سلالہ حملہ: جب پاکستان نے امریکہ کو آنکھیں دکھائیں
(ڈیلی طالِب)
یہ 26 نومبر 2011 کی معمول کی رات تھی، جب قبائلی ضلع مہند میں پاک افغان بارڈر پر واقع سلالہ چیک پوسٹ پر پاکستان فوج کے موجود سپاہیوں کو رات کے تقریبا دو بجے ہیلی کاپٹرز کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔
سلالہ اس پہاڑ کا نام ہے جس پر یہ دو ‘آتش فشاں’ اور ‘بولڈر’ نام سے چیک پوسٹیں قائم تھیں۔
جنگی جہاز پاکستان کی حدود میں تقریباً دو کلومیٹر تک داخل ہوگئے تھے اور انہوں نے سلالہ کے مقام پر دو پاکستانی فوج کی چوکیوں پر حملہ کیا۔ اس حملے کے نتیجے میں پاکستانی حکام کے مطابق 24 سکیورٹی اہلکار جان سے گئے جبکہ 13 زخمی ہوئے تھے۔
آج سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملے کے دس سال مکمل ہوگئے ہیں لیکن پاکستان کی تاریخ میں امریکہ کی جانب سے اس قسم کے کھلے عام حملے کی یادیں اب بھی لوگوں کے ذہنوں پر نقش ہیں۔
پاکستان اور امریکہ کے سفارتی تعلقات میں یہ پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ کسی امریکی حملے میں اتنے زیادہ تعداد میں پاکستانی سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے ہوں اور اس پر پاکستان کی جانب سے جو رد عمل آیا تھا وہ بھی مبصرین کے مطابق بہت سخت اور غیرمعمولی تھا۔ آٹھ ماہ تک نیٹو سپلائی کی بندش افغانستان میں جاری جنگ کے دوران سب سے بڑا تعطل تھا۔
سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملے کے وقت ملک کے وزیر اعظم پاکستان پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی تھے۔ حملے کے بعد پاکستانی حکام کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا تھا اور اس واقعے کو پاکستان کی خودمختاری پر حملہ قرار دیا گیا تھا۔ اس وقت کے پاکستان فوج کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے حملے کے ردعمل میں بتایا تھا: ’اس غیر ذمہ دار حرکت (حملے کا) موثر انداز میں جواب دینے کے لیے اقدمات اٹھائے جائیں گے۔‘
پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے چیک پوسٹوں پر نیٹو کے حملوں کو دانستہ، پہلے سے منصوبہ بندی اور سوچا سمجھا منصوبہ قرار دیا۔ پاکستان نے ان کی جانب سے کسی بھی فائرنگ کے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جب نیٹو نے رات کو حملہ کیا تو فوجی آرام کر رہے تھے۔ اس وقت کے فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے نیٹو کو چیلنج کیا تھا کہ اگر وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستانی جانب سے فائرنگ شروع کی گئی تو وہ ثبوت پیش کریں۔ ’ہماری طرف سے کوئی گولی نہیں چلائی گئی تھی۔‘
سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد وفاقی دفاعی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا تھا جس میں گیلانی کی سربراہی میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان کے راستے افغانستان میں موجود نیٹو افواج کو اشیا کی سپلائی بند کی جائے گی۔ یوں طورخم بارڈر اور چمن بارڈر کے راستے افغانستان کو جانے والی نیٹو سپلائی بند کردی گئی۔
امریکی پالیسی سازوں نے روس، قازقستان، ازبکستان اور تاجکستان کے ذریعے متبادل راستے تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن یہ پاکستان سے گزرنے والے راستوں سے زیادہ طویل، مہنگے اور کم موثر ثابت ہوئے۔ روس کے ذریعے نیٹو کی سپلائی لائن پہلے ہی میزائل دفاعی منصوبوں پر کشیدگی کی وجہ سے بند ہونے کے خطرے سے دوچار تھی۔
