گوادر دھرنا: ساحلی شہر میں گذشتہ ایک ہفتے سے دھرنے پر بیٹھے مولانا ہدایت الرحمان کون ہیں؟
(ڈیلی طالِب)
’میں تو تیار ہوں، کیا آپ تیار ہیں؟‘ گوادر کی مختلف سڑکوں پر بلوچی زبان میں کیے گئے اس سوال کی آڈیو آپ کو ضرور سننے کو ملے گی۔
گوادر میں ہر طرف اس بات کے چرچے ملیں گے کہ کیا آپ مولانا ہدایت الرحمان کے دھرنے میں شریک ہو رہے ہیں اور اگر نہیں تو کیوں؟ اسی بنیاد پر آپ کو واضح سیاسی دھڑے بھی نظر آئیں گے جہاں لوگ مولانا کے ناقدین کو شک کی نظر سے دیکھتے ہوئے بھی ملیں گے اور ان کے دھرنے میں جانے والوں کو سراہتے ہوئے بھی۔
وہیں آپ کو انتظامیہ اور حکومتی نمائندے وضاحتیں دیتے ہوئے بھی ملیں گے کہ ’کئی مطالبات کو تو حکومت نے فوراً مان بھی لیا ہے تو اب دھرنا جاری رکھنے سے کیا فائدہ؟‘
لوگوں کی بے انتہا حمایت کی ایک بڑی وجہ مولانا کے بات کرنے کا دو ٹوک انداز ہے۔ 18 نومبر کو جیٹی کے سامنے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مولانا نے کہا کہ ’جس شہر میں اقتصادی راہداری بن رہی ہو اور وہاں پینے کو پانی نہ ملے، تو ایسے سی پیک پر لعنت!‘
اسی سی پیک منصوبے کو مولانا نے متعدد بار ’پنجاب، چین اقتصادی راہداری‘ کہہ کر بھی پکارا۔
ریلی کے دوران جب ماحول کافی گرم ہو گیا اور جیٹی پر کھڑی پولیس اور ایف سی اہلکاروں نے جیٹی کے راستے کو مزید تنگ کرنے کے لیے نفری بڑھا دی تو مولانا نے شرکا سے واپس دھرنے میں جانے کو کہا اور تقریباً سو سے زائد افراد واپس دھرنے کے مقام کے لیے چل پڑے۔
یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ سنہ 2013 سے 2014 تک چند مزاحمتی سیاسی و سماجی کارکنان کو ایسے دھرنوں اور بیٹھک میں شریک ہونے کے بعد مبینہ طور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے اٹھایا گیا تھا جہاں پر پاک چین اقتصادی راہداری پر تنقید کی گئی یا نعرے بازی کے دوران نام دہرایا گیا تھا۔
چونکہ بلوچستان کی سیاست ہمیشہ سے گٹھ جوڑ اور بظاہر مشکلات کا شکار نظر آتی ہے، اسی لیے جب ایک سیاسی و مذہبی جماعت کے رکن بلوچستان کے حقوق کی بات اس انداز میں وہاں کے معاشی گڑھ گوادر میں پولیس اور ایف سی کے سامنے کریں تو وہ حیرت کے ساتھ ساتھ شکوک و شبہات بھی پیدا کرتی ہے۔
اور پھر یہی سوال ذہن میں آتا ہے کہ گوادر کے ’وائی چوک‘ پر پچھلے سات روز سے دھرنا دیے مولانا ہدایت الرحمان دراصل ہیں کون؟ یا پھر ان کے پیچھے کون ہے؟ اور گوادر کے خاصے خاموش سیاسی منظر نامے پر وہ اچانک سے کیسے نمودار ہوئے؟ اس سوال کا جواب آپ کو مختلف لوگوں سے مختلف ملے گا۔
