‘کسی کو اچھا لگے یا برا، ہمیں عمران خان پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا، حقیقت یہی ہے’
(ڈیلی طالِب)
اعزاز سید کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت کے پاس دو سال سے بھی کم مدت رہ گئی ہے۔ جن لوگوں نے عمران خان کو انسٹال کیا، وہ اب مخمصے کا شکار ہیں کیونکہ ان کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے۔ وہ اب کوئی نیا بحران پیدا نہیں کرنا چاہتے۔
اعزاز سید نے کہا ہے کہ اس وقت عمران خان کو جو نقصان پہنچا سکتا ہے، کوئی اور نہیں وہ خود ہیں۔ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو بڑی حد کنٹرول کیا ہوا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ ہمیں ان پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے اسٹیبلشمنٹ کو بڑی حد تک کنٹرول کیا ہوا ہے، ان کے بڑے عمران خان کے ہاتھ میں ہیں۔ ان کو جب وہ استعمال کرنا چاہیں کر سکتے ہیں۔
گورنر پنجاب چودھری سرور کے حالیہ بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے اعزاز سید نے کہا کہ اس معاملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ ان کا ٹریک ریکارڈ یہ ہے کہ میاں نواز شریف ان کو بحیثیت گورنر پنجاب بنا کر یہاں لائے تھے، لیکن کچھ خلائی مخلوقوں کے آنے سے وہ پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ چودھری سرور کے اندر اپنا غصہ اور غبار ہے جس کا وہ اظہار کر رہے ہیں۔ جو انھیں لانے والے تھے، ان پر تو وہ اس چیز کا اظہار نہیں کر سکتے کیونکہ وہ ان سے ڈرتے ہیں۔ اس لئے جن کیلئے انھیں لایا گیا تھا، وہ اب ان پر تنقید کرنا شروع ہو گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گورنر پنجاب چودھری سرور کی تنقید سے حکومت گرنے والی نہیں ہے۔ صرف یہ ہوگا کہ اگر وہ اپنی حیثیت سے مزید آگے بڑھے تو انھیں بےعزت اور رسوا کرکے ان کے عہدے سے فارغ کر دیا جائے گا۔ ان کی اپنی حیثیت یہ ہے کہ وہ اپنے حلقے میں ایک کونسلر تک کا الیکشن نہیں لڑ سکتے۔
اعزاز سید کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت کے پاس دو سال سے بھی کم مدت رہ گئی ہے۔ جن لوگوں نے عمران خان کو انسٹال کیا، وہ اب مخمصے کا شکار ہیں کیونکہ ان کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے۔ وہ اب کوئی نیا بحران پیدا نہیں کرنا چاہتے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسٹیلشمنٹ کو علم ہے کہ مہنگائی کے معاملات کی وجہ سے عمران خان عوامی سطح پر غیر مقبول ہو چکے ہیں لیکن اپوزیشن جماعتوں میں ہی اتنی جان نہیں ہے۔ مریم نواز مقبول تو ہیں لیکن وہ عملی سیاست میں ابھی ایکٹو نہیں ہو سکتیں۔ بلاول کا وژن بڑا زبردست ہے، ان کی باتوں میں بہت وزن ہے لیکن پنجاب کی سطح پر انھیں ابھی تک شرف قبولیت نہیں دیا گیا۔
مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ چودھری سرور کا اے ٹی ایم سے زیادہ کوئی کردار نہیں ہے۔ میرے اندازے کے مطابق اگر انہوں نے پی ٹی آئی کو خیرباد کہا تو وہ مسلم لیگ (ن) میں واپس نہیں جائیں گے کیونکہ نواز شریف کو اگر کوئی ایک بار دھوکا دیدے تو وہ اسے معاف نہیں کرتے۔
ان کا کہنا تھا کہ امکان یہی ہے کہ چودھری سرور مسلم لیگ (ق)، ترین گروپ یا پیپلز پارٹی کیساتھ شامل ہو سکتے ہیں لیکن اب ان کا پی ٹی آئی کے اندر رہنا مشکل نظر آ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر چودھری سرور نے وزیراعظم عمران خان کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنانا ہے تو پہلے گورنر کا عہدہ چھوڑیں، اخلاقی طور پر ان کو زیب نہیں دیتا کہ وہ ایسا کریں۔ یہ کوئی سیاسی اخلاقیات نہیں ہیں جس کا مظاہرہ انہوں نے اپنے حالیہ بیان میں کیا ہے۔
ملک کی معاشی صورتحال پر بات کرتے ہوئے شاہد محمود کا کہنا تھا کہ لوگ بے وقوف نہیں ہیں۔ ان کی ہر معاملے پر نظر ہوتی ہے۔ عمران خان نے گذشتہ دنوں بیان دیا کہ ہمارے پاس حکومت چلانے کیلئے پیسے نہیں، پھر چودھری سرور نے کہپ دیا کہ ہم نے آئی ایم ایف کے سامنے ہر چیز گروی رکھ دی ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کی 3 ارب ڈالر کے عوض کڑی شرائط نے سٹاک مارکیٹ میں آج پیدا ہونے والی گراوٹ میں اہم کردار ادا کیا۔
شاہد محمود کا کہنا تھا کہ جب ملک کا وزیراعظم ہی ایسے بیانات دے کہ حالات ٹھیک نہیں، تو ایسی چیزیں تو ہوتی ہیں۔ اسی لئے آج سٹاک مارکیٹ کریش کر گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بات نوٹ کرنے والی ہے کہ عالمی سطح پر پیٹرول کی قیمتیں گر چکی ہیں۔ لیکن یہاں قیمتوں میں کوئی ردوبدل نہیں کیا گیا، یہ چیزیں سٹاک مارکیٹس کو سگنل بھیجتی ہیں کہ حالات ٹھیک نہیں ہیں۔