بدستور اس بات پر بضد ہے کہ ’ملک دشمن عناصر‘ سے رعایت نہیں برتی جائے گی۔
صوبے میں فوجی کارروائیوں میں شدت دیکھنے میں آرہی ہے۔ پچھلے دنوں حکومت نے ایک جھڑپ میں 14 ’شرپسندوں‘ کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔ یہ تمام بظاہر ماورائے عدالت ہلاکتیں ہیں۔ ان کا کوئی جواز نہیں اور نہ ہی ایسی کارروائیوں سے صوبہ میں امن و امان قائم کیا جاسکتا ہے۔
ماضی میں بلوچستان پر بننے والی کمیٹوں یا امن قائم کرنے کی کوششوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان تحریک انصاف سب سے تیزی سے اور بری طرح ناکام ہوئی۔
البتہ ایسی جارحانہ پالیسی کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جب ایک آبادی پر کئی سالوں تک فوج کشی ہو اور وہاں حکومتی مظالم بدستور جاری رہیں وہاں لوگوں کے دل سے حکومت کا خوف ختم ہو جاتا ہے۔ لوگ تشدد کے عادی ہو جاتے ہیں اور خون خرابہ روز مرہ کا معمول بن جاتا ہے جو کہ کسی بھی خطے کے امن کی لیے نیک شگون نہیں ہے۔
حکومت اور کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے درمیان حال ہی میں جو معاہدہ ہوا اسے پوشیدہ رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اس کا نتیجہ تو پوری قوم کے سامنے ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ جن لوگوں کو حکومت نے ’دہشت گرد‘ قرار دیا تھا اور ان پر یہ الزام لگایا کہ انہیں بھارت سے مالی امداد مل رہی ہے انہی کو حکومت نے اب غیرمشروط طور پر درگزر کر دیا ہے۔ حکومت نے یہ سوچنے کی بھی زحمت تک نہیں کی اس اقدام سے ان پولیس اہلکاروں کے اہل خانہ پر کیا گزرے گی جو ان ہی مظاہرین کے ہاتھوں جان سے گئے۔
حکومت اور کالعدم ٹی ایل پی کے درمیان مذاکرات نے ایک بار پھر یہی سوال اٹھایا ہے کہ اگر ریاست ان سے مذاکرات کر سکتی ہے تو بلوچستان میں بلوچ عسکری قوتوں کے ساتھ وہی سلوک کیوں نہیں اپنایا جاسکتا؟ چھوٹے صوبوں میں یہ تاثر بھی عام ہے کہ اگر ٹی ایل پی کا تعلق پنجاب سے نہ ہوتا اور اگر یہ پشتون تحفظ موومنٹ کی طرح کی کوئی عوامی تحریک ہوتی تو شاید ان پر اسلام آباد اتنا مہربان نہیں ہوتا جتنا پنجاب کی اس کالعدم جماعت پر ہے۔
ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ملک کے مقتدر حلقوں کو چھوٹے صوبوں میں جاری مظاہروں سے اتنی تکلیف نہیں ہوتی جتنی پنجاب کی شاہراہوں کی بندش سے ہوتی ہے۔ نئے وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بـزنجو نے اسلام آباد میں صرف اتنا کہا ہے کہ وہ ناراض بلوچوں کے ساتھ رابطے میں ہیں تاہم ان رابطوں کی نوعیت کیا ہے یہ نہیں بتایا۔
تحریک لبیک کو دی جانے والی رعایت اور معافی سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اگر ریاست چاہے تو کوئی بھی ’گناہ‘ معاف کرسکتی ہے اور یہ کہنا کہ کوئی بھی سیاسی معاملہ point of no return تک پہنچا ہے درست نہیں ہوگا۔ بلوچستان کو خصوصی توجہ اس وقت مل سکتی ہے جب اسلام آباد میں اس کے ویسے ہی وکیل اور حامی ہوں جو ہم نے ٹی ایل پی کے سلسلے میں دیکھے۔ انتہائی بااثر شخصیات (بشمول وفاقی وزرا) نے اپنا کردار ادا کر کے اس معاملہ کو حل کرنے کی کوشش کی۔
اب اگر کوئی یہ کہے گا کہ ’ناراض بلوچوں‘ سے مذاکرات اس لیے نہیں ہوں گے کہ وہ ’ملک دشمن‘ ہیں تو یہ بات تسلیم کرنا مشکل ہوگا۔ اگر کوئی یہ کہہ کر مذاکرات کی حوصلہ شکنی کرے کہ بلوچ قوم پرست دہشت گرد ہیں اور انہیں بھارت سے امداد مل رہی ہے تو جواباً یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ سب کچھ چند دن پہلے ٹی ایل پی کے بارے میں بھی کہا گیا تھا لیکن لگتا ہے کہ ایسے الزامات محض حکومتی talking pointsہیں جو کئی دہائیوں سے ہماری سیاست میں مخالفین کے خلاف استعمال ہوتے آرہے ہیں۔
ایک طرف تو مذہبی قوتوں کے ساتھ بار بار مذاکرات کر کے اور انہیں محفوظ راستہ دے کر بلوچستان کے لوگوں کے دلوں میں امید پیدا کی جاتی ہے کہ اگر اسلام آباد چاہے تو بلوچستان میں بھی مذاکرات کا ایسا ہی عمل شروع ہوسکتا ہے، دو دہائیوں سے جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد واپس اپنے گھروں کو لوٹ سکتے ہیں، شہر شہر قصبہ قصبہ قائم غیرضروری نیم فوجی چوکیوں کا خاتمہ ہوسکتا ہے، ملک سے باہر بیٹھے ہوئے بلوچ رہنما وطن واپس آکے ’قومی دھارے‘ کا حصہ بن سکتے ہیں بشرطیکہ بلوچستان کے معاملہ کو اسی سنجیدگی سے لیا جائے جیسے پاکستانی طالبان اور ٹی ایل پی کے معاملہ کو لیا گیا۔