یاد رہے کہ 15 نومبر سے اس دھرنے کا آغاز کیا گیا تھا۔ اس دھرنے میں شامل شرکا کے اہم مطالبات میں بلوچستان کی سمندری حدود میں ٹرالروں کی غیر قانونی ماہی گیری کو روکنا، ایران سے آنے والی اشیا کی آمد کی راہ میں رکاوٹوں کا خاتمہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سکیورٹی فورسز کی ان چیک پوسٹوں کا خاتمہ ہے جن سے مقامی لوگوں اور ماہی گیروں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
’اگر میرے گھر میں پانی نہیں تو مولانا کے گھر میں بھی نہیں ہو گا‘
19 نومبر کو دوپہر کی نماز کے بعد جب مولانا کے دھرنے میں جانے کا موقع ملا تو وہاں ان سے پہلا سوال یہی کیا کہ آپ اچانک کہاں سے آ گئے اور پہلے کہاں تھے؟
انھوں نے جواب دیا ’میں کہیں سے اچانک سے وارد نہیں ہوا۔ میں اسی سرزمین کا ہوں۔ ایک کارکن بھی ہوں۔ میں نے بلدیاتی الیکشن میں حصہ بھی لیا، قومی و صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں بھی حصہ لیا۔‘
انھوں نے کہا کہ یہ تمام باتیں وہ پہلے بھی کرتے تھے لیکن ’فرق یہ ہے کہ لوگ اب دھیان دے رہے ہیں۔‘
گوادر کے جس چوک پر مولانا اور علاقے کے دیگر شہری دھرنا دیے بیٹھے ہیں اس کا اصل نام وائی چوک ہے۔ اس کے اس نام کی وجہ یہ ہے کہ یہاں سے ایک سڑک پورٹ اور دوسری جیٹی کی طرف جاتی ہے اور پھر ایک سیدھی سڑک شہر کی طرف واپس آتی ہے لیکن شہریوں نے اب اس کا نام دھرنا چوک رکھ دیا ہے۔
اس دھرنے میں بچے، بوڑھے، ماہی گیر، مزدور اور دکانداروں کے ساتھ ساتھ وہ افراد بھی موجود ہیں جو کئی عرصہ پہلے سیاسی سرگرمی سے لاتعلقی کا اظہار کر چکے ہیں۔
مولانا ہدایت الرحمان بلوچ کا تعلق گوادر کے مضافاتی علاقے سُر بندن سے ہے اور ان کا خاندان شروع سے ماہی گیری سے منسلک رہا ہے۔ انھوں نے اپنی سیاسی جدوجہد کی شروعات سنہ 2003 میں بطور جماعتِ اسلامی کی طلبہ یونین اسلامی جمیعتِ طلبہ سے کی اور مذہب و فِق کی بنیادی تعلیم لاہور سے حاصل کی۔
وہ بلدیاتی الیکشن میں بھی حصہ لیتے رہے ہیں۔ نیشنل پارٹی کے ایک رکن کے مطابق ماضی میں مولانا ہدایت الرحمان بطور صوبائی جنرل سیکریٹری نیشنل پارٹی کا بھی حصہ رہے ہیں لیکن مولانا نے اس بات کی تردید کی۔
گوادر سے تعلق رکھنے والے اور مولانا کے دھرنے میں شریک سماجی کارکن ماجد جوہر نے کہا کہ ’ہم نے سنہ 2007 سے اب تک سب کو آزما کر دیکھ لیا۔ آل پارٹیز کانفرنس کو بھی اور ان سے منسلک دیگر سیاسی و قوم پرست جماعتوں کو بھی۔ وہ ہمارے لیے کبھی سڑک پر نہیں سوئیں گے۔ یہ صرف مولانا کر رہے ہیں۔ باقی تو سردار زادے ہیں۔ مجھے پتہ ہے کہ اگر میرے گھر میں پانی نہیں تو مولانا کے گھر میں بھی نہیں ہو گا۔‘
ایک اور کارکن اور یوٹیوبر نوید محمد نے کہا کہ ’بات یہ ہے کہ میں جو سوچ رہا ہوں مولانا وہ ہی باتیں کر رہے ہیں۔‘
گوادر میں جہاں ایک بڑی تعداد مولانا کو مانتی ہے اور ان کے ہر لفظ پر کان دھرے بیٹھی رہتی ہے وہیں چند عناصر ان کو ملنے والی ’سوفٹ ٹریٹمنٹ‘ کے بھی خلاف ہیں۔
