گوادر تحریک اور مولانا کی مقبولیت
(ڈیلی طالِب)
مکران، بلوچستان میں حالیہ انسرجنسی کا مرکز رہا ہے۔ مگر مکران یہ یہ حصہ گوادر ایک عرصے تک اس تحریک سے الگ تھلگ ہی رہا۔ اس کی وجوہات تاریخی بھی ہیں، سیاسی بھی اور معروضی بھی۔ مگر فی الوقت یہ اس کا محل نہیں۔
یہ منظرنامہ البتہ ابھی کچھ سال پہلے تبدیل ہونا شروع ہوا۔ جب گوادر پورٹ جزوی طور پر فعال ہوا اور یہاں کاروباری سرگرمیاں یک دم تیزی سے بڑھنے لگیں۔ جس میں گوادریوں کو تو کوئی حصہ کیا ملنا تھا، الٹا ان کے ذرائع روزگار چھینے جانے لگے۔ تبھی اہل گوادر کو اس استحصالی صورت حال کا اندازہ ہوا جس سے بلوچستان اور بالخصوص مکران کے دیگر حصوں کے عوام بہت پہلے ہی آگاہ ہو کر اس کے خلاف میدان عمل میں تھے۔
اہل گوادر کے ہاں رفتہ رفتہ غم اور غصے کی کیفیت جنم لینے لگی۔ اس کا اولین اظہار انہوں نے گزشتہ انتخابات میں ریاستی سرپرستی والے امیدواروں کو اپنے ووٹ کے ذریعے ناک آؤٹ کر کے کیا۔ مگر ہوا یہ کہ تین برس گزر جانے کے باوجود گوادر سے منتخب شدہ نمائندے و دیگر سیاسی جماعتیں کوئی مؤثر آواز اٹھانے میں ناکام رہے۔ نیشنل پارٹی ڈھائی سالہ حکومت میں تربت تک محدود رہی۔ گوادریوں نے اس ناروا رویے کو شدت سے