پاکستان نے احتجاج میں دسمبر میں بون میں افغانستان کے مستقبل سے متعلق کانفرنس میں بھی شرکت سے انکار کر دیا تھا۔
نیٹو نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا اور اپنی غلطی کا اعتراف کیا۔ امریکی حکومت نے بھی ‘تعزیت’ کی۔ صدر باراک اوباما نے اس حملے کو ‘المیہ’ قرار دیا لیکن امریکہ پاکستان سے غیر مشروط معافی مانگنے سے گریزاں رہے۔ پینٹاگون کا موقف تھا کہ اس واقعے پر اس کی تعزیت اور افسوس آگے بڑھنے کے لیے کافی ہیں۔
حملے اور نیٹو سپلائی کے بند ہونے کے بعد امریکہ نے سلالہ حملے پر پاکستان سے معذرت بھی کی تھی اور پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش بھی کی تھی، جس میں وہ بہت حد تک کامیاب ہوگئے تھے کیونکہ 3 جولائی 2012 میں اس وقت امریکہ کی سیکریٹری آف سٹیٹ ہیلری کلنٹن نے ذاتی طور پر حملے کی معافی مانگی تھی۔
تقریبا آٹھ ماہ کے بھرپور پاکستانی جواب کے بعد 12جولائی 2012 کو نیٹو سپلائی دوبارہ بحال ہوئی اور طورخم اور چمن کے راستے سامان سے لدھے ٹرک افغانستان روانہ ہوگئے۔ اسی حملے کے بعد پاکستانی حکومت نے امریکہ کے زیر نگرانی پاکستان میں چلنے والا شمسی ائیر بیس بھی خالی کرنے کا بتایا تھا، جس سے ڈرون حملے کیے جاتے تھے۔
حملے کے بعد نیٹو سپلائی کی دوبارہ بحالی پر اس وقت اپوزیشن کی جانب سے بہت مخالفت کی گئی تھی۔ تاہم اس وقت کے وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ اس حوالے سے کہتے تھے کہ اپوزیشن تو نیٹو سپلائی کی بحالی کی مخالفت کر رہی ہے لیکن مجھے امید ہے کہ عوام ان کو نہیں سنیں گے۔
کائرہ نے کہا تھا:’ امریکہ کی جانب سے معافی مانگنا پاکستان کے لیے کوئی بڑی فتح ہے نہ کسی کے لیے شکست، لیکن ہم نے امریکہ کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ پاکستانی عوام سے معافی مانگے۔‘
سلالہ حملہ کئی ہفتوں تک پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا کی خبروں کی زینت بنا رہا تاہم جائے وقوعہ تک میڈیا کے نمائندوں کو سکیورٹی وجوہات کی بنا پر رسائی نہیں دی گئی تھی۔
عوامی غم و غصہ
رفعت اللہ اورکزئی پشاور اور قبائلی اضلاع میں گزشتہ کئی برسوں سے صحافت کر رہے ہیں۔ جس وقت سلالہ پر حملہ ہوا تھا تو وہ پشاور میں موجود تھے۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حملے کے بعد پاکستانی حکام کی جانب سے شدید ردعمل دیکھنے کو ملا تھا جب کہ ردعمل میں نیٹو سپلائی بھی معطل کی گئی تھی۔
رفعت نےبتایا،’ نیٹو سپلائی کی بندش سے امریکہ بہت پریشان تھا کیونکہ اس وقت پاکستان کے راستے افغانستان میں نیٹو کو سپلائی کا یہی مختصر روٹ تھا اور نیٹو کو سامان پہنچانا بھی ضروری تھا۔ ‘
رفعت نے بتایا کہ وہ خود جائے وقوعہ پر نہیں گئے تھے کہ وہاں پر کیا صورت حال تھی، کیونکہ میڈیا کو وہاں تک رسائی نہیں دی گئی گئی تھی۔
انہوں نے کہا، ’تاہم ہم نے یہ ضرور نوٹ کیا تھا کہ عوام میں امریکہ کے خلاف شدید غم و غصہ تھا۔ سلالہ حملے کے بعد اسلام آباد میں تاجروں، صحافیوں اور وکلا کی جانب سے مظاہرے بھی کیے گئے تھے جس میں سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کی مذمت کی گئی تھی۔‘
روئٹرز کے مطابق حملے کے اگلے دن ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین کراچی میں امریکی سفارت خانے کے باہر سلالہ حملے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔
خیال ہے کہ پاکستان کے اصولی موقف کی وجہ سے ایک دھائی قبل امریکہ میں یہ احساس بڑھا کہ دونوں ممالک کے دو طرفہ تعلقات کو برابری اور پروقار رکھنے کے لیے نئے اصولوں پر دوبارہ تعمیر کیا جانا چاہیے۔