گوادر سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار عین قادر نے کہا کہ ’جو قوتیں صحافت کو لگام دینے میں اور بلوچستان کی سیاست کو کنٹرول کرنے میں مصروف رہتی ہیں ان کو قوم پرست جماعتوں کی جانب سے کی گئی باتیں چُبھتی ہیں اور فوراً ردعمل دیکھنے میں آتا ہے لیکن یہی باتیں جب مولانا کرتے ہیں تو کچھ نہیں کیا جاتا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان سے نرمی برتی جا رہی ہے۔‘
جن باتوں کا تذکرہ عین قادر کر رہے ہیں، اس کی ایک کڑی ملتی ہے مولانا کی سُر بندن کے مقام پر کی گئی تقریر سے۔ اگست میں سُر بندن کے دھرنے کے دوران مولانا ہدایت الرحمان نے تقریر میں کہا کہ ’اگر میں جماعتِ اسلامی سے منسلک نہ ہوتا تو (علیحدگی پسند لیڈر) اللّہ نذر کے ساتھ پہاڑوں میں ہوتا۔‘
اس دھرنے کے بعد مولانا کا نام نہ صرف فورتھ شیڈول میں ڈال دیا گیا بلکہ انھیں تُربت جانے سے بھی روک دیا گیا لیکن عین قادر کہتے ہیں کہ ’جو باتیں مولانا نے سُر بندن کے مقام پر دھرنے میں کی ہیں وہ اگر کسی قوم پرست جماعت کے رکن نے کی ہوتیں تو یا تو وہ گرفتار ہو چکا ہوتا یا غائب کر دیا گیا ہوتا۔‘
اسی سے منسلک ایک واقعہ گوادر کا ہی ہے جہاں نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے کارکنان کو پانی اور بجلی کی کمی پر احتجاج کرنے پر مارا پیٹا گیا اور پھر اس واقعے کی ویڈیو وائرل ہو گئی۔ جس کے بعد یہ سوال کیا گیا کہ اسی گوادر کے دوسرے مقام پر موجود مولانا ہدایت الرحمان ایسی کیا نئی بات کر رہے ہیں جو کسی اور نے اس سے پہلے نہیں کی؟
یہ سوال جب مولانا ہدایت الرحمان سے کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’چالیس سال پہلے پرانے قوم پرست بات بھی کرتے تھے اور جیل بھی کاٹتے تھے۔ مجھے ان کے نظریات سے اختلاف ہو بھی سکتا ہے اور اختلاف ہے بھی لیکن موجودہ قوم پرست اس لیے جیل نہیں جاتے کیونکہ انھوں نے سیاسی سودے بازی شروع کر دی ہے۔ عام شہریوں کی چیک پوسٹوں پر تذلیل پر بات نہیں کر پاتے۔ میں کرتا ہوں اس لیے کھٹکتا ہوں۔‘
اس وقت مولانا ہدایت الرحمان کی زیادہ تر انتظامی باگ دوڑ جہاں جماعت کے کارکنان اٹھا رہے ہیں، وہیں لوگوں تک مولانا کا پیغام پہنچانا اور سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ ٹرینڈ چلانے کی ذمہ داری نوجوان کارکنان کے ہاتھوں میں ہے۔ مولانا کے گیارہ مطالبات بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہے ہیں جس پر ہر کوئی اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر رہا ہے۔
’میرے پاس عوام کی طاقت ہے‘ مولانا نے اپنے پاس کھڑے لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے پاس سات سے آٹھ ہزار نوجوان ہیں۔ اسی لیے جو چاہتے بھی ہیں کہ مجھ پر ہاتھ اٹھائیں ان کو خوف بھی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ میری کوئی ان سے (یعنی بیوروکریسی سے) کوئی مصلحت ہے۔‘
