انقلاب نہ وہ لاسکتے ہیں نہ ہم جھیل سکتے ہیں
(ڈیلی طالِب)
ٹیکسی ڈرائیورز کی یہ یونیورسل عادت ہے کہ گاڑی کےشیشے سے گاہے بگاہے پچھلی نشست کو دیکھتے رہتے ہیں، پہلے ایک فقرہ پھینکتے ہیں اگر مسافر نے جواب میں غلطی سے بھی سر ہلا دیا تو یک طرفہ گپ لگانے کا سلسلہ منزل پہ پہنچ کر ہی ختم ہوتا ہے۔
ایک ڈرائیور سے ملاقات کافی عرصے پہلے ہوئی تھی مگر اس کی کہی باتیں آج بھی نقش ہیں۔ وہ بتا رہا تھا کہ کئی برس اٹلی اور دبئی میں ٹیکسی چلانے کے بعد وہ پاکستان واپس آگیا ہے کیونکہ کمانے کے لیے اس سے اچھا ملک کوئی نہیں۔ یہاں سگنل بھی توڑ دو تو پوچھنے والا کوئی نہیں، پولیس والا روک بھی لے تو کچھ لے دے کر معاملہ رفع دفع ہوجاتا ہے، بات بات پہ ٹکٹ نہیں ملتا، ٹیکسی چاہے اپنے آخری دم پہ ہو مگر گاڑی کی فٹنس چیک کرنے کا جھمیلا نہیں۔
وہ بتا رہا تھا کہ پاکستان میں ہوائی روزی کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ جو کمایا وہ اپنی ہی جیب میں جاتا ہے حکومت کو سڑک استعمال کرنے کا ٹیکس نہیں دینا پڑتا۔ ایسے شاندار خیالات بھلا کیسے کوئی بھول سکتا ہے۔
دوسرا ٹیکسی ڈرائیور جو مجھے یاد رہ گیا اس سے ابھی گذشتہ ماہ ہی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ یہ صاحب پاکستان میں شرعی نظام عدل کا نفاذ فوری چاہتے تھے جبکہ طالبان کے فٹا فٹ فیصلوں سے خاصے مرعوب تھے۔ میں نے پوچھا کہ فرض کریں سی پیک منصوبے کی کسی چینی کمپنی کو دیوانی مقدمہ دائر کرنا ہو تو وہ شرع کی رو سے کیسے انصاف حاصل کرے گی؟ وہ صاحب کہنے لگے جب سامنے شرعی عدالت کا بندہ بندوق تانے کھڑا ہوگا تو سب سچ بولیں گے چاہے چینی ہو یا جاپانی۔
اس ٹیکسی میں ہونے والی گفتگو کا یہ آخری فقرہ تھا۔ اس کے بعد گفتگو جاری رکھنا ممکن نہ تھا۔ یہ گفتگو پاکستان کی سڑکوں پہ پھرتے دو ڈرائیورز کی نہیں یہ بحیثیت قوم ہماری مجموعی عکاسی کر رہی ہے۔
پبلک ڈیمانڈ ہے کہ پولیس سڑکوں پہ لوٹ مار کرنے والوں، چوروں ڈاکووں کو پکڑے اور عدالت سے فوری سزا ملے اور ان کم بختوں کے ہاتھ کاٹے جائیں۔ فرض کریں کہ عدلیہ اور انتظامیہ یہ ہاتھ کاٹنے والا مشورہ واقعی مان لے تو پاکستان کی آدھی آبادی تو خواہ مخواہ ٹنڈی ہو جائے گی۔
بجلی چور، گیس چور، ٹیکس چور، زکواۃ چور، مسجد کے چندہ چور، چپل چور، سرکاری فنڈز چور، کام چور ۔۔۔ یعنی بے ہاتھ والوں کی فہرست لمبی ہوجائے گی۔ پولیس کو بات بے بات جملے کسنے تو آسان ہیں فرض کریں کہ پولیس واقعی فرض شناس ہو جائے اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو مرغا بنانا شروع ہو جائے تو ہر چوک پہ ایک ہجوم ہوگا۔ خواہ مخواہ ہم عالمی مذاق بن جائیں گے کہ پاکستان کی سڑکوں پہ مرغوں کا رش رہنے لگا۔