دوسری طرف ہر نئی حکومت بھی اقتدار میں آنے کے فوری بعد بلوچستان میں صلح اور مفاہمت کا شوشہ شروع کرتی ہے۔ سابق حکمرانوں کے برعکس وزیراعظم عمران خان نے عجلت کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ حکومت میں آنے کے تین سال بعد چند مہینے قبل ہی یہ اعلان کیا کہ وہ بلوچستان میں علحیدگی پسند بلوچوں سے مذاکرات کے حق میں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب بھی بلوچستان میں مذاکرات کی باتیں ہوتی ہیں تو انہیں چند قوتیں سبوتاژ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔ خان صاحب کے اعلان کے بعد بھی وہی ہوا۔
وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے فوری طور پر مذاکرات کا سکوپ یہ کہہ کر محددو کر دیا کہ حکومت صرف ان ناراض بلوچوں سے مذاکرات کرے گی جن کا بھارت سے کوئی تعلق ہی نہیں جبکہ سابق وزیر اعلیٰ جام کمال اور حکومتی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنماؤں نے فوری طو پر یہ کہنا شروع کیا کہ انہیں نہیں لگتا کہ بلوچستان میں واقعی کوئی ناراض قوتیں ہیں۔
معاملے سے توجہ ہٹانے کی خاطر انہوں نے کہا کہ ہاں ناراض لوگ ضرور ہیں لیکن یہ وہ ہیں جو روزگار، بجلی، پانی اور زندگی کی دیگر سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے ’ناراض‘ ہیں۔ یقیناً وزیراعظم کا اشارہ ناراض بلوچوں کے اس طبقے کی طرف نہیں تھا بلکہ وہ ان لوگوں کی طرف اشارہ کر رہے تھے جو دو دہائیوں سے صوبے میں علحیدگی کی مسلح تحریک چلا رہے ہیں۔
وزیراعظم کے اس اعلان کو ملک کے تمام سنجیدہ طبقات نے سراہا کہ وہ بلوچستان کے مسئلہ کا ایک ایسے وقت میں حل چاہتے ہیں جب افغانستان کی صورت حال گھمبیر ہوتی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے نواب اکبر بگٹی مرحوم کے پوتے شاہ زین بگٹی کو اپنا خصوصی معاون بھی مقرر کیا۔
اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ ان کی بلوچستان کے معاملے اور تنازعے میں شامل فریقین کے بارے میں آگاہی کتنی محدود ہے۔ شاہ زین کے نام کا اعلان ہی کیا ہوا کہ معاملہ اسی دن ختم ہوگیا۔ کچھ نے وزیراعظم کی بلوچستان کے معاملات سے نابلدی کا مذاق اڑیا تو کچھ نے ان کی سنجیدگی پر سوال کیا۔ تاہم اس کے بعد کچھ نہیں ہوا۔ معاملہ ایک مرتبہ پھر سیاسی سرد خانے میں چلا گیا۔
اگر ماضی میں بلوچستان پر بننے والی کمیٹوں یا امن قائم کرنے کی کوششوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان تحریک انصاف سب سے تیزی سے اور بری طرح ناکام ہوئی۔ مسلم لیگ ق کے دور وزارت اعلیٰ میں سینیٹرز وسیم سجاد اور مشاہد حسین سید نے کم از کم اہم بلوچ رہنماوں سے ملاقاتیں کیں اور پارلیمانی کمیٹی نے بلوچستان سے متعلق اپنی رپورٹ جاری کی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں ’آغاز حقوق بلوچستان‘ نامی پیکج اور اٹھارویں ترمیم کی صورت میں اس وقت کی حکومت نے کم از کم اعتماد سازی کی ایک بڑی کوشش کی۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے دور میں اس وقت کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ نے بیرون ملک چند ناراض بلوچ رہنماؤں سے ملاقاتیں کر کے مذاکراتی عمل کو آگے برھانے کی کوشش کی۔
تینوں حکومتوں کی کوششوں میں واضح طور پر یہی بات مشترک ہے کہ یہ سب بلوچستان کے مسئلے کو مستقل طو پر حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئیں اور صوبے میں شورش ہنوز جاری ہے۔ جن لوگوں کو معاملات حل کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی انہوں نے اپنی طرف سے کوشش ضرور کی لیکن پی ٹی آئی کے معاملے میں ہم دیکھتے ہیں کہ وزیراعظم کا اعلان محض ایک اعلان ہی رہا۔ تاحال پتہ نہیں کہ شاہ زین بگٹی کیا کر رہے ہیں۔ کیا وہ بلوچستان کے معاملات پر کوئی حقائق جاننے کی رپورٹ لکھ رہے ہیں یا ناراض بلوچ رہنماؤں سے خفیہ ملاقاتیں کر رہے ہیں؟ کسی کو کچھ پتہ نہیں۔
وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں عوام کا حق بنتا ہے کہ انہیں پتہ تو چلے کہ معاملہ کہاں تک پہنچا ہے۔ ایسا کیوں کہ تحریک لبیک کے ساتھ مذاکرت چند دنوں میں اپنے منطقی انجام کو پہنچ جاتے ہیں جب کہ بلوچستان سے متعلق ان کا کوئی ٹائم فریم ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کو پتہ چلتا ہے ہے کہ پس پردہ کیا ہو رہا ہے؟
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
- About the Author
- Latest Posts
Ghufran Karamat is a Senior Columunts who work With Daily talib