پاکستان میں موٹر سائیکل کی بڑھتی قیمتیں: ’غریب یا تو بچے پال لے یا سواری خرید لے‘
(ڈیلی طالِب)
کراچی کے 24 سالہ محمد شان نے ہر نوجوان کی طرح اپنی زندگی کے لیے کچھ خواب دیکھ رکھے ہیں، اِن چھوٹے بڑے، کچھ ممکن اور بہت سے ناممکن خوابوں میں سے ایک خواب موٹر سائیکل کا مالک بننا بھی ہے۔
ایک پرائیویٹ ادارے میں 20 ہزار کی ملازمت سے کئی سال تک پیسے جمع کرنے کے بعد جب کچھ دن پہلے وہ موٹر سائیکل شوروم پہنچے تو پتہ چلا کی اُن کی پسندیدہ ’بائیک‘ ون ٹو فائیو (ہونڈا سی جی ون ٹو فائیو) کی قیمت اُس قیمت سے کئی ہزار روپے بڑھ چکی تھی جو انھیں معلوم تھی۔
حالیہ دنوں میں پاکستان میں موٹر سائیکلوں کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتیں محمد شان جیسے ہزاروں نوجوانوں کے دل توڑ رہی ہیں۔ آخر موٹر سائیکلوں کی قیمتوں کو پَر لگنے کی وجہ کیا ہے، آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
’بائیک‘ کتنے کی ملے گی؟
پاکستان میں موٹر سائیکل کو متوسط اور نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی سواری تصور کیا جاتا ہے۔ اکثر شہروں اور دیہات میں مربوط پبلک ٹرانسپورٹ کی غیر موجودگی میں موٹر سائیکلیں ہی آمد و رفت کا واحد، مؤثر اور سستا ذریعہ ہیں۔ لیکن گذشتہ کئی سالوں میں موٹر سائیکلوں کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔
صرف رواں سال سب سے مقبول سی ڈی 70 ماڈلز پر 18 ہزار روپے جبکہ 125 سی سی اور 150 سی سی ماڈلز پر 55 ہزار روپے تک کا اضافہ ہوا ہے۔
یکم نومبر کو ہونے والے حالیہ اضافے میں اٹلس ہونڈا لمیٹڈ نے اپنے مختلف ماڈلز پر یکمشت چھ ہزار روپے تک کا اضافہ کیا ہے۔ ہونڈا سی ڈی 70 کی قیمت اضافے کے بعد 94,900 روپے ہو گئی ہے۔ جبکہ 125 سی سی ماڈل کی قیمت ایک لاکھ باون ہزار پانچ سو روپے کر دی گئی ہے۔ اِس سال اٹلس ہونڈا لمیٹڈ کی جانب سے قیمتوں میں یہ ساتواں اضافہ ہے۔
بسوں کے دھکے
محمد شان بتاتے ہیں کہ روز گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر آنے جانے کے لیے وہ بس کا استعمال کرتے ہیں جو ایک لمبا اور تھکا دینے والا سفر ہوتا ہے۔
’میرے روزآنہ تین سے چار گھنٹے بسوں میں گزر جاتے ہیں۔ دو دو بسیں بدلنی پڑتی ہیں جس میں بہت وقت لگ جاتا ہے۔ کبھی کبھی رش کی وجہ سے جگہ بھی نہیں ملتی۔ اکثر آفس دیر سے پہنچتا ہوں جس کی وجہ سے آفس والے بہت پریشان کرتے ہیں۔‘
شان کے خیال میں اِن سب مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ وہ ایک موٹر سائیکل خرید لیں۔
’میں کئی سال سے ’بائیک‘ خریدنے کا سوچ رہا ہوں۔ اِس طرح میں ٹائم پر آفس جاؤں گا اور ٹائم پر واپس آؤں گا۔ میرا بہت وقت بچے گا اور ٹینشن بھی ختم ہو جائے گی۔‘
سب کی پسندیدہ ’بائیک‘
محمد شان کی پسندیدہ موٹر سائیکل 125 (ہونڈا سی جی ون ٹو فائیو) ہے جو پاکستان میں نوجوانوں کی مقبول ترین موٹر سائیکل سمجھی جاتی ہے۔ لیکن اب یہ شان کی قوتِ خرید سے باہر ہو چکی ہے۔
’اب جو قیمتیں چل رہی ہیں اُس میں تو عام بندہ افورڈ نہیں کر سکتا۔ بائیکیں اتنی ہائی فائی ریٹ پر چل رہی ہیں بندہ کہاں سے لے بائیک۔ میں نے مارکیٹ ٹچ کی ہے 125 اب ڈیڑھ لاکھ سے اوپر چلی گئی ہے۔ تو میں کیسے خرید سکتا ہوں۔‘
برانڈڈ جاپانی موٹر سائیکلوں کے مقابلے میں مقامی اور چینی ماڈلز بھی اب کوئی بہت سستا نسخہ نہیں رہے ہیں۔
شان کہتے ہیں کہ ’چائنہ کی بائیکیں بھی ستر، اسّی ہزار تک پہنچ گئی ہیں۔ سیکنڈ ہینڈ بائیک بھی تیس، پینتیس ہزار کی مل رہی ہے۔ بیس ہزار تنخواہ والا پینتیس ہزار کی گاڑی کیسے اُٹھائے۔ قسطوں پر بھی لے تو بیس ہزار ایڈوانس اور مہینے کی چار پانچ ہزار کی قسط کون برداشت کرے۔ پھر پیٹرول اتنا مہنگا ہو چکا ہے کہ بائیک رکھنا بہت مشکل کام ہے۔‘