ایسا ہی مضحکہ خیز مطالبہ رشوت خوروں کے خلاف ہے کہ عدالتیں کرپٹ افراد کے خلاف کچھ کیوں نہیں کرتیں۔ بھلا ہو کہ عدلیہ اور اینٹی کرپشن والے لمبی تانے سو رہے ہیں ورنہ ہر وہ استاد جو محکمہ تعلیم والوں کو پیسے کھلا کر چھٹی پہ چلا جاتا ہے یوں ہی کورٹ کچہری میں مارا مارا پھرے۔ مرتشی پولیس والوں کو وردیاں سنبھالنا مشکل ہو جائے گا، بجلی کے میٹر ریڈر بھی بچ کہ کہاں جائیں گے سب کو رشوت میں اینٹھے لاکھوں روپوں کا حساب دینا پڑے گا۔
ایسا احتساب ملک میں انارکی پھیلا سکتا ہے یہ نہ ہو تو کیا اچھا نہیں۔ آپ اور ہم جیسے نکمے بیٹھے بیٹھے جملہ پھینک دیتے ہیں کہ جی پاکستانی عدالتوں میں جائیداد کے مقدمے نسل در نسل چلتے ہیں۔ خود سوچیں عدالتیں فوری فیصلے کرنے لگیں تو باپ کے ترکے پہ ناگ کی طرح بیٹھے کتنے ہی بھائی بے گھر ہو جائیں۔ یہ ہماری عدالتوں کی فراخ دلی ہی ہے کہ وہ بڑے ٹھیکیداروں کے مقدمے کئی کئی برس تک لٹکائے رکھتی ہیں تاکہ بلڈر جلدی سے الاٹیز کو لا بسائے۔
سوچیں یہاں کراچی کے ایک نسلہ ٹاور کو ڈھانا سمجھ نہیں آ رہا۔ عدالتیں اگر واقعی جاگ جائیں اور اسلام آباد کے گرینڈ حیات ٹاور کو گرانے کا حکم دے دے تو کتنے سیاست دان، سابق جنرل اور بیوروکریٹس اپنی کمائی کے کروڑوں روپوں سے محروم ہوجائیں گے۔
نظام انصاف کی گہری نیند میں ہماری بھلائی ہے۔ اور کچھ نہیں عدالت جنگلات پہ بنے بحریہ ٹاؤن راولپنڈی یا قبضے پہ بنے بحریہ ٹاؤن کراچی کو گرانے کا حکم دے تو کہاں جائے گی بےچاری عوام۔ کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے مضافات میں بنی آدھی آبادی تو یوں ہی کھنڈر ہوجائے گی۔ پولیس، قانون نافذ کرنے والے ادارے، عدالتیں، ججز اگر ان سب کو سسٹم قانون کے مطابق چلانے کا ایڈوینچر سوجھ جائے تو سیاست اور اسٹیبلشمنٹ کے سارے محمود و ایاز جیل میں ہوں گے۔
پھر پارلیمنٹ کون چلائے گا کبھی سوچا؟ اور سب سے آخر میں یہ ہی سوچ لیں کہ اگر واقعی ہمارا نظام انصاف ان مجرموں کو دبوچنے لگے جو مدارس، گھروں، بس اڈوں پہ بچوں سے بچپن چھینتے ہیں، جو عورتوں کی عزتوں سے کھیلتے ہیں، جو ننھی بچیوں کو نہیں چھوڑتے، جو کام کے لیے نکلی خواتین کو ہراساں کرتے ہیں تو سوچیں یہ عدالتیں کتنے وحشیوں کو تختے پہ لٹکائیں گی، کتنوں کو نامرد بنائیں گی، کتنوں کو جیل بھجوائیں گی۔
ہمارے معاشرے کی طرح ہماری عدالتیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی سٹیٹس کو یعنی جہاں ہے جیسا ہے کہ بنیاد پہ نظام کو دھکا سٹارٹ چلا رہے سب انہیں سدھرنے کے طعنے تب دیں جب ہم بھی اس قانون کا ڈنڈا کھانے کو تیار ہوں۔