اسی کے بارے میں ایک مقامی فرد نے نام ظاہر کیے بغیر کہا کہ ’مذہبی جماعتوں کی ریلی اور ایک قوم پرست ریلی میں واضح فرق یہ ہے کہ قوم پرست جماعت کے تین سو بامعنی لوگ بھی مدرسے کے ڈیڑھ لاکھ مشتعل طالبعلموں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔‘
’جس کی واضح مثال آپ کو پاکستان میں ہونے والی کئی مذہبی ریلیوں اور اس کے بعد ہونے والے مذاکرات سے مل سکتی ہے۔ ریاست کبھی بھی کسی مذہبی جماعت کا مقابلہ نہیں کرے گی۔‘
تو کیا مولانا حکومت یا انتظامیہ سے مذاکرات کریں گے؟
مولانا کہتے ہیں کہ ’آج تک جتنے بھی دھرنے ہوئے ہیں وہ صبح 10 بجے شروع ہو کر دوپہر 12 بجے ختم ہوئے ہیں۔‘
’یہ وہ دھرنا نہیں۔ انتظامیہ میں سب کو پتا ہے کہ میں دھرنے میں ایک ہفتے سے بیٹھا ہوں لیکن یہ سوچ میں ہیں کہ مولانا کے پاس کون جائے گا اور ان کی باتیں کون منوائے گا۔ ان کو پتا ہے کہ مجھے نہ لالچ دے سکتے ہیں نہ دھمکا سکتے ہیں۔‘
گوادر میں لوگوں کا کہنا ہے کہ مولانا وہ تمام باتیں کر رہے ہیں جن کے کرنے پر پابندی بھی ہے اور خوف بھی۔
گوادر کے شہری ماجد مراد نے کہا کہ ’اس بار نوجوان تنگ ہیں، روزگار نہیں اور سیاسی قیادت غیر حاضر ہے۔ ایسے میں اگر کوئی ان کا ساتھ دیتا ہے، ان کی بات کرتا ہے، تو آپ کے خیال میں یہ نوجوان کس کا ساتھ دیں گے؟‘
ضلعی انتظامیہ نے بی بی سی کو دیے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’صوبائی حکومت نے دھرنے کے شرکا کے اکثر مطالبات مان لیے ہیں۔ دھرنے کے منتظمین عوام کو استعمال کر کے پوائینٹ سکورنگ کر رہے ہیں۔ گیارہ اور اہم ترین مطالبات تسلیم کر چکے ہیں۔‘
ضلعی انتظامیہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مولانا کا ’سب سے اہم مطالبہ ٹرالر سے سمندر کو آزاد کرانا ہے جس پر محکمہ فشریز سمیت دیگر ادارے کام کر رہے ہیں اور اس وقت ضلع گوادر کی سمندری حدود میں کوئی غیر قانونی ٹرالر موجود نہیں۔‘
ترجمان نے کہا کہ ’صوبائی حکومت نے غیر ضروری چیک پوسٹوں کا خاتمہ کر دیا ہے داخلی اور خارجی راستوں پر چیک پوسٹیں سکیورٹی وجوہات کی بنا پر موجود ہے، جس میں بھی عام شہری کو کوئی پریشانی کا سامنا نہیں۔ صوبائی حکومت نے شرکا کے مطالبے پر گوادر میں شراب کے سٹور بھی سیل کر دیے ہیں جبکہ ضلع گوادر میں کنٹانی کے مقام پر آزادانہ باڈر ٹریڈ کی اجازت دے دی ہے۔‘
جبکہ مولانا نے انٹرویو کے اختتام میں کہا کہ ’میں تو آگے حالات بہت خراب دیکھتا ہوں۔ اگر صوبائی و وفاقی حکومت کی غیر سنجیدگی رہی تو یہ سی پیک نہیں چلے گا۔‘
’اگر ایسے حالات میں کوئی غیر سنجیدہ بندہ آجائے اور اس پُر امن دھرنے کو غیر قانونی طرف لے جائے تو جو ہو گا وہ سرکار کے ہاتھ میں نہیں رہے گا۔‘