موٹر سائیکل مہنگی کیوں؟
پاکستان میں سالانہ پچیس سے تیس لاکھ موٹر سائیکلیں تیار کی جاتی ہیں۔ قیمتوں میں حالیہ اضافے کے پیچھے کارفرما عوامل جاننے کے لیے ہم نے ’ایسوسی ایشن آف پاکستان موٹر سائیکل اسمبلرز‘ کے چیئرمین صابر شیخ سے رابطہ کیا تو اُنھوں نے کئی وجوہات گنوائیں۔
’اِس کی ایک وجہ تو ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہے۔ دوسرا موٹر سائیکل کی تیاری میں استعمال ہونے والا خام مال کئی سو گنا مہنگا ہوا ہے۔ اِس کے علاوہ چین سے درآمد ہونے والے پارٹس پر مال برداری کے اخراجات بھی بہت بڑھ گئے ہیں۔ درآمدی کنٹینرز کا کرایہ ایک ہزار ڈالر سے نو ہزار ڈالر پر پہنچ گیا ہے۔‘
صابر شیخ نے دعویٰ کیا کہ کورونا لاک ڈاؤن کے دوران کچھ فیکٹریاں بند ہوئیں تو اُنھوں نے خام مال کی ذخیرہ اندوزی کر لی۔ اِس وجہ سے موٹر سائیکل کی تیاری میں استعمال ہونے والا لوہا، المونیم اور پلاسٹک مہنگا ہو گیا جس کا اثر قیمتوں پر پڑا۔
کیا قیمتیں کم ہوں گی؟
صابر شیخ کے مطابق پاکستان میں موٹر سائیکلوں کی قیمتوں میں فی الحال کمی کا امکان نہیں۔ لیکن اُنھوں نے امید ظاہر کی کہ اگلے سال کے آخر تک قیمتیں کم ہو سکتی ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’موٹر سائیکل کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ میں لانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت طویل مدتی مستقل پالیسیاں بنائے۔ موٹر سائیکل تیار کرنے والی انڈسٹری کو مراعات دی جائیں تاکہ وہ آزادانہ انداز میں کام کر سکے۔‘
’گذشتہ دس سالوں میں ہم موٹر سائیکلوں کے اسّی فیصد پُرزے بنانے لگے ہیں۔ لیکن جو ماڈلز ہم بنا رہے ہیں وہ پچاس پچاس سال پرانے ہیں اور اب دنیا میں بننے بند ہو گئے ہیں۔ ہماری انڈسٹری کے پاس یہ صلاحیت ہی نہیں ہے کہ وہ جدید ڈیزائن کی موٹر سائیکلیں بنا سکے۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ انڈسٹری کو جدید ٹیکنالوجی دی جائے۔‘
خواب جو ادھورا رہ گیا!
موٹر سائیکل ڈیلرز کے مطابق قیمتوں میں اضافے کے باوجود مہنگی برانڈڈ موٹر سائیکلوں جیسے ہونڈا، سوزوکی اور یاماہا کی مانگ بڑھ رہی ہے اور اِن ماڈلز کی فروخت میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
اِس کے برعکس مقامی اور چینی برانڈز کی فروخت میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔ شو روم مالکان اِس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ اِن موٹر سائیکلوں کا خریدار کم آمدنی والا طبقہ ہے جو بڑھتی مہنگائی کے باعث یہ سستی موٹر سائیکلیں بھی نہیں خرید پا رہا ہے۔
اِسی طرح قسطوں پر موٹر سائیکلیں بیچنے والوں کا کاروبار بھی متاثر ہوا ہے کیونکہ متوسط اور غریب طبقہ اب ماہانہ قسطیں ادا کرنے کے قابل نہیں رہا۔
اُدھر محمد شان کو فی الحال اپنا موٹر سائیکل کا مالک بننے کا خواب پورا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ اُنھیں نہیں لگتا کہ اگلے دس سال تک بھی وہ موٹر سائیکل خریدنا افورڈ کر سکیں گے۔
’میں دس ہزار روپے گھر کا کرایہ دیتا ہوں۔ تین چار ہزار میرے آنے جانے کے کرائے میں لگ جاتے ہیں۔ باقی کیا بچتا ہے۔ بچوں کی سکول کی فیسیں ہیں، کھانے پینے کے اخراجات۔ اوپر سے بجلی کے بل اتنے زیادہ آ رہے ہیں۔‘
’اب بائیک جیسی چیز کے لیے بندہ پیسے کیسے جمع کرے۔ بندہ یا تو گھر چلا لے بچے پال لے یا پھر موٹر سائیکل خرید لے۔‘